ہوم << صحیحین پر امام دارقطنیؒ کے تنقیدی کام کی نوعیت - وقار اکبر چیمہ

صحیحین پر امام دارقطنیؒ کے تنقیدی کام کی نوعیت - وقار اکبر چیمہ

جمہور امت کے نزدیک صحیحین کا جو بلند مقام ہے، اس سے اختلاف رکھنے والے ہمارے معاصرین امام دارقطنی کی تنقیدات کا حوالہ دے کر یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کا سا اندازِ نقد خود محدثین نے بھی اپنایا تھا۔ امام دارقطنی کا صحیحین کی بعض روایات پر فنی نقد ان کی کتاب الالتزامات والتتبع میں موجود ہے۔ اس کام کا جائزہ علم حدیث کے معروف امریکی سکالر ڈاکٹر جوناتھن براؤن نے اپنے ایک مقالے میں پیش کیا ہے۔ ذیل میں اس کے چند اقتباسات نقل کیے جا رہے ہیں، جو امام دارقطنی کے کام کی حقیقی نوعیت کو واضح کرتے ہیں۔

ڈاکٹر براؤن لکھتے ہیں:
"کتاب التتبع میں امام دارقطنی کا انداز سراسر تعمیری ہے، اور وہ صحیحین کی مجموعی صحت کو چیلنج نہیں کرتے۔ جیسا کہ ہم آگے دیکھیں گے، کتاب التتبع کا مقصد روایات کی فنی اصلاح ہے، نہ کہ مصنف کے نزدیک صحیحین کی محل نظر احادیث پر معاندانہ تنقید۔ یہی وجہ ہے کہ سُنِّی علمی روایت میں امام دارقطنی کے کام کو مثبت جانا گیا ہے۔ اگرچہ امام نووی نے صحیح مسلم کی روایات پر دارقطنی کی تنقیدات کا تفصیلی جواب دیا ہے، لیکن وہ بھی کتاب التتبع کو کتبِ استدراک کے زمرے میں ہی شمار کرتے ہیں۔"

ڈاکٹر براؤن مزید لکھتے ہیں:
"امام دارقطنی کا نقد دراصل روایات (یعنی طرقِ حدیث) پر ہوتا ہے، نہ کہ خود احادیث پر۔ چنانچہ وہ بخاری و مسلم کی احادیث کے متن پر تنقید نہیں کرتے بلکہ ان احادیث کی مخصوص اسانید کا فنی جائزہ پیش کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا غلط ہوگا کہ انہوں نے صحیح مسلم کی اس حدیث پر تنقید کی ہے، جس میں نبی (ﷺ) نے فرمایا: "اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابو بکر کو بناتا۔" حقیقت میں انہوں نے اس حدیث کی صرف ایک سند پر کلام کیا ہے اور بحیثیت مجموعی اس حدیث کی صحت پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا۔ امام مسلم نے یہی حدیث پانچ دیگر اسانید سے بھی روایت کی ہے۔ یہی معاملہ کتاب التتبع میں مذکور اکثر احادیث کا ہے۔ بخاری و مسلم عموماً احادیث کو متعدد اسانید کے ساتھ روایت کرتے ہیں، اور خال ہی ایسا ہوا ہوگا کہ امام دارقطنی نے کسی ایسی حدیث پر نقد کیا ہو جو محض ایک سند سے مروی ہو۔"

ڈاکٹر جوناتھن براؤن آگے لکھتے ہیں:
"یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ کتاب التتبع میں امام دارقطنی نے کسی بھی حدیث کے عقدی، شرعی یا فقہی پہلو پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ ان کی تنقید بسا اوقات روایات کے متن پر ہوتی ہے، مگر یہ عمل صرف اسی حدیث کی دیگر روایات سے اس کے فرق تک محدود رہتا ہے۔"

اخیر میں لکھتے ہیں:
"امام دارقطنی کا احادیث کے متن پر بات کیے بغیر انفرادی طرقِ روایات کے موازنہ اور جانچ پر توجہ مرکوز رکھنا اس بات کو واضح کرتا ہے کہ انہوں نے بخاری اور مسلم میں شامل کسی بھی نبوی روایت کو رد نہیں کیا۔ ان کا علمی کام اس حقیقت کا آئینہ دار ہے کہ وہ صحیحین سے گہری دل چسپی رکھتے تھے۔ وہ انہیں بلا شبہ سنتِ نبوی کے اہم مآخذ سمجھتے تھے، اور ان پر ان کا اصلاحی نقد ایک تعمیری اقدام تھا۔ امام دارقطنی نے کبھی یہ ارادہ نہیں کیا کہ شیخین کی مرویات کے عقدی، فقہی یا شرعی پہلوؤں میں اپنی تنقیدی آراء سے کوئی تبدیلی کریں۔ ضروری ہے کہ بخاری و مسلم کی روایات کے بعض پہلوؤں پر امام دارقطنی کے تحفظات کو ہم علمِ حدیث میں تیسری سے نویں صدی ہجری تک ہونے والی علمی و فنی پیش رفت کے تناظر میں ہی سمجھیں۔"