یہ دنیا اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود بعض اوقات ہمیں ایک لمحے میں سمیٹ کر رکھ دیتی ہے۔ کہیں بلند و بالا عمارتیں ، چمچماتی سڑکیں ، شور مچاتی گاڑیاں ، ترقی کی دوڑ میں سرپٹ بھاگتی دنیا۔ لیکن ان سب کے بیچ کہیں کہیں ایسی کہانیاں سانس لیتی ہیں جو دلوں کو ہلا کر رکھ دیتی ہیں ، جو محبت کے وہ چراغ جلاتی ہیں جن کی لو کبھی مدھم نہیں پڑتی۔
یہ ایک حقیقی کہانی ہے مقدس خلیل کی ، ایک ایسی بیٹی کی جو محض بیس سال کی عمر میں محبت اور قربانی کی وہ مثال بن گئی جسے وقت کبھی بھلا نہ سکے گا۔ شجاع آباد کے ایک چھوٹے سے گھر میں پلنے والی مقدس نے شاید کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اس کی زندگی اتنی جلدی ایک ایسا موڑ لے گی جہاں محبت اور زندگی کی حدیں آپس میں یوں مدغم ہو جائیں گی کہ جیت بھی قربانی مانگے گی۔ مقدس کے والد ، خلیل احمد ، ایک جان لیوا مرض میں مبتلا تھے۔ ڈاکٹروں نے کہہ دیا تھا کہ زندگی اگر بچانی ہے تو جگر کی پیوندکاری ناگزیر ہے۔ بیٹوں کے معاشرے میں ، جہاں اکثر بیٹیوں کو بوجھ سمجھا جاتا ہے ، وہاں مقدس نے اپنی محبت کا وزن دکھا دیا۔ وہ آگے بڑھی ، اور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اپنا 60 فیصد جگر والد کو عطیہ کر دیا۔
زندگی اور موت کی کشمکش میں مقدس نے اپنی کہانی خود لکھی۔ وہ جانتی تھی کہ یہ قربانی محض ایک فیصلہ نہیں ، بلکہ ایک محبت کا امتحان ہے اور اس نے یہ امتحان سرخرو ہو کر پاس کیا۔ وہ خود زندگی کی بازی ہار گئی اور اپنے والد کو نئی زندگی دینے کی پوری کوشش کی۔ بیٹیاں کبھی بوجھ نہیں ہوتیں ، بلکہ وہ روشنی کا وہ مینار ہوتی ہیں جس کی کرنیں خاندانوں کے اندھیروں کو روشنی میں بدل دیتی ہیں۔
مقدس خلیل کی کہانی محض ایک واقعہ نہیں، بلکہ ایک آئینہ ہے ، جو ہمارے معاشرے کو دکھاتا ہے کہ وہ بیٹیاں ، جنہیں اکثر کمزور سمجھا جاتا ہے ، محبت کے سب سے مضبوط قلعے کی اینٹیں ہوتی ہیں۔ وہ بیٹیاں، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پرائے گھر کی امانت ہیں ، اصل میں اس گھر کی جڑیں ہوتی ہیں جہاں وہ پیدا ہوتی ہیں۔
یہ واقعہ صرف ایک گھر کی کہانی نہیں ، یہ عالمی خواتین کے دن کی اصل روح ہے۔ یہ دن صرف تقریروں اور سیمینارز کے لیے نہیں ، بلکہ ان بیٹیوں کو سلام پیش کرنے کا دن ہے جو ہر دن محبت ، ایثار اور قربانی کے جذبے کی نئی تاریخ رقم کرتی ہیں۔ ہم اکثر عالمی خواتین کے دن پر بلند و بانگ دعوے سنتے ہیں ، عورتوں کے حقوق پر بات کرتے ہیں ، برابری کی تلقین کرتے ہیں لیکن کیا ہم واقعی ان بیٹیوں کی قدر کرتے ہیں جو اپنی محبت سے گھروں کو جنت بناتی ہیں؟
مقدس خلیل کی قربانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ عورت صرف ایک وجود نہیں بلکہ وہ جذبہ ہے جو خاندانوں کی بنیاد مضبوط کرتا ہے۔ وہ ماں بنتی ہے تو محبت کی علامت ، بہن بنتی ہے تو شفقت کا مجسمہ اور جب بیٹی بنتی ہے تو ایثار کا ایسا استعارہ جس کی چمک کبھی ماند نہیں پڑتی۔ یہ دن ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم ان بیٹیوں کو سراہیں جو اپنی ہنسی خوشی والدین کے سکھ کے لیے قربان کر دیتی ہیں۔ جو اپنے خوابوں کو پسِ پشت ڈال کر اپنے والدین کی خدمت میں اپنی جوانی گزار دیتی ہیں۔ جو اپنے جذبات کی قربانی دے کر خاندان کو جوڑنے کا فریضہ انجام دیتی ہیں۔ مقدس نے جو کیا ، وہ اس کی محبت اور وفا کی معراج تھی مگر ایک لمحے کو رک کر یہ بھی سوچنا چاہیے کہ کیا یہ معاشرہ ان بیٹیوں کو ان کا جائز مقام دے رہا ہے؟ کیا بیٹیوں کی عزت صرف اسی وقت ہوتی ہے جب وہ قربانی دیتی ہیں؟ کیا ہمیں بیٹیوں کی قدر صرف ان کے ایثار کے بعد محسوس ہوتے ہیں ؟
یہ سوالات عالمی خواتین کے دن پر ہمارے ضمیر پر دستک دیتے ہیں۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ بیٹیاں صرف قربانی کے لیے نہیں، بلکہ جینے ، آگے بڑھنے اور اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے بھی پیدا ہوتی ہیں۔ ہمیں ان کی محبت اور خدمات کو زندگی میں ہی سراہنا چاہیے ، نہ کہ صرف اس وقت جب وہ مقدس خلیل کی طرح قربانی کی علامت بن جائیں۔
مقدس خلیل کی کہانی محبت ، ایثار اور بیٹیوں کی عظمت کا ایسا چراغ ہے جو کبھی بجھنے والا نہیں۔ اس کی یاد ہمیں ہر بار یہ سبق دے گی کہ بیٹیاں محض اولاد نہیں ، بلکہ وہ روشنی ہیں جو گھروں ، خاندانوں اور دلوں کو منور کرتی ہیں۔ "بیٹیاں جگر کا ٹکڑا نہیں ہوتیں ، بلکہ وہ دل کی دھڑکن ہوتی ہیں، اور جب وہ دھڑکن رکتی ہے ، تو پورا خاندان خاموش ہو جاتا ہے۔"
تبصرہ لکھیے