ہوم << جھوٹ کی عمارت، سچ کازلزلہ - سلمان احمد قریشی

جھوٹ کی عمارت، سچ کازلزلہ - سلمان احمد قریشی

معاشرے میں ہمیشہ سے کچھ ایسے کردار پائے جاتے رہے ہیں جو نہ تو کسی عظیم نسب کے حامل ہوتے ہیں اور نہ ہی ان میں کوئی حقیقی صلاحیت یا قیادت کی خوبی ہوتی ہے، مگر پھر بھی وہ چالاکی، دھوکہ دہی، اور خباثت کے ذریعے اپنا تسلط قائم کر لیتے ہیں۔ ایسے افراد کو "کن ٹوٹا" کہا جا سکتا ہے یعنی وہ لوگ جو حسب نسب اور قابلیت کے بغیر محض مکاری اور سازشوں کے سہارے کسی مقام پر پہنچ جاتے ہیں۔ ان کی کامیابی کا راز ان کی محنت، دیانت یا علم نہیں بلکہ فریب، جھوٹ اور موقع پرستی ہوتی ہے۔ یہ لوگ معاشرتی اقدار اور اخلاقیات کے منہ پر طمانچہ ہوتے ہیں، جو انصاف، سچائی اور دیانتداری کو روند کر آگے بڑھتے ہیں۔

یہ افراد عام طور پر چند فارغ العقل اور کمزور ذہن لوگوں کو اکٹھا کرکے اپنے اردگرد ایک ایسا گروہ بنا لیتے ہیں جو ان کی اندھی تقلید کرتا ہے۔ ان کے حواری دراصل وہ افراد ہوتے ہیں جو یا تو خود کسی ذاتی مفاد کی تلاش میں ہوتے ہیں یا پھر ان کی شخصیت سے مرعوب ہو کر ان کی جھوٹی چمک دمک کے فریب میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یہ گروہ درحقیقت ایک ایسی بھیڑ چال کی پیروی کرتا ہے جہاں عقل، منطق، اور حقائق کی کوئی جگہ نہیں ہوتی، بلکہ صرف اور صرف اندھی تقلید اور غلامی کا چلن عام ہوتا ہے۔

یہ عناصر دوسروں کی محنت اور عزت کو غصب کرنے، سازشیں بُننے، جھوٹ، فریب، اور دھوکہ دہی سے اپنا تسلط قائم کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ یہ چاپلوسی، جھوٹے الزامات، اور دھونس دھاندلی کے ذریعے طاقت حاصل کرتے ہیں، لیکن اندر سے کمزور اور بزدل ہوتے ہیں۔ ان کا سب سے بڑا ہنر یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی ہر غلطی کا الزام دوسروں پر ڈال دیتے ہیں اور اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے نئے جھوٹ گھڑتے ہیں۔ ان کے کردار میں مستقل مزاجی، ایمانداری، اور سچائی جیسی خوبیاں سرے سے ناپید ہوتی ہیں۔

یہ لوگ محض اپنے ذاتی مفادات کی خاطر نظامِ انصاف کو تباہ کرنے کے اسباب پیدا کرتے ہیں۔ چونکہ یہ دھوکہ دہی سے آگے بڑھتے ہیں، اس لیے انصاف کے اصولوں کو پامال کرکے اقربا پروری اور سفارش کو فروغ دیتے ہیں۔ یہ اپنے جیسے مزید نااہل لوگوں کو آگے لاتے ہیں، تاکہ کوئی اہل اور قابل شخص ان کی چالاکیوں کا پردہ نہ چاک کر سکے۔

یہ عناصر محنتی اور ایماندار لوگوں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں، ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں، اور انہیں نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ چونکہ یہ محض چالاکی، سازش اور دھوکہ دہی سے آگے آتے ہیں، اس لیے یہ نہیں چاہتے کہ کوئی محنتی اور باصلاحیت فرد ترقی کرے۔ ان کے نزدیک ترقی اور کامیابی کا واحد راستہ دھوکہ، مکاری، اور خوشامد ہوتا ہے۔

ان کی موجودگی کی وجہ سے بدعنوانی اور بے اصولی کو فروغ ملتا ہے۔ ان کے تسلط کا مطلب ہے کہ اصولوں کی جگہ موقع پرستی اور دھوکہ دہی لے لے۔ جب ایسے کردار طاقت حاصل کر لیتے ہیں تو نااہلی کا راج قائم ہو جاتا ہے۔ چونکہ یہ بغیر کسی صلاحیت کے آگے بڑھتے ہیں، اس لیے ادارے، تنظیمیں اور معاشرہ مجموعی طور پر زوال پذیر ہو جاتے ہیں۔

یہ عناصر اپنے اردگرد ایک ایسا ماحول پیدا کر دیتے ہیں جہاں دیانتداری اور سچائی کو کمزوری سمجھا جاتا ہے، اور دھوکہ دہی اور مکر و فریب کو ذہانت گردانا جاتا ہے۔ وہ معاشرے کو اندرونی طور پر کھوکھلا کر دیتے ہیں، اور جب تک ان کے خلاف کوئی منظم آواز بلند نہ کی جائے، تب تک وہ معاشرے کو مزید زہر آلود کرتے رہتے ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ یہ زمینی فرعون تمام تر طاقت کے باوجود ایک سچ کی للکار کے سامنے کھڑے نہیں رہ سکتے۔ جیسے پانی پر جھوٹی لہریں پیدا کی جائیں تو اچانک ایک طوفان برپا ہو جاتا ہے، جو سب کچھ خاک و خاشاک کر دیتا ہے، اسی طرح جب شعور بیدار ہوتا ہے تو یہ ظلم، ناانصافی اور جہالت کو بہا کر لے جاتا ہے۔ اور جب طوفان تھم جاتا ہے تو منظر صاف ہوتا ہے، اور یہ مردہ ضمیر لوگ آلائشوں کی صورت میں نظر آتے ہیں۔

یہ ایک فطری حقیقت ہے کہ جھوٹ اور فریب کا انجام ہمیشہ رسوائی اور تباہی کی صورت میں نکلتا ہے۔ یہ عناصر وقتی طور پر لوگوں کو گمراہ کرنے اور فریب دینے میں کامیاب ہو سکتے ہیں، مگر جب حق اور سچ کا سورج طلوع ہوتا ہے، تو ان کے تمام فریب دم توڑ دیتے ہیں۔ ان کا جھوٹ زیادہ دیر نہیں چل سکتا، کیونکہ سچائی کی طاقت ہمیشہ غالب آتی ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معاشرہ ان ناسوروں سے کیسے نجات حاصل کرے؟ اس کے لیے سب سے پہلے ان عناصر کو پہچاننا ضروری ہے۔ ہمیں اپنی آنکھیں کھولنی ہوں گی اور یہ دیکھنا ہوگا کہ کون لوگ حقیقی صلاحیت رکھتے ہیں اور کون محض دھوکہ دہی اور سازشوں کے ذریعے آگے بڑھ رہے ہیں۔

ہمیں اپنی نوجوان نسل کو شعور دینا ہوگا کہ کامیابی کا راستہ محنت، دیانتداری اور اصولوں پر مبنی ہوتا ہے، نہ کہ دھوکہ، مکاری اور خوشامد پر۔ اگر ہم نے ان عناصر کے خلاف آواز بلند نہ کی، تو ہمارا معاشرہ مزید زوال پذیر ہوتا چلا جائے گا۔ ہمیں اپنے اردگرد کے لوگوں کو بھی شعور دینا ہوگا کہ وہ کسی بھی دھوکہ باز، مکار، اور بددیانت شخص کا آلۂ کار نہ بنیں۔ جو لوگ ایسے افراد کی حمایت کرتے ہیں، وہ درحقیقت ان کی بدعنوانی اور ناانصافی کو مزید تقویت دیتے ہیں۔ ہمیں ان کے خلاف ایک مضبوط اور متحد موقف اپنانا ہوگا، تاکہ ایک بہتر اور انصاف پر مبنی معاشرہ تشکیل دیا جا سکے۔

یہ ضروری ہے کہ معاشرہ ایسے عناصر کو پہچانے اور ان کے خلاف آواز بلند کرے، تاکہ ایک ایسا نظام قائم ہو جہاں میرٹ، دیانتداری، اور سچائی کو فروغ دیا جا سکے۔ اگر ہم نے اب بھی خاموشی اختیار کی، تو آنے والی نسلیں بھی انہی "کن ٹوٹے" عناصر کے تسلط میں جکڑی رہیں گی، اور ہمارا معاشرہ مزید انحطاط اور زوال کا شکار ہوتا رہے گا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی آنکھیں کھولیں، حقیقت کا ادراک کریں، اور ایک بہتر مستقبل کی بنیاد رکھیں۔