ہوم << سیرتِ سید الانام، شافعِ محشر ﷺ - آصف رندھاوا

سیرتِ سید الانام، شافعِ محشر ﷺ - آصف رندھاوا

یہ دنیا تاریخ کے بے شمار عظیم شخصیات کا گہوارہ رہی ہے، لیکن اگر کسی ایک ہستی کو "عظمتِ انسانی کا کامل نمونہ" کہا جا سکتا ہے، تو وہ صرف اور صرف حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہر لحاظ سے کامل، ہر انسان کے لیے مشعلِ راہ، اور زندگی کے ہر پہلو میں راہنمائی فراہم کرنے والی ہے۔

سیرتِ طیبہ کی اہمیت
انسانی تاریخ میں بے شمار فلسفی، حکمران، فاتح اور مصلح آئے، لیکن کوئی بھی ایسی جامع ہستی نہ تھی جو بیک وقت ایک بہترین حاکم، عظیم سپہ سالار، شفیق باپ، بہترین شوہر، راست باز تاجر، عدل و انصاف کا پیکر حکمران اور سب سے بڑھ کر اللہ کا سب سے مقرب بندہ بھی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کو قیامت تک کے انسانوں کے لیے "اسوۂ حسنہ" قرار دیا:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ
(بے شک، تمہارے لیے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ موجود ہے۔ [سورہ الاحزاب: 21])

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ نہ صرف دین کے پیروکاروں کے لیے بلکہ دنیا کے بڑے بڑے مفکرین، مؤرخین، اور دانشوروں کے لیے بھی حیرت و عقیدت کا باعث بنی۔ مائیکل ہارٹ نے اپنی مشہور کتاب "The 100: A Ranking of the Most Influential Persons in History" میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تاریخ کا سب سے زیادہ اثر رکھنے والا انسان قرار دیا، کیونکہ آپ نے دینی و دنیوی دونوں میدانوں میں بے مثال کامیابیاں حاصل کیں.
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کسی خاص قوم، زمانے یا خطے تک محدود نہیں بلکہ آفاقی ہے۔
ایک حکمران اگر بہترین حکومت چاہتا ہے تو وہ آپؐ کی قیادت سے سیکھ سکتا ہے۔
ایک تاجر اگر دیانتدار کاروبار کرنا چاہتا ہے تو وہ آپؐ کے تجارتی اصولوں پر عمل کرے۔
ایک شوہر، باپ یا معلم اگر اپنے فرائض بخوبی نبھانا چاہتا ہے تو آپؐ کی حیاتِ مبارکہ میں اس کے لیے بہترین نمونہ موجود ہے۔

آج کی دنیا سائنس، ٹیکنالوجی، اور مادی ترقی میں بے حد آگے بڑھ چکی ہے، لیکن اخلاقی اقدار کمزور ہو رہی ہیں، عدل و انصاف ناپید ہو چکا ہے، انسانیت ظلم و جبر کا شکار ہے، ایسے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ اور اس پر عمل ہی وہ نسخہ ہے جو دنیا کو حقیقی فلاح اور امن دے سکتا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا سب سے بڑا پیغام محبت، رحمت، عدل اور انسانیت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدترین دشمنوں کو معاف کیا، یتیموں اور غلاموں کو عزت دی، عورتوں کو حقوق دیے، اور ایک ایسا معاشرہ قائم کیا جو دنیا کے لیے بہترین مثال بن گیا
سیرتِ طیبہ صرف پڑھنے یا سننے کی چیز نہیں، بلکہ اسے اپنانا ہی اصل کامیابی ہے۔ دنیا اور آخرت میں فلاح اسی میں ہے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم پر چلیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سیرتِ نبوی کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شجرۂ نسب دنیا کے سب سے معزز اور پاکیزہ نسبوں میں شمار ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق قریش کے معزز ترین قبیلے بنو ہاشم سے تھا، جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے تھے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام سے نسبی تعلق
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے "امام الناس" اور "خلیل اللہ" کا لقب دیا۔ ان کے دو بیٹے تھے:
1. حضرت اسحاق علیہ السلام – بنی اسرائیل کے جدِّ امجد
2. حضرت اسماعیل علیہ السلام – عربوں کے جدِّ امجد
حضرت اسماعیل علیہ السلام نے عرب کے مشہور قبیلے بنو جرہم میں شادی کی اور ان کی نسل سے قریش قبیلہ وجود میں آیا، جو بعد میں مکہ کے سردار بنے. قریش عرب کے سب سے معزز قبیلوں میں شمار ہوتا تھا۔ یہ قبیلہ اپنی بہادری، دیانتداری، اور خانہ کعبہ کی خدمت کے لیے مشہور تھا۔ قریش کے مختلف خاندانوں میں سب سے معزز بنو ہاشم تھے، جن کے ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی.

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا حضرت عبدالمطلب نہایت دانا، سخی، اور قریش کے سربراہ تھے۔ ان کی چند خصوصیات درج ذیل ہیں:
کنواں زمزم کی دوبارہ دریافت – زمزم کا کنواں عرصہ دراز سے بند تھا، حضرت عبدالمطلب نے خواب کی روشنی میں اسے دوبارہ کھدوایا۔
خانہ کعبہ کے محافظ – جب ابرہہ حبشی نے کعبہ پر حملہ کرنا چاہا، تو حضرت عبدالمطلب نے ایمان افروز کردار ادا کیا۔
قریش میں عزت و مقام – وہ اپنی ایمانداری اور عدل و انصاف کی وجہ سے قریش میں انتہائی معزز سمجھے جاتے تھے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والد حضرت عبداللہ اپنی جوانی میں ہی اپنی شرافت اور حسنِ سیرت کی وجہ سے مشہور تھے۔ وہ حضرت عبدالمطلب کے سب سے محبوب بیٹے تھے۔ آپ کی والدہ حضرت آمنہ بنت وہب قریش کے معزز خاندان بنو زہرہ سے تھیں۔ وہ اعلیٰ نسب، حسنِ اخلاق، اور پاکیزہ کردار کی مالک تھیں. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی دنیا میں تشریف نہیں لائے تھے کہ حضرت عبداللہ کا انتقال ہو گیا۔ وہ شام کے تجارتی سفر سے واپسی پر مدینہ میں بیمار ہوئے اور وہیں وفات پا گئے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت وہ عظیم ترین واقعہ ہے جس نے تاریخِ انسانی کا رخ بدل دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد دنیا کے لیے رحمت، نور اور ہدایت کی علامت بنی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مکہ مکرمہ میں قبیلہ قریش کے معزز خاندان بنو ہاشم میں ہوئی۔ عام طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی تاریخ درج ذیل بیان کی جاتی ہے:
12 ربیع الاول – اہلِ سنت کے مطابق
9 ربیع الاول – بعض دیگر روایات کے مطابق
570 عیسوی – عیسوی کیلنڈر کے مطابق
عام الفیل – وہ سال جب ابرہہ نے خانہ کعبہ پر حملہ کیا تھا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے کچھ عرصہ قبل ابرہہ حبشی (یمن کے گورنر) نے خانہ کعبہ کو گرانے کے لیے ہاتھیوں کی فوج کے ساتھ مکہ پر حملہ کیا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ابابیلوں کے جھنڈ کے ذریعے ان کی فوج کو تباہ کر دیا۔ یہ واقعہ اتنا مشہور ہوا کہ عربوں نے اسی سال کو "عام الفیل" کا نام دے دیا.

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے وقت کئی غیر معمولی واقعات رونما ہوئے:
1. قیصرِ روم کے محل کے چودہ کنگرے گر گئے – جو اس بات کی علامت تھی کہ ظلم و جبر کے دور کا خاتمہ ہونے والا ہے۔
2. آتش پرستوں کا ہزار سالہ جلتا ہوا آتشکدہ بجھ گیا – فارس (موجودہ ایران) میں مجوسی ہزاروں سال سے جس آگ کی پوجا کرتے تھے، وہ اچانک بجھ گئی۔
3. بحیرہ ساوہ خشک ہو گیا – یہ وہ مشہور جھیل تھی جسے اہلِ فارس مقدس سمجھتے تھے۔

حضرت آمنہ کا خواب اور بشارت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ حضرت آمنہ بنت وہب فرماتی ہیں:
"جب میں حاملہ ہوئی، تو میں نے خواب میں دیکھا کہ مجھ سے ایک نور نکلا جو شام کے محلات کو روشن کر رہا تھا۔"
یہ نور اس بات کی علامت تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پوری دنیا میں پھیلیں گی اور انسانیت کو ہدایت نصیب ہو گی۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی، تو آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب بے حد خوش ہوئے اور فوراً خانہ کعبہ جا کر اللہ کا شکر ادا کیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام "محمد" رکھا، جس کے معنی ہیں "بہت زیادہ تعریف کیا گیا"۔
آپ کا دوسرا نام "احمد" رکھا گیا، جس کا مطلب ہے "سب سے زیادہ حمد کرنے والا"۔
یہ نام اس وقت عرب میں عام نہیں تھا، بلکہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے منتخب کردہ تھا، جیسا کہ توریت اور انجیل میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو "احمد" کے نام سے ذکر کیا گیا ہے.

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ حضرت آمنہ نے کچھ دنوں تک خود دودھ پلایا، اس کے بعد آپ کی پرورش مختلف خواتین نے کی:
1. ثویبہ – یہ ابو لہب کی لونڈی تھیں، جنہوں نے سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلایا۔
2. حضرت حلیمہ سعدیہ – یہ قبیلہ بنی سعد سے تعلق رکھتی تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس کئی سال رہے اور وہاں آپ کی شخصیت میں فصاحت و بلاغت، بہادری، اور سادگی جیسے اوصاف پروان چڑھے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بچپن پاکیزگی، صداقت اور صبر و استقامت کی مثال تھا۔ آپ کی ابتدائی زندگی آزمائشوں سے گزری، لیکن ہر مرحلے میں اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت آپ کے شاملِ حال رہی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے قبل ہی آپ کے والد حضرت عبداللہ کا انتقال ہو چکا تھا۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں یتیم آئے، جس کا ذکر خود قرآن کریم میں کیا گیا ہے:
> "أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَىٰ"
(کیا اس نے تمہیں یتیم نہیں پایا اور ٹھکانا نہیں دیا؟) (الضحیٰ)

عرب میں یہ رواج تھا کہ امراء اور معزز گھرانوں کے بچوں کو دیہات میں عربی زبان کی فصاحت اور صحت مند ماحول کے لیے دودھ پلانے والی خواتین کے سپرد کیا جاتا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت حلیمہ سعدیہ کے حوالے کیا گیا، جو قبیلہ بنی سعد سے تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقریباً چار سال ان کے ہاں گزارے۔ ان ایام میں بنی سعد کے دیہات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فصاحت، بہادری، اور سادگی کے اوصاف نمایاں ہونے لگے۔

حضرت حلیمہ سعدیہ کے گھر برکتیں
> "جب میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو لے کر گھر واپس آئی، تو ہمارے گھر میں برکت آ گئی۔ ہماری بکریاں زیادہ دودھ دینے لگیں، اور ہمارا قحط سالی کا زمانہ خوشحالی میں بدل گیا۔" نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چار سال کی عمر میں حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ کا سینہ مبارک چاک کیا اور دل کو زمزم سے دھو کر حکمت اور نور سے بھر دیا۔ یہ واقعہ اس بات کی علامت تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو نبوت کے لیے تیار کر رہے ہیں.

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم چھ سال کے ہوئے، تو حضرت آمنہ آپ کو لے کر مدینہ گئیں تاکہ نانہال (بنو نجار) کے رشتہ داروں سے ملاقات کر سکیں۔ واپسی پر مقامِ ابواء (مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ) پر حضرت آمنہ بیمار ہو کر وفات پا گئیں۔ یوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چھ سال کی عمر میں ماں کی محبت سے بھی محروم ہو گئے. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دادا حضرت عبدالمطلب نے اپنی کفالت میں لے لیا۔ وہ آپ سے بے حد محبت کرتے اور اپنی مجلس میں سب سے آگے بٹھاتے لیکن دو سال بعد وہ بھی وفات پا گئے. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ سال کی عمر میں چچا ابو طالب کے زیرِ کفالت آ گئے۔ وہ آپ سے بے حد محبت کرتے اور ہر لمحہ آپ کی حفاظت کرتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جوانی تک انہی کے ساتھ زندگی گزاری

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بکریاں چرائیں، جیسا کہ تمام انبیاء علیہم السلام نے کیا۔ آپ نے فرمایا: "اللہ نے جتنے بھی نبی بھیجے، وہ سب بکریاں چراتے تھے۔" (بخاری) یہ کام آپ کو صبر، قیادت، اور محنت کی عادت سکھانے کا ذریعہ بنا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم 12 سال کی عمر کو پہنچے، تو ابو طالب کے ساتھ شام کے تجارتی سفر پر گئے۔ راستے میں بحیرا راہب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر پہچان لیا کہ یہ آخری نبی ہیں۔ اس نے ابو طالب سے کہا: "یہ لڑکا نبی بنے گا، اس کو یہودیوں سے بچاؤ!"

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچپن ہی سے کسی جھوٹ، دھوکہ یا برے کام میں حصہ نہیں لیا۔ مکہ کے لوگ آپ کو "صادق" اور "امین" کہنے لگے. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جوانی پاکیزگی، دیانت، اور اعلیٰ اخلاق کی درخشاں مثال تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عملی زندگی کا آغاز تجارت سے کیا اور اپنی امانت و صداقت کی وجہ سے مکہ کے سب سے معتبر اور کامیاب تاجر بنے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جوانی عام نوجوانوں سے بالکل مختلف تھی۔
شرک، جھوٹ، اور برے کاموں سے مکمل اجتناب
حسنِ اخلاق اور بردباری
لوگوں کے درمیان صلح کرانے کی صلاحیت
غرباء اور مظلوموں کی مدد کا جذبہ
ہر قسم کے گناہ سے پاک زندگی

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی قسم کی برائی میں حصہ نہیں لیا۔ عرب میں شراب نوشی، جوا، اور بے حیائی عام تھی، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام برائیوں سے بالکل محفوظ رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: "میں نے کبھی کسی برے کام میں دلچسپی نہیں لی۔"

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 20 سال تھی، تو مکہ میں کمزوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک معاہدہ ہوا، جسے "حلف الفضول" کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے کا مقصد مظلوموں کی مدد اور ظالموں کو روکنا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں بھرپور کردار ادا کیا اور بعد میں فرمایا: "اگر آج بھی کوئی ایسا معاہدہ ہو، تو میں اس میں ضرور شامل ہوں گا۔"

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دیانت اور سچائی کی شہرت پورے مکہ میں پھیل چکی تھی۔ آپ نے مکہ کے مختلف تاجروں کے ساتھ تجارتی سفر کیے۔ آپ ہمیشہ ایمانداری سے کاروبار کرتے اور کسی قسم کی دھوکہ دہی سے اجتناب کرتے۔ شام، یمن اور بحرین کے سفر کیے اور ہر جگہ اپنی دیانت و صداقت کی مثالیں چھوڑیں۔

مکہ کی ایک عظیم تاجر خاتون حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایمانداری دیکھی، تو آپ کو اپنا تجارتی مال لے جانے کی پیشکش کی۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے غلام "میسرہ" کے ساتھ شام بھیجا۔ اس سفر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی دیانت داری اور بہترین حکمتِ عملی سے تجارت کی، جس سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو بہت زیادہ نفع حاصل ہوا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس مکہ آئے، تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو میسرہ نے بتایا: "میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کبھی جھوٹ بولتے نہیں دیکھا، نہ ہی میں نے ان سے زیادہ ایماندار اور نیک شخص دیکھا ہے۔" یہی وہ صفات تھیں جن کی وجہ سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کی خواہش ظاہر کی۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایمانداری اور دیانت کی وجہ سے مکہ کے لوگ آپ کو "الصادق" (سچ بولنے والا) اور "الامین" (امانت دار) کہنے لگے۔ لوگ اپنے قیمتی سامان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس امانت کے طور پر رکھواتے۔ جھگڑوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فیصلہ کروانے کے لیے سب سے معتبر شخصیت سمجھے جاتے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 35 سال تھی، تو قریش نے خانہ کعبہ کی تعمیرِ نو کی۔ جب حجرِ اسود رکھنے کا وقت آیا، تو قبائل میں جھگڑا ہو گیا کہ یہ اعزاز کس کو ملے۔ فیصلہ ہوا کہ جو شخص سب سے پہلے حرم میں داخل ہو، وہ فیصلہ کرے۔ اللہ کے حکم سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے پہنچے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر منگوائی، اس میں حجرِ اسود رکھا اور سب قبائل کے نمائندوں سے اسے اٹھوایا، پھر خود اپنے ہاتھوں سے حجرِ اسود کو نصب کیا۔ سب لوگ آپ کی دانشمندی اور عدل سے خوش ہوئے۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دیانت، صداقت، اور اعلیٰ اخلاق کی شہرت مکہ میں عام ہو چکی تھی۔ خاص طور پر حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا جو ایک معزز اور مالدار خاتون تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار اور ایمانداری سے بے حد متاثر ہوئیں۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا پس منظر
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا قریش کے معزز قبیلے سے تعلق رکھتی تھیں۔ وہ تجارت میں بہت ماہر تھیں اور ان کا کاروبار شام، یمن، اور دوسرے علاقوں تک پھیلا ہوا تھا۔ وہ "طاہرہ" (پاک دامن) کے لقب سے مشہور تھیں۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دیانت اور حسنِ اخلاق دیکھ کر نکاح کی خواہش ظاہر کی۔ انہوں نے اپنی سہیلی نفیسہ بنت منیہ کے ذریعے پیغام بھجوایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چچا ابو طالب سے مشورہ کیا، اور وہ راضی ہو گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 25 سال اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر 40 سال تھی۔ ابوطالب نے نکاح کا خطبہ دیا اور 500 درہم حق مہر مقرر کیا گیا۔ یہ نکاح عرب میں محبت، عزت اور برکت کی مثال بن گیا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ساری دولت اور کاروبار میں شراکت دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی محبت اور وفاداری کے ساتھ زندگی گزاری۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ہر مشکل گھڑی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی حمایت بنیں۔

اولاد
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ہاں چھ بچے پیدا ہوئے:

1. قاسم (جن کے نام پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو "ابوالقاسم" کہا جاتا تھا)
2. عبداللہ (طیب و طاہر)
3. زینب
4. رقیہ
5. ام کلثوم
6. فاطمہ (سب سے زیادہ محبوب بیٹی)
وہ سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والی شخصیت تھیں۔

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلی وحی ملی، تو انہوں نے آپ کو دلاسہ دیا اور ثابت قدمی دی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو جنت میں محل دینے کی بشارت دی۔

نبوت سے قبل کی زندگی اور غارِ حرا میں عبادت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ہر پہلو پاکیزگی، سچائی، اور حسنِ اخلاق کی مثال تھا۔ نبوت سے قبل بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم حق کی تلاش میں مصروف تھے، اور دنیا کی گمراہیوں سے دور تنہائی میں اللہ کی عبادت کو پسند فرماتے تھے۔
عرب کی حالت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فکر
عرب میں شرک، ظلم، ناانصافی، اور جہالت عام تھی۔
معاشرے میں اخلاقی گراوٹ، قتل و غارت، اور طاقتور کا کمزور پر ظلم ایک عام بات تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سب باتوں سے بے حد پریشان رہتے اور اس ظلم و گمراہی سے نجات کا راستہ تلاش کرتے۔

غارِ حرا کی عبادت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہائی اور غور و فکر پسند تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر مکہ سے باہر جبلِ نور پر واقع "غارِ حرا" میں جا کر اللہ کی عبادت کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کئی کئی دن وہاں تنہائی میں گزار کر غور و فکر کرتے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھانے کا انتظام کرتیں۔

وحی کا نزول
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 40 سال ہوئی، تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت عطا فرمائی۔ غارِ حرا میں حضرت جبرائیل علیہ السلام پہلی وحی لے کر نازل ہوئے
> "اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ" (العلق: 1)
"پڑھیے اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔"

پہلی وحی کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر واپس آئے اور فرمایا: "مجھے چادر اوڑھا دو، مجھے چادر اوڑھا دو!"
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی اور فرمایا: "اللہ کی قسم! اللہ آپ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ آپ رشتہ داروں کے ساتھ نیکی کرتے ہیں، سچ بولتے ہیں، کمزوروں کی مدد کرتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں، اور حق کے راستے میں مدد کرتے ہیں۔"

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے چچا زاد ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں، جو عیسائی عالم تھے۔ انھوں نے کہا: "یہ وہی فرشتہ ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوتا تھا۔ اگر میں اس وقت زندہ رہا، جب آپ کی قوم آپ کو نکالے گی، تو میں آپ کی مدد کروں گا۔" یہ واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی ابتدا تھا۔ غارِ حرا میں آپ کی عبادت اور غور و فکر اس بات کا ثبوت تھا کہ اللہ نے آپ کو ایک عظیم مشن کے لیے چنا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بعد دنیا کا نظام بدلنے والا تھا

دعوتِ اسلام کا آغاز اور ابتدائی مشکلات
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہونے کے بعد، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اسلام کی دعوت دینے کا حکم دیا۔ ابتدا میں یہ دعوت خاموشی سے قریبی لوگوں تک پہنچائی گئی، لیکن بعد میں اللہ نے کھل کر تبلیغ کرنے کا حکم دیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے اپنے قریبی عزیزوں کو اسلام کی دعوت دی۔
سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں شامل تھے:
1. حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا (آپ کی زوجہ)
2. حضرت علی رضی اللہ عنہ (آپ کے چچا زاد)
3. حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ (آپ کے قریبی دوست)
4. حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ (آپ کے آزاد کردہ غلام)
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان، حضرت زبیر، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص، اور حضرت طلحہ جیسے لوگوں کو اسلام کی طرف بلایا، جو بعد میں اسلام کے ستون بنے۔

تین سال بعد، اللہ پاک نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا:
"اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ" (الشعراء: 214)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی ہاشم اور قریش کے سرداروں کو دعوت دی، لیکن اکثر نے انکار کر دیا۔
ابولہب سب سے بڑا مخالف بنا اور کہا:
"تَبًّا لَكَ يَا مُحَمَّدُ! أَلِهَذَا جَمَعْتَنَا؟"
"تمہارے لیے ہلاکت ہو، کیا تم نے ہمیں اسی لیے جمع کیا تھا؟"
اللہ تعالیٰ نے اس پر سورہ اللّہب نازل فرمائی:
"تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ"
"ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ ہلاک ہو جائے۔"

جب اسلام کی دعوت پھیلنے لگی، تو قریش کے سرداروں نے ظلم شروع کر دیا۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو ریت پر لٹایا جاتا اور گرم پتھر رکھ کر اذیت دی جاتی۔ حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا (اسلام کی پہلی شہید خاتون) کو ابوجہل نے برچھی مار کر شہید کر دیا۔ حضرت یاسر اور حضرت عمار کو شدید تکلیفیں دی گئیں۔ حضرت خباب بن ارت، حضرت صہیب رومی، حضرت مصعب بن عمیر اور دیگر صحابہ کو سخت سزائیں دی گئیں۔

قریش نے بنو ہاشم اور مسلمانوں کا سوشل بائیکاٹ کر دیا۔ تین سال تک مسلمان شعب ابی طالب میں قید رہے، جہاں کھانے پینے کی اشیاء بند کر دی گئیں۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ابوطالب کو بہت تکالیف اٹھانی پڑیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کو شدید مشکلات اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑا، لیکن وہ اپنے ایمان پر قائم رہے۔ ان مظالم کے باوجود اسلام کا نور مکہ میں پھیلتا رہا۔

عام الحزن: دو بڑے صدمات
1. حضرت ابوطالب کا انتقال
حضرت ابوطالب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے حمایتی تھے۔ انہوں نے ہمیشہ آپ کی حفاظت کی اور قریش کے ظلم سے بچایا۔ ان کے انتقال کے بعد قریش کے ظلم مزید بڑھ گئے۔
2. حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا انتقال
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی مددگار تھیں۔ انہوں نے ہر مشکل وقت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا۔ ان کی وفات کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ غمگین ہوئے۔

یہ دونوں صدمات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بہت بڑا امتحان تھے۔

طائف کا سفر: سب سے تکلیف دہ دن
جب مکہ کے سرداروں نے ظلم حد سے بڑھا دیا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف جانے کا فیصلہ کیا۔ طائف مکہ سے تقریباً 90 کلومیٹر دور تھا اور وہاں ثقیف قبیلہ آباد تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثقیف کے سرداروں کو اسلام کی دعوت دی، لیکن انہوں نے مزاح کیا اور اسلام کو قبول نہ کیا۔ شہر کے اوباش لڑکوں کو پیچھے لگا دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر برسائے، جس سے آپ کے مبارک پاؤں زخمی ہو گئے۔ خون بہنے لگا اور آپ زخموں سے چور ہو گئے۔

سب سے دردناک دعا
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک باغ میں پہنچے، تو آپ نے اللہ سے فریاد کی: "اے اللہ! میں اپنی کمزوری، بے سروسامانی، اور لوگوں کی بے اعتنائی کی شکایت تیرے حضور کرتا ہوں۔ اگر تو مجھ سے ناراض نہیں، تو مجھے کسی بات کی پرواہ نہیں۔" حضرت جبرائیل علیہ السلام ایک فرشتہ لے کر حاضر ہوئے اور کہا: "اگر آپ کہیں تو یہ فرشتہ ان پہاڑوں کو طائف کے لوگوں پر الٹ دے؟" لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاف کر دیا اور فرمایا: "نہیں، میں امید رکھتا ہوں کہ ان کی نسلوں میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ کی عبادت کریں گے۔" یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے مشکل گھڑیوں میں سے ایک تھی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر اور رحمت کا مظاہرہ کیا۔ اللہ نے اس صبر کا بدلہ دیا اور جلد ہی اسلام کی روشنی مکہ سے باہر پھیلنے لگی