ہوم << فلسفہ تفہیم کائنات میں مقصود یا معاون؟ محمد عرفان ندیم

فلسفہ تفہیم کائنات میں مقصود یا معاون؟ محمد عرفان ندیم

آرتھر شوپنہاورمشہور جرمن فلسفی تھا، وہ 22فروری 1788 کوپولینڈ میں پیدا ہوا اور 21 ستمبر 1860 کو جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں وفات پائی۔ اس کا فلسفہ بدھ مت اور ویدانت سے متاثر تھااوراس کا ماننا تھا کہ انسانی خواہشات تمام تکالیف کی جڑ ہیں اور ان سے نجات کے لیے فن، موسیقی اور تصوف بہترین ذرائع ہیں۔ایک مرتبہ اس سے کسی نے پوچھا :’’اگر فلسفہ سچائی کی تلاش ہے تو کیا آپ کو زندگی کا کوئی حتمی مقصد ملا؟‘‘شوپنہاور کچھ لمحے خاموش رہا، پھر بولا’’زندگی کسی اندھے کی طرح ہے جو ایک تاریک کمرے میں کالی بلی کو تلاش کر رہا ہے جو وہاں موجود ہی نہیں۔‘‘ یہ جملہ فلسفے کی بے مقصدیت،بے معنویت،بے مائیگی،حقیقت تک عدم رسائی،تشکیک اور ضیاع وقت کا بہترین عکاس ہے ۔ اگر فلسفہ حقیقت تک رسائی کا ذریعہ ہوتا تو شوپنہاور جیسا فلسفی زندگی کی مقصدیت کو ضرور پالیتا مگر حقیقت یہ ہے کہ فلسفہ انسان کو محض بے مقصدیت، شک اور مایوسی عطا کرتاہے۔فلسفہ و جودو عدم،علم و ذرائع علم، اقدار و جمالیات اور ذہن و شعور سے متعلق حقائق کو جاننے کی کوشش کرتا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ فلسفہ یہ سب حقائق محض عقلی ایکسرسائز کے ذریعے جاننا چاہتا ہے اور عقل کی اتنی اوقات نہیں کہ وہ یہ فریضہ سر انجام دے سکے ۔عقل کی محدودیت اور نارسائی کی وجہ سے فلسفہ مفروضات اور نظریاتی مباحث کا ایساسلسلہ شروع کرتا ہے جو انسانی ذہن کو مزید پیچیدگی ، ابہام اور تشکیک میں مبتلا کردیتا ہے۔

اگر ہم جدید فلسفے کی تین سو سالہ تاریخ کے مختلف مفکرین کے افکار و نظریات کا جائزہ لیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ ہر فلسفی افکار وخیالات کے جنگل،بے مقصدیت کے صحرا اور حقیقت کے کسی ایک پہلو کے گرد سرگرداں رہا۔ مثلا بیکن کا فلسفہ اس اصول پر قائم تھا کہ علم صرف مشاہدے اور تجربے سے حاصل ہوتا ہے یعنی جو کچھ ہم دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں ہمارا علم وہیں تک محدود ہے۔ نطشے کے مطابق دنیا میں اصل حقیقت طاقت اور تسلط ہے اور جو شخص یا قوم مضبوط ہوتی ہے وہی حکمرانی کرتی ہے۔ ہیگل کا نظریہ تھا کہ خیالات ایک مسلسل جدلیاتی عمل سے گزرتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ خالص اور بہتر ہوتے جاتے ہیں۔ مارکس نے تاریخ کو طبقاتی کشمکش کا نتیجہ قرار دیا جس میں امیر اور غریب کے درمیان مسلسل جدوجہد جاری رہتی ہے اور اس کا خاتمہ تب ہوگا جب ہر شخص کو مکمل معاشی آزادی حاصل ہو گی۔کانٹ نے کہا کہ ہماری عقل حقیقت تک نہیں پہنچ سکتی بلکہ صرف ظاہری چیزوں کو سمجھ سکتی ہے اور اخلاقی اصول وجدان سے حاصل ہوتے ہیں۔ جان لاک کا خیال تھا کہ علم صرف حواس کے ذریعے حاصل ہوتا ہے یعنی جو کچھ ہم دیکھتے، سنتے اور محسوس کرتے ہیں وہی ہمارے ذہن میں محفوظ ہوتا ہے۔ ہیوم نے اس سے آگے بڑھ کر کہا کہ علم اور خیالات محض ہماری عادتوں کا نتیجہ ہیں یعنی جو چیز ہم بار بار دیکھتے ہیں ہم اسے حقیقت سمجھنے لگتے ہیں۔برگساں کے مطابق زندگی مسلسل تغیر و تبدل کا نام ہے اور وقت کی کوئی واضح سمت یا مقصد نہیں ہے اسے ہم صرف وجدان سے محسوس کر سکتے ہیں۔ دیکارت نے انسان کو ذہن اور جسم دونوں عناصر پر مشتمل قرار دیا یعنی انسان ایک طرف سوچنے والا وجود ہے اور دوسری طرف مادی جسم رکھتا ہے۔ اسپینوزا نے خدا اور فطرت کو ایک ہی حقیقت کے دو رخ قرار دیا یعنی جو کچھ بھی فطرت میں موجود ہے وہی خدا ہے۔ ولیم جیمز کا نظریہ تھا کہ کسی چیز کی سچائی اس کے عملی نتائج سے ثابت ہوتی ہے۔ رسل نے کہا مادہ اور ذہن ایک ہی بنیادی حقیقت سے بنے ہیں جو بے رنگ اور غیر محسوس ہے۔

ان فلسفیوں کو زندگی اور عمر کے آخری حصے میں فلسفے کی عدم رسائی اور بے مائیگی کا احساس ہوگیا تھا، مثلا برٹرینڈ رسل جو بیسیوں صدی کا مشہور فلسفی تھی اپنی خود نوشت میں لکھتا ہے : ’’جب میں اپنی زندگی کا جائزہ لیتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میری زندگی ضائع ہو گئی ہے۔ میں ایسی باتوں کو جاننے کی کوشش کرتا رہا جن کو جاننا ممکن ہی نہ تھا۔ میری سرگرمیاں بطور عادت جاری رہیں۔ میں بھلاوے میں پڑا رہا۔ جب میں اکیلا ہوتا ہوں تو میں محسوس کرتا ہوں کہ میری زندگی کا کوئی مقصد نہیں اور مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ نیا مقصد حیات کیا ہے جس میں میں اپنی بقیہ عمر کو وقف کروں۔‘‘علامہ اقبالؒ کی صورت حال یہ تھی کہ ساری زندگی فلسفہ پڑھنے پڑھانے میں گزاری مگر آخری عمر میں وہ فلسفہ جیسے موضوعات بے زار ہو گئے تھے۔ عملی زندگی اور مسلم نشاۃ ثانیہ کے ضمن میں فلسفے اور تصوف کی افادیت ان کی نظر میں مشکوک ہوگئی تھی۔1936 میں پروفیسر عمر الدین کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:’’ مسلم فلسفے اور تصوف میں میری زیادہ تر دلچسپی ختم ہو گئی ہے۔ اسلامی فقہ کے وہ اصول وضوابط جن کا تعلق معاملات سے ہے اور جو دنیا کی اقتصادی اور تہذیبی تاریخ کے نقطہ نظر سے کہیں زیادہ اہم ہیں ان کے مقابلے میں فلسفہ اور تصوف فقط قیاس آرائی کی حیثیت رکھتے ہیں اور غیر شعوری طور پر یہ اسلام میں انتشار اور افتراق کا سبب بھی بنتے ہیں۔ ‘‘

ایک فلسفہ زدہ سید زادہ مغربی فلسفیوں کے افکار سے متاثر دکھائی دیا تو اقبال ؒ نے اس پر پوری ایک نظم لکھی جو اسی عنوان’’ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے نام‘‘ سے مشہور ہوئی۔ آخر میں، میں اس نظم کاخلاصہ میں آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔اقبالؒ کہتے ہیں:’’اے سید زادے! تْو برگساں اور ہیگل جیسے فلسفیوں کے خیالات کا قائل ہے کیونکہ تْو نے اپنی خودی کو چھوڑ دیا ہے۔ ہیگل کی باتیں محض خیالی ہیں جو بہادروں کو بزدلی سکھاتی ہیں۔ اس کا فلسفہ محض الفاظ کا جادو ہے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ تْو ان خیالی جادوگروں کے اثر سے باہر آ!انسان کو جس مضبوط زندگی اور لازوال خودی کی تلاش ہے فلسفہ اسے یہ سب نہیں دے سکتا۔ اصل استحکام اور حقیقی زندگی کا دستور صرف اسلام اور قرآن میں موجود ہے۔ جو روشنی دنیا کے اندھیروں کو مٹا سکتی ہے وہ کسی فلسفی کے خیالات میں نہیں بلکہ مومن کی اذان میں ہے جو اللہ کی وحدانیت اور نبی کریم کی رسالت کا اعلان کرتی ہے۔ تْو نبی کریم کے خاندان سے تعلق رکھ کر بھی غیرمسلم فلسفیوں کے خیالات اپنائے ہوئے ہے! فلسفہ میرے اندر بھی موجود ہے مگر میں اس کی حقیقت کوجانتا ہوں جبکہ تْو اس کے دھوکے میں آ گیا ہے۔اے فلسفے کے دلدادہ سید زادے! تیرا جنون عشق کی تپش سے خالی ہے کیونکہ تْو عقل پر حد سے زیادہ یقین رکھے ہوئے ہے۔ سن! فلسفہ انسان کو عمل سے دور کرتا ہے اور حقیقت کی پہچان کے بجائے بھٹکا دیتا ہے۔ یہ ایسے نغمے ہیں جن میں آواز نہیں ہوتی اورجو عمل کی روح کو ختم کر دیتے ہیں۔زندگی گزارنے کا صحیح طریقہ فلسفہ نہیں بلکہ دینِ اسلام ہے جو حضرت محمدﷺ اور حضرت ابراہیم ؑ کی تعلیمات میں پوشیدہ ہے۔ اپنا دل نبی کریم کی باتوں سے جوڑ! تْو حضرت علی کی نسل سے ہے بو علی سینا جیسے فلسفیوں کے پیچھے کیوں چل رہا ہے؟ تو علی کا بیٹا ہے کب تک بو علی سینا کے فلسفے سے متاثر رہے گا۔اگر راستہ دیکھنے کی صلاحیت نہیں تو بخارا کے فلسفی کو چھوڑ کر حجاز کے قائد کو اپنا رہنما بنا! ہاں اگر تجھے میری طرح فلسفہ کی اونچ نیچ کا پتہ چل جائے تو پھر بو علی سینا کو پڑھنا نقصان دہ نہ ہو گا کیونکہ تجھے علم ہو جائے گا کہ عقل نے کہاں ڈنڈی ماری ہے۔‘‘

قصہ مختصر! فلسفے کوکائنات کی تفہیم میں بطور معاون تو قبول کیا جا سکتا ہے مگراسے حقیقت اور سچائی تک رسائی کا واحد ذریعہ سمجھنا نری جہالت اور وقت کا ضیاع ہے۔