ہوم << بلوچستان اور امن و امان کی صورتحال- خادم حسین

بلوچستان اور امن و امان کی صورتحال- خادم حسین

بلوچستان ملک کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا جبکہ آبادی کے اعتبار سے سب سے چھوٹا صوبہ ہے۔ عرصہ سے اس صوبے میں امن و امان کی صورتحال مخدوش ہے. آئے روز محافظوں ، مسافروں اور دیگر ممالک کے شہریوں کو نشانہ بنا یا جاتا ہے ۔

دہشت گرد تنظیم بی ایل اے نے بلوچستان سے پشاور جاتی جعفر ایکسپرس پہ فائرنگ کردی اور مسافروں کو یرغمال بنانے کی کوشش کی، آپریشن کے دوران متعدد شہادتوں اور زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ یرغمال بنائے گئے مسافروں کی تعداد چار سو سے زائد بتائی جا رہی ہے۔ بلوچستان میں صورتحال بے قابو اور خونخوار ثابت ہوتا دیکھائی دیتا ہے جس سے یہی تاثر ملتا ہے کہ یہ علاقہ بات چیت سے ہی رام ہوسکتا ہے اس کے بنا طاقت و جبروت سے لوگوں کی بے چینی اور ریاست مخالف بیانیہ مہمیز ہورہا ہے ۔ ان امور کو سنجیدگی سے نمٹانا ہوگا ورنہ یہ خلا ناقابل پر ہوتا جارہا ہے ۔ یہاں پہلے بھی طاقت کی زبان سے کام چلایا گیا نتیجہ سامنے ہے جو کہ دلخراش اور ریاست کے لیے اپنے نظریے پہ نظر ثانی کرنے کا پیغام دیتا ہے ۔

لوگوں کی بے یقینی حقوق سے محرومی اور وسائل کا استحصال ریاست کے متعلق شدید تحفظات جنم لے رہے ہے ۔ کیا یہ انصاف ہے جہاں وسائل اور قدرتی معدنیات کی بہتات ہو مگر وہی کے لوگ پانی کی بوند بوند کے لیے ترسیں بہتر سہولیات حقوق کی فراہمی اور ایک پائیدار صوبے کا خواب تو کجا ، وہاں تو مسلسل دہشت گرد جب چاہے ریاستی رٹ کو میلامیٹ کرتے ہیں جدھر چاہے بم دھماکے اغوا کی وارداتیں کر کے یہی بتاتے ہیں کہ ہم ہیں اس علاقے مالک و مختار ۔ جس بھی شعبے کا نام لیں ملک کے دیگر صوبوں سے بلوچستان بہت پیچھے ہیں ، اداروں کی حالت زار روبہ زوال ہے ۔

اب ان معلامات میں غیر ملکی مداخلت اپنوں میں غداروں کا در آنا اور عوام کو اکسانا اور ریاست مخلاف سمت میں ہانکنا چنداں مشکل نہیں نہ اس ابتری اور بے سکونی کے عالم میں ایسے واقعات کا ہونا تعجب کا باعث ہیں ۔ یہ خلا اپنوں کی کوتاہ بینی اور مکرر غفلت کے باعث تیارکردہ ہے دوسروں کو کیا کوسنا اور کیا لعنت ملامت کرنا ۔ ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے کی اشد ضرورت ہے ۔ اپنی کمی کوتاہیاں دور کریں وہاں کے عوام کے حقوق ہر صورت ادا کریں ، صوبے کی بد اعتمادی اور عوام میں موجود ملک مخالف جذبات کو کم کرنے کے لیے تمام تر کاوشیں بروئے کار لا کر ہی وہاں دائمی امن اور ریاست موافق ماحول بننا ممکن ہے.

اسی سے لوگ دہشت گردوں کے ہاتھوں برین واش ہونے سے بچ پائیں گے ۔ یہ کوئی کار محال نہیں مقتدر حلقے سنجیدگی اور ترجیحات کے تعیین میں تبدیلی لا کر اس عفریت کو قابو میں لاسکتے ہیں ۔ اگر یہ اقدامات نہ کیے گئے تو لامحالہ پورا ملک متاثر ہوگا تب مشکلات دوچند اور مسائل کا انبار سامنے ہوگا جس کا سدباب ملک کے لیے سنگین حالات کا موجب بن سکتا ہے. کئی ماہ سے تسلسل سے ملک میں دہشت گردی کے واقعات کسی اندوہناک مستقبل کی نشاندہی کررہے ہیں. جن کا سد باب نہ کیا گیا اور ریاست نے ہوش و ہواس سے امور مملکت نہ چلائے تو بعید نہیں ملک کسی بڑی ناقابل برداشت اور ناگفتہ بہ کیفیت سے دوچار ہوسکتا ہے.

زبان ساتھ نہیں دے رہی کہ ان تواتر سے ہوتے واقعات کس قدر سنگین اور ناقابل تلافی نقصان پہنچاسکتے ہیں ۔ صوبہء خیبر پختونخواہ مکمل افغان دہشت گردوں اور مقامی جہادیوں کے نرغے میں گرا ہے پاراچنار کے رستے بند ہوئے چھ ماہ ہونے کو ہیں کھانے پینے اور ادویات کمیاب ہوگئیں ہیں مگر صاحبان حل و عقد ان مسائل سے کوسوں دور بے فکر اپنے اقتدار کی راہدارییوں میں مست تماشہ بین بنے بیٹھے ہیں ۔ صوبے کی کیا بات کی جائے وفاق خود ان امور کو پس پشت ڈال کر بیٹھا ہے. جس کا نتیجہ سامنے ہیں جہاں چاہے خوارج حملہ آور ہوتے ہیں. ان حملوں میں نہ صرف عسکری اہلکار مرتے ہیں، وہی بے گناہ شہری جن میں بچے بوڑھے خواتین سبھی شامل ہیں.

مزکورہ قاتلوں کی گولیوں سے بھنے جارہے ہیں ۔ ایک منحوس دائرہ ہے جو مسلسل بڑھ رہا ہے اور اس کے اندر جتنے بھی بستے ہیں آگ و خون میں غلطاں کیے جارہے ہیں ۔ خونچکاں ماحول عوام کو دہشت زدہ کیے ہوئے ہیں ستم یہ کہ ایک ملک کی بڑی فوج ہو ریاست بزعم خود عوام کی محافظت کے لیے دن رات رطب اللسان ، مگر نتیجہ صفر شہری بے بس امن ناپید معاشی حالت قابل رحم اور شہری ملک چھوڑنے اور معاش کے بہتر حصول کے لیے جو جو آئینی و غیر آئینی راستہ مل رہا ہے.

اس کے زریعے ملک کو خدا حافظ کہہ رہے ہیں ، پڑھے لکھے باہنر پہلے ہی مایوس اور کوفت کا شکار ہیں. اس پہ مستزاد ناامنیت اور خوف و ہراس کی دائمی کیفیت نے ملک کے گوشہء و کنار میں شدید بد ظنی اور بے چینی پھیلادی ہے، جس کا کہیں بھی ازالہ کرنے والا نہیں ہے .