ہوم << کامیابی کیسے حاصل ہو ؟ عبیدالرحمن

کامیابی کیسے حاصل ہو ؟ عبیدالرحمن

ایک مبتدی نے , جو بڑا لکھاری بننے کا خواہشمند تھا , ایک بزرگ استاد سے درخواست کی کہ وہ اس کا لکھا دیکھیں اور اس کی اصلاح کریں اور ساتھ ہی اسے کچھ ایسے مشورے دیں کہ وہ اچھا اور مؤثر لکھ سکے ۔

استاد نے اس کی تحریر میں کوئی غلطی نہ نکالی , کچھ دیر سکوت کیا , پھر صوفہ کی ٹیک چھوڑتے ہوئے سائل کے نزدیک ہو گئے اور تاکید کے انداز میں کہنے لگے :

" بس ! لکھو اور لکھتے رہو ۔ جب تم لکھتے رہو گے تو اچھا بھی لکھنے لگو گے ۔ جو لکھے گا , وہ ہی اچھا بھی لکھے گا ۔ اس مرحلے پر غلط لکھنا غلطی نہیں بلکہ نہ لکھنا غلطی ہے ۔"

لکھتے لکھتے حرف امر ہو جاتے ہیں
ہوتے ہوتے معرکے سر ہو جاتے ہیں

کامیاب لوگ بھی ایک روز ناکام تھے ۔ وہ پہلے دن سے ہی تو کامیاب نہ تھے ۔ آسان بھی ایک روز مشکل تھا ۔ وہ پہلے دن سے ہی آسان تو نہ تھا ۔ کامیاب لوگوں کی ملاقات کامیابی سے اسی لیے ہوئی کیونکہ انھوں نے قدم اٹھایا اور پھر جیسے تیسے چلتے رہے ۔ اگر وہ راستے کی مشکلات کا سوچ کر اور نتائج سے خوف زدہ ہو کر بیٹھ رہتے تو وہ بیٹھے ہی رہتے ۔

اگر ہم کام کے آغاز میں ہی نتائج کی طرف دھیان دیں گے تو کام کا معیار متأثر ہوگا اور نتیجتاً نتائج بھی خراب ہونگے ۔ لیکن اگر ہماری ساری توجہ کام کی جانب ہوگی اور ہم اسے شوق و دل چسپی سے انجام دیں گے تو نتائج خود بخود اچھے آنا شروع ہو جائیں گے ۔

دراصل جب انسان ابتدا میں ہی نتائج کا سوچنے لگتا ہے تو اس میں ایک خوف کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور اس طرح جیت کے امکانات روشن ہونے کی بہ جائے معدوم ہوتے چلے جاتے ہیں , کیونکہ خوف اور جیت ضد ہیں ۔ اگر ہم جیتنا چاہتے ہیں تو ہمیں بےخوف ہو کر کھیلنا ہوگا ۔

نہ کھیلنے سے , غلط کھیلنا بہتر ہے ۔ جب ہم کھیلتے ہیں تو کم از کم تماشائیوں سے تو ممتاز ہو جاتے ہیں ۔ کھیلنے والا تو ایک روز جیت بھی جائے گا , مگر جو ہار کے خوف سے میدان میں ہی نہیں اترے گا , وہ زندگی بھر کامیابی کا منھ نہ دیکھ پائے گا ۔ کامیاب اور ناکام میں بنیادی فرق ہی یہ ہوتا کہ کامیاب انسان بار بار ناکام ہوتا ہے اور ناکام انسان کبھی ناکام نہیں ہوتا , لیکن یہی اس کی سب سے بڑی ناکامی ہوتی ہے ۔ کیونکہ

وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے

چلتے رہنا کامیابی ہے ۔ نہ رکنا ترقی ہے اور سکون موت ہے ۔ دوڑ سکتے ہیں , دوڑیں ۔ چل سکتے ہیں , چلیں ۔ رینگ سکتے ہیں , رینگیں ۔ بس صرف رکیں نہیں ۔ کچھ حاصل ہو جائے تب بھی ۔ کچھ حاصل نہ ہو تب بھی ۔

ہمیشہ سفر مشکل سے آسان کی جانب ہوتا ہے ۔ تکلیف کے بعد راحت ملتی ہے ۔ مشقت کے بعد سکون حاصل ہوتا ہے ۔ جنت بھی اس دنیا کے بعد آخرت میں ہے ۔ کبھی بھی آغاز میں کارنامے وقوع پذیر نہیں ہوتے ۔ جب انسان اپنے روزمرہ کے متعلقہ بظاہر چھوٹے چھوٹے اور غیر اہم کام باقاعدگی اور تن دہی سے انجام دیتا رہتا ہے تو اس سے کارنامے بھی سر زد ہو جاتے ہیں ۔

جو لوگ کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں , وہ بہت کچھ کر جاتے ہیں ۔ ہم سب کچھ نہیں کرسکتے ۔ مگر ہم جو کچھ کر سکتے ہیں , وہ ہی اگر کرتے رہیں تو بہت کچھ کر جائیں گے ۔

تسلسل کی بڑی اہمیت ہے ۔ کامیابی بہت سے اچھے کاموں کو چند بار انجام دینے کا نام نہیں بل کہ چند اچھے کاموں کو بار بار انجام دینے کا نام ہے ۔ کبھی کبھی تو کوئی بھی اچھے کام کرلیتا ہے ۔ اصل کمال اچھے کام کرتے رہنا ہے ۔