بلا شبہ تعلیم انسانی زندگی کی معراج ہے۔قرآن کی آیت کا مفہوم ہے کہ علم والے اور جاہل برابر نہیں ہو سکتے ۔تو گویا علم جیسا بھی ہو،پاکستانی ہو یا ولایتی، بہر حال انسان کو اس سے بہتر بنا دیتا ہے جو یہ بھی حاصل نہیں کرتا۔چند دن پہلے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو نظر سے گزری جس میں ایک موصوف تعلیمی نظام کے بخئیے اُدھیڑنے میں مصروف تھے۔ موصوف بہت سے چیزوں کا موازنہ ان کی قدیم اور موجودہ حالت سے کر رہے تھے مثلا جب گاڑی ایجاد ہوئی تھی تو اس کی حالت ایسی تھی اور آج کے دور میں گاڑی کی حالت غیر معمولی حد تک بہتر ہے اس طرح کی اور بھی کئی مثالیں دے کر مودعا الیہ نے پھر وہ چیز دیکھائی جس کے لئے انہوں نے اپنی ویڈیو پر اتنا پیسہ لگایا تھا۔ ایک کلاس روم کی تصویر دیکھائی گئی جو غالبا صدیوں پرانی تھی پھر موجودہ دور کے کلاس روم کی تصویر دکھا کر ان دونوں تصویروں میں مماثلت ظاہر کرکے یہ تاثر دیا کہ تعلیم کے میدان میں آج بھی وہی طریقے استعمال کئے جا رہے ہیں جو صدیوں پہلے رائج تھے (ویڈیو میں موجود لوگ بھی اُس حقیقت کی تائید کر رہے تھے)۔ اگر اس بات کو من و عن مان لیا جائے تو یہ ہما رے ہاں پائے جانے والے لارڈ میکالے کی باقیات اور لنڈے کے لبرلز کے منہ پر وہ تمانچہ ہے جس سے کانوں میں گھنٹی بجتی رہتی ہے۔جو مغربی تعلیمی نظام کو ناشتے سے بھی زیادہ ضروری سمجھتے ہیں ۔اگر ان کو اپنے تعلیمی نظام میں خامیاں نظر آرہی ہیں تو ہم کیوں بیگانی شادی میں اپنے گال لال کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
اُن کہی باتوں کو اگر سچ مان لیا جائے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اس سارے نظام تعلیم میں ابھی بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے ابھی بھی ایسا نظام نہیں بن پایا جس کی تقلید کی جا سکے۔رہی بات ہمارے نظام تعلیم کی تو وہ ہمارے پاس 1400 سال پہلے کا موجود ہے، اور یہی ہمارا اصل نظام تعلیم ہے۔ ہمیں کسی سے کوئی نظام مستعار لینے کی کیا ضرورت ہے؟بقول بانو قدسیہ مانگی ہوئی محبت کا مزہ بگڑی ہوئی شراب جیسا ہوتا ہے تو مانگا ہوا نظام ہمیں کتنا بگاڑ سکتا ہے اس کا اندازہ لگانا کوئی اچنبا نہیں ہوگا۔ہمارے معاشرے کے لئے وہی تعلیمی نظام بہتر ہے جو میرے نبیؐ نے ہمیں بتایا ہے ۔کیا اُس دور میں صحابہ کرامؓ نے دوسری تہذیبوں کے نظا م سے استفادہ کیا یاں انہوں نے حضورؐ کے بتائے ہوئے اصولوں اور اقدار کو زندگی کا شعار بنایا؟ مجھے یقین ہے کہ آپ بھی موخرالذکر کی تائید کریں گے۔
کیا اس دور میں لوگ کارو بار اور تجارت تعلیم حاصل کرنے کے بعد کرتے تھے؟کیا انہوں نے کسی دوسرے ملک کی اعلی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی تھی؟کیا حضورؐکے ساتھی حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ سے بڑا کوئی کاروباری گزرا ہے؟کیا وہ حضورؐ کے سایہ اقدس میں رہ کر انسانی تاریخ کے امیرترین شخص نہیں بنے ؟ان کے کاروبار کے جو اصول تھے وہ کیا انہوں نے کسی یونیورسٹی سے سیکھے تھے؟ دنیا کی بڑی سے بڑی ملٹی نیشنل کارپوریشنز کو اٹھا کے دیکھیں آپ کو ان کی کاروباری وسعت میں انہی بنیادی اصولوں کی آمیزش نظر آئے گی۔ ان کے کاروبار کے تین اصول تھے۔
۱۔کبھی ادھار نہیں خریدا، نہ کبھی ادھار بیچا
۲۔کبھی ذخیرہ اندوزی اور زائد منافع نہ کمایا۔
۳۔ ہمیشہ چیز کا نقص بتا کر بیچتے۔
کیا یہ اصول انہیں کسی دوسری تہذیب نے سکھائے تھے؟ان کی وفات کے وقت ان کے پاس 3ارب سے زائد دینار تھے اور اُس وقت دینا ر اصلی سونے کا ہوتا جس کا وزن (4.3 گرام) ہوتا تھا۔اس کا موازنہ اگر آج کی دولت سے کیا جائے تو آپ 528 بلین ڈالر کے ساتھ ایلون مسک سے کئی گنا زیادہ امیر ہیں جبکہ ایلون مسک کے پاس 2025کے مطابق صرف 319 ارب ڈالر ہیں۔
ہماری ترقی اور یگانگت کا انحصار اسلامی اقدار سے جڑے رہنے میں ہی موقوف ہے۔آپ دنیا میں کسی بھی شعبے میں تعلیم حاصل کرنے کہیں بھی چلے جائیں وہاں کے اصولوں سے کوئی ایسا اصول لا کر دکھائیں جس کا عملی نمونہ حضورؐ نےاپنی 63 سالہ ظاہری زندگی میں نہ کرکے دکھایا ہو۔اے مغرب کے چھوڑے پانی میں ابلے ہوئے لبرلزکی انکھیں اس وقت چندیا جاتی ہیں جب وہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر میں خطبہ حجتہ الودا ع ہو بہو درج دیکھتے ہیں۔ مغرب کی وادیوں کی تعریف میں تم یہ کیوں بھول جاتے ہوکہ یہ ساری کائنات سجائی ہی میرے حضورؐ کے لئے ہے ۔ جس کے لئے یہ دنیا بنائی گئی تو کیا اس کے امتی اس دنیا کے مالک نہ ہوئے؟ ذرا سی ہمت ہمیں دوبارہ اُسی مقام پر واپس لا سکتی ہے۔ اگرچہ دنیاوی علوم میں پیچھے رہ جانا ایک پریشان کن لمحہ ہے لیکن اس سے بھی پریشان کن بات ماضی کو یکسر بھلا دینا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی ایک اسلامی قدر اگر ایک طرف رکھ دی جائے تو دنیا کی تمام جامعات کی تعلیم اس قدر کے سامنے ماند پڑ جائے۔ میری ناقص رائے میں اور ہو سکتا ہے کہ میں غلط ہوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نظام تعلیم کتابی اور کاغذی موشگافیوں سے الگ ایک خالصتا عملی نظام تھا جسے آپ جدیدیت میں (Teacher Centered Approach)بھی کہہ سکتے ہیں.
ان سارے تاریخی واقعات اور حوالہ جات کی ترتیب ہمیں بتاتی ہے کہ جو کر کے دکھایا جائے وہ اثر رکھتا ہے. انہیں یہ تو یاد رہتا ہے کہ قیدی کافروں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان بچوں کو پڑھانے کا کہا تھا لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ کیا حکمت عملی تھی جس کی وجہ سے ان پڑھے لکھے کافروں کو قید کر لیا گیا تھا؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی تو ایک طرف ان کا ایک ایک عمل ہمارے لیے پورے پورے موڈیول کی حیثت رکھتا ہے۔ ہمیں اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی تعلیم کو جدید تقاضوں کے مطابق رکھیں لیکن اس کا ماخذ وہ اسلامی اقدار اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لب اقدس سے نکلنے والا ہر وہ جملہ ہو جو تب صحابہ اکرام کے لئے مشعل راہ تھآ اوراب ہمارے لئے وسیلہ نجات ہو۔
تبصرہ لکھیے