بچھڑ کر تم نے کیا کرنا ہے
میں نے تو غم سے مرنا ہے
دامن بھی آنکھوں سے کہتا ہے
یہ آنسو ہیں کہ جھرنا ہے
میں تو پردیسی ہوں میری چھوڑو
تم نے اس عید پہ کیا کرنا ہے
میرا دل جس کے قبضے میں ہے
اس دل کے آگے تو دھرنا ہے
مجھ کو ہجر کے حوالے کر کے
اب کس آدم زاد سے لڑنا ہے
میری شام اس دریا پر کٹ جاتی ہے
جس پر سےتم نے روز پانی بھرنا ہے
زندہ رہ کر جن کی گردن میں سریا ہو
عبدالغفار مر کر انھی لوگوں نے اکڑنا ہے
تبصرہ لکھیے