محمود خان اچکزئی صاحب کو زیادہ سنجیدہ لینے کی ضرورت نہیں ہے نہ ہی میں نے کبھی ان کی بڑبڑاہٹ پر زیادہ توجہ دی ہے۔ ہانڈی کا اُبال ہوتا ہے، کمپنی کی مشہوری کے لیے’’اُصول پرستی‘‘ کا ایک آدھ بھاشن ہوتا ہے۔ اور بس۔ یہ ایک رومن سینیٹر کے لبادے میں ملبوس، سیاستدان پاکستان کے خلاف، وفاق کے خلاف، مسلح افواج کے خلاف بولنے کا ایسا ہی شوق رکھتا ہے جیسا فلمسٹار میرا انگریزی پر طبع آزمائی کرنے کا۔ بندہ ایک لمحے کے لیے سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یار یہ تو کوئی بہت ہی کھرا، ایماندار، دوٹوک اور اپنی چادر کی طرح شفاف کردار ہے۔ لیکن کہا نا کہ زیادہ سنجیدہ نہ ہوں۔ ایک طرف ملک کے خلاف بڑبڑانا، دوسری سیاسی جماعتوں کو مفاد پرستی کا طعنہ دینا، اُن پر ابن الوقتی اور ’’نظریات‘‘ پر مصلحت کی پھبتی کسنا، لیکن ساتھ ہی ساتھ اپنے پورے خاندان کو اس ملک کی تنخواہ خوری پر لگانا اور چن چن کر اس کی سیاسی اسامیوں پر بھرتی کروانا۔ ہر ماہ اسی ملک کے خزانے سے، جس کے خلاف ان کی زبان ایک سیلنگ فین کی طرح چلتی ہے، کروڑوں کی مراعات وصول کرنا۔ ملاحظہ فرمائیں اس رومن سینٹر کی اُصول پرستی:
ـــ خود، وزیر اعظم کا مشیر، وفاقی وزیر کے برابر تنخواہ، مراعات، پروٹوکول
ـــ بھائی محمد خان اچکزئی، بلوچستان میں گورنر، یعنی وفاق کا نمائندہ، اُسی وفاق کا جس کے خلاف اُچکزئی بڑبڑاہٹ کے مرض میں مبتلا ہیں۔
ـــ دوسرا بھائی، حمید خان اچکزئی، بلوچستان اسمبلی کا رکن، اور پاکستان کی تنخواہ پر پلنے والا۔
ـــ تیسرا بھائی، مجید خان اچکزئی، بلوچستان اسمبلی کا رکن، عوام کے ٹیکس پر راج کرنے والا
ـــ سالا، سپوژ مئی اچکزئی، بلوچستان اسمبلی کا رکن، بھاری بھر کم تنخواہ اور مراعات
ـــ سالی، نسیمہ اچکزئی ایم این اے، اسمبلی میں پشتون خواتین کو حقوق دلانے کے لیے گذشتہ تین سال سے ہونٹ سی کر لاکھوں کی ماہوار تنخواہ سے رہی ہیں۔
ـــ ایک عدد مزید سالا، قاضی مقبول، نکما کہیں فٹ نہ سکا۔ بالآخر کوئٹہ ائیرپورٹ پر مینیجر لگوا دیا۔ سنا ہے وہ سب سے’’سوکھا‘‘ ہے۔
ـــ ایک عدد اور سالا، حسن منطور، ڈی آئی جے موٹروے کے عہدے پر تعینات، کیسے؟ ’’میرٹ‘‘ پر۔
ـــ بیوی کا کزن، سالار خان، بی یو آئی ٹی ایم ایس میں رجسٹرار بھرتی کروا دیا۔
یہ نوازشات صرف قریبی رشتہ داروں پر، باقی جو ان گنت لوگ ’’آوٹر آربٹ‘‘ سے مستفید ہو رہے ہیں، وہ ان گنت ہیں۔ تو یہ تھے ’’اُچکزئی‘‘ صاحب، اُچکنے کے ماہر۔ آپ سوچ رہے ہونگے کہ یہ اتنے ’’اُچکو‘‘ کیوں ہیں۔ بھئی پشتونوں کے حقوق کی جنگ بھی تو لڑنی ہے نا۔
دلیل پر شاید ہی اس سے بے ہودہ کوئی آرٹیکل ہو.