تاریخ ہمیشہ ان لوگوں کو آزماتی ہے جو اصولوں کے ساتھ جیتے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ جب ایک نفیس اور شائستہ انسان کو غیرت کا امتحان درپیش ہو، تو وہ کیا کرے؟ کیا وہ سقراط کی طرح زہر کا پیالہ پی لے، یا نطشے (Nietzsche) کی طرح بغاوت کو فلسفہ بنا لے؟ کیا وہ دیوجینس (Diogenes) کی طرح سادگی میں عافیت ڈھونڈے، یا ژاں پال سارتر (Jean-Paul Sartre) کی مانند اپنی تقدیر خود لکھنے کا فیصلہ کرے؟
یہ سوال صرف فلسفے تک محدود نہیں، بلکہ حقیقت کی دنیا میں بھی یہی کشمکش ہر اصول پسند انسان کو درپیش ہوتی ہے۔ سید زہیب شاہ کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے—ایک ایسے شخص کی کہانی جو اپنی شائستگی اور عزتِ نفس کے بیچ پھنسا، مگر آخر میں اس نے خود کو قربانی دینے کے بجائے تقدیر کو چیلنج کر دیا۔
بہلول، جو بظاہر مجذوب دکھائی دیتے تھے، مگر درحقیقت سب سے زیادہ دانا اور باشعور تھے۔ وہ بادشاہوں کے دربار میں مسخرہ کہلاتے تھے، مگر درحقیقت وہی دربار کے سب سے زیادہ ذہین انسان تھے۔ یہی معاملہ نفیس لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ دنیا ان کی شرافت کو کمزوری سمجھتی ہے، مگر جب وہ بولتے ہیں، تو بڑے سے بڑا بادشاہ بھی ان کے الفاظ کے وار کو نہیں سہہ پاتا۔ سقراط، جس نے سچائی اور اخلاقیات کی تعلیم دی، مگر دنیا نے اسے زہر کا پیالہ تھما دیا۔ وہ چاہتا تو اپنے نظریات سے پیچھے ہٹ سکتا تھا، مگر اس نے موت کو قبول کر لیا، کیونکہ اصولوں پر سمجھوتہ کرنا اس کے لیے ممکن نہیں تھا۔ یہی وہ قربانی ہے جو نفیس لوگوں کو اکثر دینی پڑتی ہے۔ ابوذر غفاری، جو طاقتور حکمرانوں کے سامنے بے دھڑک کھڑے ہو جاتے، اور ظلم کے خلاف ہمیشہ اپنی آواز بلند رکھتے۔ انہیں صحرا میں تنہا جلا وطن کر دیا گیا، مگر انہوں نے اپنے اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کیا۔
یہی آزمائش زہیب شاہ صاحب کی زندگی میں بھی آئی۔ سید زہیب شاہ، ایک شائستہ، کم گو، نفیس اور اصول پسند شخصیت۔ ان کا اصول تھا کہ عزت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا، چاہے اس کی قیمت کچھ بھی ہو۔ یہ واقعہ کلور کوٹ کالج کے ہاسٹل کا ہے۔ وہ پرامن نیند میں تھے کہ اچانک ہاسٹل وارڈن نے ان پر پانی کی بالٹی انڈیل دی۔ شاید وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ ایک شریف انسان خاموش رہے گا، مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ شائستگی کا مطلب بزدلی نہیں ہوتا۔ شاہ صاحب نے فوراً ویپر (چمڑے کا بیلٹ) اٹھایا اور وارڈن کی ایسی دھنائی کی کہ اس کا غرور خاک میں مل گیا۔ انتظامیہ نے انہیں طلب کیا اور معافی مانگنے کو کہا، مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ "میں اپنی عزت پر حملہ کرنے والے کے سامنے سر نہیں جھکا سکتا۔ اگر اصولوں کی قیمت ایکسپلشن ہے، تو میں قبول کرتا ہوں!" یہی ہوا۔ انہیں کالج سے نکال دیا گیا، مگر ان کے اصول قائم رہے۔
بھکر ڈگری کالج سے انٹر کے بعد، وہ " یونیورسٹی( لاہور") چلے گئے اور قانون (Law) کی تعلیم حاصل کی۔ یہاں، ان کی زندگی میں محبت کا پہلا امتحان آیا۔ یہ کوئی عام محبت نہیں تھی۔ یہ کسی جذباتی کہانی سے زیادہ، فکری وابستگی اور ذہنی ہم آہنگی کا معاملہ تھا۔ یہ محبت قانون کی دنیا میں پیدا ہوئی تھی، اور قانون کی طرح ہی سخت اصولوں پر قائم تھی۔ وہ لڑکی بھی ان کی طرح ذہین، خوددار، اور اصولوں کی پرستار تھی۔ یہ محبت دو سال تک پروان چڑھی، مگر قسمت نے کچھ اور فیصلہ کر رکھا تھا۔ شاید یہ محبت دنیا کے لیے نہ تھی، بلکہ وہ امانت تھی جو وقت کی گود میں رکھ دی گئی تھی۔ "محبت وہ بندھن نہیں جو صرف قربت پر منحصر ہو، بلکہ وہ روشنی ہے جو وقت کے ہر اندھیرے میں جلتی رہتی ہے!"
تعلیم کے دوران جب وہ اپنے گاؤں واپس آئے، تو انہیں معلوم ہوا کہ ان کے والد، جو علاقے کے ایک معزز اور عزت دار بزرگ تھے، مخالفین کی بدتمیزی کا نشانہ بنے۔ جب وہی شخص، جس نے ان کے والد کی بےعزتی کی تھی، ان کے سامنے بیٹھا، تو شاہ صاحب نے خاموشی کے بجائے عمل کو ترجیح دی، انہوں نے پانی کا جگ اٹھایا اور اس کے سر پر دے مارا! یہ محض غصہ نہیں تھا، بلکہ وہ اعلان تھا کہ عزت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔
یہ دشمنی خونی رنگ میں ڈھل گئی۔ کچھ دن بعد، وہی گروہ ان کے گھر پر حملہ آور ہوا اور شدید فائرنگ شروع کر دی۔ مگر وہ یہ بھول گئے تھے کہ وہ ایک ایسے شخص سے ٹکرا رہے تھے جس کی شائستگی صرف سکون کے وقت ہوتی ہے، جنگ کے وقت نہیں! شاہ صاحب نے چھت پر چڑھ کر خود دشمنوں پر جوابی فائر کھول دیا۔ "گولیاں میں نے چلائی تھیں، کیونکہ عزت بچانے کے لیے بعض اوقات نرمی کو چھوڑنا پڑتا ہے!" نتیجہ یہ نکلا کہ دشمن پسپا ہو گئے، کئی زخمی ہوئے، اور باقی اپنی جان بچا کر بھاگ گئے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب یہ ثابت ہو گیا کہ نفیس لوگ جب بغاوت پر آتے ہیں تو تاریخ رقم کر دیتے ہیں۔
یہاں ایک بنیادی نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے. انسان کی زندگی چار چیزوں کا مجموعہ ہوتی ہے، عزت و حیا،اخلاق،شعور،ایمان. عزت اور حیا انسان کے کردار کو شفافیت عطا کرتی ہیں، معاشرے میں اس کا مقام بلند کرتی ہیں اور اس کی مقبولیت میں اضافہ کرتی ہیں۔ حسنِ اخلاق روزمرہ زندگی کے معمولات کو آسانی فراہم کرتا ہے اور انسان کو دوسروں کے لیے باعثِ راحت بناتا ہے۔ شعور انسان کو دوسروں کو سمجھنے، ان سے مؤثر انداز میں مخاطب ہونے، زمانے کی پیچیدگیوں کو جانچنے اور ان سے نمٹنے کی صلاحیت دیتا ہے۔ ایمان وہ طاقت ہے جو غیب سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ انسان کے اندر ایسی صلاحیت پیدا کرتا ہے جو اسے ہمیشہ صحیح اور غلط میں فرق کرنا سکھاتی ہے۔ اگر ان میں سے کسی ایک چیز کی کمی ہو جائے تو باقی تمام اوصاف بھی آہستہ آہستہ انسان کے کردار سے ختم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ جو شخص ان چاروں خوبیوں میں کامل ہو، وہی دنیا میں سکون اور آخرت میں کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔
ان آزمائشوں کے باوجود، شاہ صاحب نے اپنی تعلیم کا دامن نہیں چھوڑا۔ انہوں نے "international university " میں داخلہ لیا اور Criminology میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ یہ علم انہیں نہ صرف قانون کا ماہر، بلکہ دنیا کے پیچیدہ سماجی ڈھانچے کو سمجھنے والا بنا چکا تھا۔ آج بھی وہ " University " میں پڑھ رہے ہیں اور ساتھ ہی آن لائن قانونی مشاورت میں بھی سرگرم ہیں۔اور اس سے ہم نے یہی سیکھا ہے کہ محبت ایک مقدس عہد ہے، یہ وقتی جذبات نہیں، بلکہ وہ روشنی ہے جو وقت کے ساتھ مزید چمکتی ہے، چاہے حالات کیسے بھی ہوں۔ عزت پر کبھی سمجھوتہ نہیں ہوتا، جب اصولوں کا امتحان آئے، تو ایک سچا انسان سب کچھ گنوا سکتا ہے، مگر اپنی عزت کو داغدار نہیں ہونے دیتا۔ سید زہیب شاہ صاحب کی کہانی یہ ثابت کرتی ہے کہ جب ایک نفیس شخص بغاوت پر آتا ہے، تو وہ صرف اپنی تقدیر نہیں، بلکہ تاریخ کو بھی بدل دیتا ہے۔
تبصرہ لکھیے