ہم مسلمان اپنے مسلمان ہونے پر اس قدر فخر کرتے ہیں کہ جیسے بہت نیک ہوں۔ مسلمان ہونا اچھی بات ہے اس لیے کہ اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہی ہے۔ اس بات کی تائید باقاعدہ قرآن سے ہوتی ہے، مگر دینِ اسلام باربار ایمان کے ساتھ عمل صالح کی تاکید بھی کرتا ہے۔ عمل صالح کی وضاحت میں سورة البقرة کی آیت بِرّ 177 ضرور پڑھی اور سمجھی جاۓ کہ دین صرف ارکان اسلام یا ایمانیات تک محدود نہیں بلکہ حقوق العباد کی تلقین بھی کرتا ہے اور اسے دین کا حصہ بتاتا ہے۔
لَیۡسَ الۡبِرَّ اَنۡ تُوَلُّوۡا وُجُوۡہَکُمۡ قِبَلَ الۡمَشۡرِقِ وَ الۡمَغۡرِبِ وَ لٰکِنَّ الۡبِرَّ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ وَ الۡکِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ ۚ وَ اٰتَی الۡمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنَ وَ ابۡنَ السَّبِیۡلِ ۙ وَ السَّآئِلِیۡنَ وَ فِی الرِّقَابِ ۚ وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ ۚ وَ الۡمُوۡفُوۡنَ بِعَہۡدِہِمۡ اِذَا عٰہَدُوۡا ۚ وَ الصّٰبِرِیۡنَ فِی الۡبَاۡسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیۡنَ الۡبَاۡسِ ؕ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُتَّقُوۡنَ ﴿۱۷۷﴾
اصل نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرلو بلکہ اصلی نیک وہ ہے جو اللہ اور قیامت اور فرشتوں اور کتاب اور پیغمبروں پرایمان لائے اور اللہ کی محبت میں عزیز مال رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں اور سائلوں کو اور (غلام لونڈیوں کی) گردنیں آزاد کرانے میں خرچ کرے اور نماز قائم رکھے اور زکوٰۃ دے اور وہ لوگ جو عہد کرکے اپنا عہد پورا کرنے والے ہیں اور مصیبت اور سختی میں اور جہاد کے وقت صبر کرنے والے ہیں یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں ۔
مسلمان ہونا ایک ذمے داری ہے۔ کلمہ طیبہ کا اقرار مسلمان کو اس بات پر پابند بناتا ہے کہ جو کچھ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے حُکم ہے وہ پورا کیا جاۓ یعنی اقرار حُکمُ اللہ کو پورا کرنے کا وعدہ ہے۔
ہر رمضان میں پاکستانی مسلمانوں کا یہی شیوہ ہے کہ عام راشن، سبزیوں، پھلوں اور رمضان میں استعمال ہونے والی ضروری اشیاء کے دام اس قدر بڑھا دیتے ہیں کہ توبہ توبہ۔ قیمت سنتے ہی دماغ پورا پورا گھوم جاتاہے کہ ابھی ایک ہفتہ پہلے تک تو یہی چیز آدھی قیمت پر دستیاب تھی، اب یہ اچانک کیا ہوگیا؟ اکثر سبزیوں اور پھلوں کی ایک پاؤ قیمت ہی کئی سو روپوں میں ہے۔ ویسے عام دنوں کی مہنگائی کیا کم ہے کہ رمضان کی آمد پر خصوصی مہنگائی کی جاۓ۔ مہنگا بیچنے والے مسلمان ہی ہیں۔
اب ایک نیا مسئلہ گیس کی بندش ہے کہ عین افطاری و سحری کے اوقات میں گیس کا پریشر ہی کم کردیا جاتا ہے کہ چولہے میں آنچ ہی نہ رہے کہ وہ بروقت کھانا پکانے میں معاون ہوسکے۔ پھر تراویح کے اوقات میں لائٹ کا بند کردیا جانا بھی ہمارے ہاں کا معمول ہے۔ ہم ایک مسلمان ملک میں رہتے ہیں۔ کے الیکٹرک اور سوئی گیس جیسے اداروں میں مسلمان ہی ہیں اور ہمارے حسن ظن کے مطابق رمضان میں وہ بھی روزے سے ہی ہوں گے۔ تو خود سے سوال پوچھا جاۓ کہ کیا یہ مکمل مسلمان ہونے کا طرز ہے؟
نہیں بالکل بھی نہیں۔ ہم دوسروں کے ایمان اور ان کے فرقوں پر تبصرے کرتے ہیں اور اپنی برتری ثابت کرنے کی آخری حد تک کوشش کرتے ہیں، لیکن اخلاقی اقدار میں تو اسلامی تعلیمات یکساں ہی ہیں نہ۔۔۔ جن پر سب کے لیے عمل کرنا لازمی ہے، تو اس معاملے میں عمل کی کوتاہی کیوں کر؟
اس بات کا کسی صاحب اختیار کے پاس کوئی جواب اس لیے نہیں کہ سب نے اپنے کیے گۓ کاموں کا بوجھ شیطان پر ہی ڈالنا ہے جبکہ شیطان تو رمضانوں میں قید ہوجاتا ہے۔ جب شیطان قید میں ہے تو ہمارے معاشرے میں موجود لوگوں کا مزاج اور نفس ہی اس قدر شریر ہوچکا ہے کہ شیطانیت پر سبقت لے جاچکا ہے اور ہم بھی انسانوں کے اس شیطانی پن کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ اگر یہ سب رویے ہمیں رمضانوں میں بالفرض نہ ملیں تو ہم حیران و پریشان ضرور ہوجائیں۔
یہ پورا مشاہدہ افسوس کن اور معاشروں کو تنزلی کی جانب لے جانے والا ہے۔ جس میں بہتری کا حصہ انفرادی طور پر ہی ڈل سکتا ہے وگرنہ بڑے پیمانے پر اس کا حَل کسی طاقت ور انفرادی شخص کے فوری طور پر جاری کردہ حکم نامے اور اس پر عمل درآمد کروانے میں کسی حد تک پوشیدہ ہے۔
تبصرہ لکھیے