کئی لوگ یہ سوال پوچھتے ہیں کہ ان کے پاس موجود سونا تو نصاب سے کم ہے، لیکن کچھ نقدی بھی ہے، تو نقدی اور سونے کی قیمت ملائیں، تو کل رقم سونے کے نصاب سے کم رہتی ہے، لیکن چاندی کے نصاب سے بڑھ جاتی ہے، تو کیا اس صورت میں زکوٰۃ فرض ہوتی ہے یا نہیں؟
اس موضوع پر تحقیق کے بعد میری جو ناقص راے بنی ہے اس کا خلاصہ میں پیش کیے دیتا ہوں، وباللہ التوفیق:
الگ الگ نصاب، الگ الگ زکوٰۃ
سونے کا نصاب الگ ہے اور چاندی کا الگ۔ کسی کے پاس اس کی ضروریات اور قرضوں وغیرہ کی ادائیگی کے بعد بچت صرف سونے کی صورت میں ہو، اور اس پر سال گزر جائے، تو یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ سونا نصاب سے کم تو نہیں؟ اگر وہ سونے کے نصاب کے برابر یا اس سے زیادہ ہو، تو اس پر زکوٰۃ فرض ہوگی، ورنہ نہیں۔ اسی طرح اگر کسی کے پاس صرف چاندی ہو، تو دیکھا جائے گا کہ چاندی کا نصاب پورا ہوتا ہے یا نہیں؟ اس صورت میں سونے کےلیے سونے کا، اور چاندی کے لیے چاندی کا نصاب ہوگا۔ یہاں مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔
خلط کا مسئلہ
کسی کے پاس کچھ سونا اور کچھ چاندی ہو، تو اب کیا کیا جائے گا؟ یہاں کئی ذیلی صورتیں ممکن ہیں:
1۔ اگر سونا اور چاندی اپنے اپنے نصاب سے زیادہ ہوں، تو ظاہر ہے کہ زکوٰۃ فرض ہوگی۔ یہاں بھی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔
2۔ اسی طرح اگر سونا اور چاندی اپنے اپنے نصاب سے بھی کم ہوں، اور ان کے مجموعے کی قیمت سونے کے نصاب سے بھی کم ہو اور چاندی کے نصاب سے بھی کم ہو، تو اس صورت میں زکوٰۃ فرض نہیں ہوگی۔ یہاں بھی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔
واضح رہے کہ یہ صرف تصویر پوری کرنے کےلیے ہے، ورنہ عملاً آج کل یہ صورت بنتی نہیں ہے کیونکہ کسی کے پاس ایک تولہ سونا ہو،تو اس کی قیمت تین لاکھ ہے، اور ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت پونے دو لاکھ بنتی ہے۔ اس لیے کسی کے پاس ایک تولہ سونا اور ایک تولہ چاندی ہو، تو بھی ان کی مجموعی قیمت چاندی کے نصاب سے بڑھ جاتی ہے۔
3۔ کسی کے پاس کچھ سونا اور کچھ چاندی ہو اور ہر ایک اپنے اپنے نصاب سے کم ہو، لیکن ان دونوں کی مجموعی قیمت سونے کے نصاب سے زیادہ ہو، تو اس صورت میں زکوٰۃ فرض ہوگی۔ یہاں بھی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔
4۔ کسی کے پاس کچھ سونا اور کچھ چاندی ہو اور ہر ایک اپنے اپنے نصاب سے کم ہو، لیکن ان دونوں کی مجموعی قیمت چاندی کے نصاب سے زیادہ ہو، تو اس صورت میں زکوٰۃ فرض ہوگی یا نہیں؟ مسئلہ یہاں پیدا ہوتا ہے۔
اس صورت میں عام طور پر علماے کرام نے چاندی کے نصاب کو معیار مانا ہے اور کہا ہے کہ اگر مجموعی قیمت چاندی کے نصاب کے برابر یا اس سے زیادہ ہو، تو زکوٰۃ فرض ہوگی۔ وہ اسے ’انفع للفقراء‘ قرار دیتے ہیں، یعنی غریبوں کےلیے زیادہ فائدہ مند، کیونکہ اس طرح زیادہ لوگوں پر زکوٰۃ فرض ہوجاتی ہے، خواہ بہت سے لوگوں پر واجب ہونے والی زکوٰۃ کی الگ الگ مقدار بہت تھوڑی ہو۔ مثلاً کسی کے پاس 40 تولے چاندی ہو، تو اس پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے، لیکن اگر اس کے ساتھ 2 ماشے سونا بھی ہو، تو اس چاندی اور سونے کی کل قیمت آج 1 لاکھ 70 ہزار روپے بنتی ہے، جبکہ چاندی کے نصاب، یعنی ساڑھے 52 تولے چاندی، کی قیمت آج 1 لاکھ 60 ہزار روپے بنتی ہے۔ یوں اس راے کے مطابق اس شخص پر زکوٰۃ فرض ہوگی، جو ڈھائی فیصد کے حساب سے 4 ہزار 2 سو 50 روپے بنتے ہیں۔
تاہم میری ناقص راے میں یہ موقف درست نہیں ہے اور دو بڑی وجوہات کی بنا پر میں اسے’انفع للفقراء‘ بھی نہیں سمجھتا:
ایک یہ کہ آج کے دور میں کسی کے پاس 1 لاکھ 70 ہزار روپے ہوں، تو کیا وہ امیر نہیں ہوتا ، جبکہ آپ اسے صاحبِ نصاب قرار دیتے ہیں، تو وہ شرعاً ’فقیر‘ نہیں ہے اور اسی لیے وہ زکوٰۃ کے مستحقین کی فہرست سے نکل جاتا ہے۔ گویا آپ انفع للفقراء کا معاملہ اس لحاظ سے دیکھتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں پر زکوٰۃ فرض ہو، حالانکہ اس طرح زیادہ سے زیادہ لوگ زکوٰۃ وصول کرنے کا حق کھو بیٹھتے ہیں، جبکہ درحقیقت انھیں ضرورت ہوتی ہے۔
دوسری یہ کہ جس پر زکوٰۃ فرض ہو، اس پر عید الاضحیٰ کے موقع پر قربانی بھی واجب ہوتی ہے۔ حنفی فقہاے کرام نے قربانی کا جو نصاب بیان کیا ہے، اس کا تعلق زکوٰۃ کے نصاب سے کچھ یوں بنتا ہے کہ جس پر قربانی واجب ہو، ضروری نہیں کہ اس پر زکوٰۃ بھی فرض ہو، لیکن جس پر زکوٰۃ فرض ہو، اس پر قربانی بھی ضرور واجب ہوتی ہے (اگر قربانی تک وہ بدستور صاحبِ نصاب رہے)۔
اس لیے یہ ادھوری بات ہے کہ وہ بس چند ہزار روپے ہی تو زکوٰۃ کے طور پر دے گا؛ پوری بات یہ ہے کہ وہ زکوٰۃ کے علاوہ قربانی بھی کرے گا اور قربانی کے جانور کی قیمت کا خود ہی اندازہ لگائیے۔ خواہ وہ بڑے جانور میں ساتواں حصہ ہی ہو، اچھی خاصی رقم ہوتی ہے، بالخصوص اس شخص کےلیے جس کے پاس بس ڈیڑھ ،پونے دو لاکھ ہی کی بچت ہو۔ اس لیے میری ناقص راے میں ان اہلِ علم کا موقف راجح ہے جو خلط کے مسئلے میں سونے کے نصاب کو معیار مانتے ہیں اور میں اسی کو ’انفع للفقراء‘ سمجھتا ہوں۔
نقدی کی زکوٰۃ
اگر کسی کے پاس سونا یا چاندی کے بجاے نقد رقم ہو، یا کچھ سونا یا چاندی اور کچھ نقد رقم ہو، تو اس کےلیے بھی یہی پچھلا اصول ہے۔ عام طور پر اس صورت میں بھی چاندی کے نصاب کو معیار مانا جاتا ہے، لیکن کچھ اہلِ علم اس صورت میں بھی سونے کے نصاب کو معیار مانتے ہیں، اور میری ناقص راے میں یہی موقف راجح ہے۔
خلاصہ
اگر کسی کے پاس صرف چاندی ہو، تو زکوٰۃ کی فرضیت کےلیے چاندی کا نصاب ہوگا۔
اگر کسی کے پاس صرف سونا ہو، تو زکوٰۃ کی فرضیت کےلیے سونے کا نصاب ہوگا۔
اگر کسی کے پاس سونا یا چاندی ہو اور ساتھ ہی کچھ نقد رقم بھی ہو، تو زکوٰۃ کی فرضیت کےلیے سونے کا نصاب ہی ہوگا۔
اگر کسی کے پاس صرف نقد رقم ہو، تو زکوٰۃ کی فرضیت کےلیے سونے کا نصاب ہی ہوگا۔
واللہ تعالیٰ أعلم۔
پس نوشت:
کسی زمانے میں سونے اور چاندی میں تفاوت بہت زیادہ نہیں تھا۔ عام طور پر ایک اور دس کی نسبت ہوتی تھی۔ اس لیے مثال دی جاتی تھی کہ ایک دینار (سونے کا سکہ) دس دراہم (چاندی کے سکے) کے برابر ہوتا تھا۔ آج کی قیمت میں سونا فی تولہ تقریباً تین لاکھ روپے اور چاندی فی تولہ تقریباً تین ہزار روپے ہے، یعنی ایک اور سو کی نسبت! اس فرق کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
تبصرہ لکھیے