مائیں کبھی مرتی نہیں ہیں، ہمیشہ دلوں میں زندہ رہتی ہیں. ہر خوشی اور غم کے موقع پر دل میں یاد بن کر یا آنکھ میں آنسو بن کر جی اٹھتی ہیں. ماں دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے. وہ نہ ہو تو دل کو دلاسا دینے والا کوئی نہیں ہوتا.
گھر کی رونق و بہار ماں کے دم اور وجود سے ہے۔ ماں محبت ہے۔ ماں راحت ِ جاں ہے۔ ماں بچے پر اپنی ساری محبت نچھاور کر کے محبت سے روشناس کرواتی ہے۔ ماں سے بڑھ کر کائنات میں بچے کا مونس و غمخوار کوئی نہیں ہوتا۔ ماں کی آغوش میں سر رکھ کر انسان دنیا کے سارے غم بھول جاتا ہے۔
تم ہی تو پونچھتی تھیں ماں میری آنکھوں کے سبھی آنسو
میں خود ہی اشک پونچھوں تو ماں تم یاد آتی ہو
کائنات کا اصول ہے، ہر ملن کا انجام جدائی ہے۔موت اٹل حقیقت ہے۔ موت سے کس کو رستگاری ہے۔ ماں ہی نہ رہے تو زندگی اور کائنات کتنی بے رحم، ویران اور غمگین ہو جاتی ہے، یہ فقط وہی جانتا ہے جس کی ماں رب ِ کائنات کے پاس چلی گی ہو۔
تو جا بسی ہے زمین کے اندر
تیری خوشبو آتی ہے آسمان سے
کسی پنجابی شاعر نے کہا تھا
[poetry] جدوں رب نے فرمایا ہے ماواں ٹھنڈیاں چھاواں نے
فیر کلیاں چھڈ کے کیوں ٹر جاندیاں ماواں نے
ماں سے طویل مکالمہ ہے. جس کی نثر میں شاعری اور جذبات چھلکتے ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:
"ماں۔۔۔۔۔تم اپنی یاد کے خیمے ساتھ لے جاتیں تو اچھا تھا۔ ان خیموں میں مکیں یادیں اداس رہتی ہیں۔ یہ یادیں دکھ کے چولہے پر آنسو ابالتی رہتی ہیں"
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
"ماں۔۔۔اتنا یاد نہ آیا کرو' میرا وجود ٹکڑوں میں بٹ جاتا ہے ،مجھے اپنے ٹکڑے خود ہی چننے اور جوڑنے ہوتے ہیں. کوئی ٹکڑا اپنی جگہ نہ بیٹھے تو اندر کوئی روتا ہے، باہر کوئی ہنستا ہے
ان موسموں نے مجھے کھوکھلا کر دیا ہے
ماں جب میں آنسو لیکر تیری لحد پر آتا ہوں
تو تجھے میری موجودگی کا احساس ہوتا ہے نا "
کھربوں لفظ، اربوں کہاوتیں،کروڑوں دلیلیں، لیکن پھر بھی وہ احساس،محبت ،خلوص، چاہت، مہربانی اورشفقت بیان نہیں ہو سکتی جو ماں اپنی اولاد پر کرتی ہے. لیکن میا کو پڑھنے کے بعد احساس ہوا کہ حامد سراج نے ان تمام جذبات کو لفظوں کی صورت اس کتاب میں سمو دیا ہے. اس کتاب پر تبصرہ کرنا بہت مشکل ہے، کیونکہ اس میں ایک ماں اور بیٹے کی محبت کی ایک ایسی لازوال داستان ہے جس کو پڑھنے کے بعد انسان کے الفاظ ختم ہو جاتے ہیں. حامد سراج صاحب نے اپنے غم کو کم کرنے کایہ راستہ نکالا کہ انھوں نے اپنی ماں سے وہ ساری باتیں جو اندر ہی اندر انھیں ختم کر رہی تھیں، کرنا شروع کر دیں۔ اپنے دکھ کو لفظوں کے روپ میں کاغذ پر اتار دیا تو وہ کاغذ ماں کی محبت میں روشن ہوگئے۔ اس کتاب میں ایک ایسی روشنی ہے جو ہم سب کے لیے مشعل راہ ہے، ہم میں سے بہت لوگوں کو اس روشنی کی ضرورت ہے کیونکہ اس نفسا نفسی کے دور نے ہمیں ماں کی آغوش سے دور کر دیا ہے۔
حامد سراج صاحب ایک عظیم انسان تھے اور ایک عظیم شخصیت ہی ایسا شاہکار تیار کر سکتی ہے۔ یہ کتاب جب محمد حامد سراج لکھ رہے تھے تو ان کے کزن "بشارت ملک" نے کہا تھا: "حامد بھائی! یہ کتاب آپ کا شناختی کارڈ ثابت ہوگی"۔بعد میں یہ پیشن گوئی درست ثابت ہوئی ۔ میّا اور حامد سراج ایک دوسرے کا حوالہ اور پہچان بن گئے۔
"میّا" کو بھارت میں مشرف عالم ذوقی نے ہندی میں ڈھالا اور وہاں بھی مقبول ہوئی. ناقدین و دانشوروں نے اس کتاب کو اردو ادب میں خوبصورت اضافہ اور ماں پر پہلا طویل افسانوی خاکہ قرار دیا ہے۔ یہ کتاب ہر اہل ِ دل کے لیے ہے۔ ضرور پڑھیں، کیونکہ ایسی کتاب کو آنے میں زمانے لگتے ہیں۔ ماں کی یاد میں عمران خان "شوکت خانم میموریل ہسپتال" بنا کر اور حامد سراج ماں کی محبت سے وابستہ یادوں کو آنسوؤں اور جذبات سے گوندھ کر " میّا " نامی کتاب لکھ کر امر ہو گئے۔
اس پیاری ماں کے نام ایک شعر
ماں تیری قبر پر رحمتوں کی گھٹا ہو
سدا اس پر طیبہ کی ٹھنڈی ہوا ہو
کتاب: "میّا"
مصنف : محمد حامد سراج
تبصرہ و تاثرات: نعیم تلوکر
تبصرہ لکھیے