یہ کہانی صرف ایک واقعہ نہیں، بلکہ انسانیت کی اصل تصویر ہے—ایک ایسا جذبہ جو ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ جوڑتا ہے۔ مگر جب ہم اپنے گرد و پیش نظر دوڑاتے ہیں، تو کیا واقعی ہمیں یہ جذبہ دکھائی دیتا ہے، یا یہ محض کتابوں اور تقریروں تک محدود ہو چکا ہے؟
علی، جو ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھتا تھا، روزانہ دفتر سے واپسی پر ایک بزرگ کو ایک ہی جگہ بیٹھے دیکھتا تھا۔ وہ میلی کچیلی چادر اوڑھے، خاموشی سے راہ گزرتے لوگوں کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھتے، مگر سب انہیں نظر انداز کرکے گزر جاتے۔ علی بھی باقی سب کی طرح بے توجہی برتتا، مگر ایک دن شدید بارش میں اس نے ان بزرگ کو وہیں بھیگتے دیکھا۔ قدم بے اختیار رک گئے، دل میں ایک خیال بیدار ہوا—"یہ بھی انسان ہیں، انہیں بھی ضرورت ہوگی۔"
علی فوراً قریب کی دکان سے ایک کمبل اور کھانے پینے کا سامان لے آیا۔ جب اس نے بزرگ کے لرزتے وجود پر کمبل ڈال کر کھانے کو ان کے سامنے رکھا، تو ان کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے۔ وہ لرزتی آواز میں دعائیں دینے لگے، جیسے برسوں سے کسی کے سائے کو ترسے ہوں۔ علی ان کے پاس بیٹھا، ان کا ساتھ دیا، ان کے ساتھ کھانا کھایا۔
کھانے کے بعد علی نے جھجکتے ہوئے پوچھا، "بابا جی، میں روز آپ کو یہاں بیٹھے دیکھتا ہوں۔ آپ ہمیشہ یہیں کیوں رہتے ہیں؟"
بزرگ نے گہری سانس لی، نگاہیں آسمان کی طرف اٹھائیں، اور پھر ایک تلخ مسکراہٹ کے ساتھ بولے:
"بیٹا، میں بھی کسی زمانے میں ایک خوشحال زندگی گزارتا تھا۔ محنت سے کماتا تھا، عزت سے جیتا تھا۔ میرا ایک چھوٹا سا گھر تھا، جہاں میری بیوی اور دو بیٹیاں ہنسی خوشی رہتی تھیں۔ سب کچھ تھا—سکون، عزت، خوشحالی—مگر پھر تقدیر نے ایسا کھیل کھیلا کہ سب ہاتھوں سے ریت کی مانند پھسل گیا۔ ایک دن کاروبار تباہ ہوگیا۔ جنہیں اپنا سمجھتا تھا، وہ وقت کے ساتھ بدل گئے۔ قرض کے بوجھ نے کمر توڑ دی، اور پھر... میرے اپنے ہی گھر والوں نے مجھ سے منہ موڑ لیا۔ میری وہ بیٹیاں، جنہیں نازوں سے پالا تھا، بے یار و مددگار رہ گئیں۔ بیوی نے بھی ساتھ چھوڑ دیا۔ کہتی تھی کہ ایک بے سہارا شخص کے ساتھ زندگی گزارنا اس کے بس کی بات نہیں۔ آج میں یہاں اس راہ گزر پر بیٹھا ہوں، جہاں روز ہزاروں لوگ گزرتے ہیں، مگر کوئی میری طرف دیکھتا بھی نہیں۔ ہر کوئی اپنی دنیا میں مگن ہے۔ مگر مجھے کسی سے شکوہ نہیں، شاید یہی میری قسمت تھی۔"
یہ کہتے ہوئے بزرگ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ علی کی آنکھیں بھی نم ہوگئیں۔ اس کا دل پکار اٹھا کہ دنیا کتنی ظالم ہے، جہاں انسان کی پہچان اس کے پاس موجود دولت سے کی جاتی ہے، نہ کہ اس کے کردار اور انسانیت سے۔
علی نے بزرگ کا ہاتھ تھاما اور نرمی سے کہا:
"بابا جی، آپ اکیلے نہیں ہیں۔ میں ہوں نا! میں روز آپ کے پاس آؤں گا، آپ کے ساتھ بیٹھوں گا، آپ کی مدد کروں گا۔"
بزرگ نے علی کی طرف دیکھا، اور پہلی بار ان کے چہرے پر ایک نرم سی مسکراہٹ ابھری۔ لرزتے ہاتھ علی کے سر پر رکھ کر بولے:
"بیٹا، تم جیسے لوگوں کی بدولت ہی انسانیت ابھی باقی ہے۔ اللہ تمہیں ہمیشہ خوش رکھے۔"
اس دن کے بعد، علی روز ان کے پاس بیٹھنے لگا، ان کی باتیں سنتا، ان کی مدد کرتا۔ اس نے جان لیا تھا کہ انسانیت محض الفاظ میں نہیں، بلکہ عمل میں پنہاں ہوتی ہے۔
یہ دنیا عجب بےحسی کی مثال ہے،
جہاں سچ کی ہر بات ہوتی نِہال ہے۔
یہاں خواب ہر روز بکتے رہے،
یہاں لوگ قیمت پہ چلتے رہے۔
یہاں درد کی کوئی سنتا نہیں،
یہاں ظلم کی حد بھی رُکتی نہیں۔
یہاں دولت کی حرص لالچی بن گئی،
یہاں عزت بھی اب بےوقعت سی ہو گئی۔
یہاں ظلمت کی راہیں سجائی گئیں،
یہاں اُلفت کی شمعیں بجھائی گئیں۔
یہاں رشتے فقط بوجھ ڈھوتے رہے،
یہاں دل کے زخم اور سوتے رہے۔
یہاں زندہ تو سب ہیں، پر بے جان ہیں،
یہاں انساں تو ہیں، پر بے ایمان ہیں۔
تبصرہ لکھیے