حسین وادی، خوبصورت لوگ، زندہ افکار، اور آزادی کا لازوال شعور۔ کشمیر اور اہل کشمیر کی یہ صفات دلی سے لندن تک یوں نمایاں ہوئی ہیں کہ حقائق چھپانے والے منہ چھپانے لگے، سوالیہ نظروں سے آنکھیں چرانے لگے۔ دانشور ہو یا حاکم، انصاف کی بات منہ سے نکالنا آسان نہیں۔ برطانوی اخبار دی گارڈین میں 18 جولائی کو کشمیری صحافی مرزا وحید کا مضمون India is blinding young Kashmiri protesters - and no one will face justice شائع ہوا، تو بھارت میں سب کو سانپ سونگھ گیا۔ کوئی کچھ نہ بولا، سوائے ارون دھتی رائے کے۔ واحد بھارتی ادیب اور دانشور، جنہوں نے مسئلہ کشمیر پر ہمیشہ سچ کا ساتھ دیا۔
بھارت کے جریدے آؤٹ لک میں ارون دھتی رائے نے 'آزادی' کے عنوان سے پھر آئینہ نئی دلی سرکار کے آگے کر دیا ہے، نوشتہ دیوار دکھا دیا ہے۔ خاتون لکھتی ہیں،
’’ہر سال کی طرح، ہر دہائی کی طرح، ایک قبر سے دوسری قبر تک، اہل کشمیر نے پھر واضح کر دیا ہے کہ وہ صرف آزادی چاہتے ہیں۔ ہم جب بھارتی فورسز کے ہاتھوں کشمیریوں پر مظالم دیکھتے ہیں، نوجوانوں کو اندھا بنانے کےلیے پیلٹ گنوں کا استعمال دیکھتے ہیں، تب ہمیں ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اصل بحث محض کشمیر میں حقوق انسانی کی نہیں ہے، کشمیر کے لوگ بھارتی مظالم کے خلاف جو جدوجہد کر رہے ہیں، وہ صرف اور صرف بھارت سے آزادی کے لیے ہے۔ اس کے لیے وہ پتھروں کے سہارے لڑنے کے لیے تیار ہیں، وہ جان دینے کے لیے تیار ہیں، اسلحہ تھام کر کٹ مرنے کے لیے تیار ہیں۔ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ جوان موت مرنے جا رہے ہیں۔ کشمیری ثابت کرچکے ہیں کہ تحریک آزادی کچلی نہیں جاسکتی۔‘‘
ارون دھتی رائے اہل کشمیر کی تحریک کا اصل مزاج اور درست مؤقف ہی پیش کرنے پر اکتفا نہیں کرتیں۔ آگے چل کر وہ لکھتی ہیں:
’’اگر ہم واقعی مسئلہ کشمیر حل کرنا چاہتے ہیں۔ وادی میں موت کا کھیل روکنا چاہتے ہیں، تو تھوڑا سا اخلاص درکار ہوگا۔ دیانتداری سے مکالمہ کرنا ہوگا۔ جس کا موضوع آزادی ہو: کشمیریوں کے لیے آزادی کا کیا مطلب ہے؟ اس پر بحث کیوں نہیں ہوسکتی؟ لوگوں کے حق خودارادیت کو کیوں ہر قیمت پر کچلنا ضروری ہے؟ کیا بھارت کے لوگ اپنے ضمیر پر ہزاروں کشمیریوں کے خون کا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار ہیں؟ بھارت میں مسئلہ کشمیر پر اتفاق رائے حقیقی ہے یا مصنوعی؟ کیا یہ اتفاق رائے کوئی وزن رکھتا ہے؟ نہیں، درحقیقت اہمیت صرف اس بات کی ہے کہ کشمیر کے لوگ کیا چاہتے ہیں۔‘‘
ہندوستان کی یہ باضمیر آواز سچی ہے۔ کوئلہ کی کان میں دمکتے ہیرے کی مانند ہے۔ یہ آواز گھٹا ٹوپ اندھیرے میں واحد کرن ہے، جو صاف نظر آ رہی ہے۔ بھارت سے زندہ ضمیر کی یہ پکار انہیں سنائی نہیں دیتی، جنہیں معصوم کشمیریوں کی آنکھوں سے بہتا لہو نظر نہیں آتا، جنہیں اندھے مظلوم دکھائی نہیں دیتے، جنہیں کشمیریوں کی پکار سنائی نہیں دیتی، جو کشمیر کا نام سنتے ہی انسانی حقوق کی لن ترانیاں بھول جاتے ہیں، اور جنہیں سیکولرازم کی وسیع القلبی کا راگ الاپنا یاد نہیں رہتا، اور جن کی ساری انسانیت قومی اتفاق رائے کی تنگ نظری میں مقید ہو کر رہ جاتی ہے۔ درحقیقت غلام کشمیری نہیں، بلکہ وہ غاصب فوج ہے جو لاکھوں کی تعداد میں چوبیس گھنٹے بیگار کیمپ کی طرح وادی کی نگرانی پر مامور ہے۔ سالوں چھٹی نہیں ملتی، بھارتی فوجی اذیت ناک زندگی سے تنگ آ کر خودکشی کر رہے ہیں۔ بھارت سے آزادی کی خاطر کشمیریوں نے94391 جانوں کی قربانی دی ہے۔135152 کشمیری حبس بےجا میں رکھے گئے ہیں۔ 22816 عورتیں بیوہ ہوئی ہیں۔ 107569 بچے یتیم ہوچکے ہیں۔ سچ ہے کہ کشمیریوں پر مظالم کا مکمل شمار ممکن نہیں۔27 سالہ ریاستی دہشت گردی کا مایوس کن نتیجہ بھارت کا مقدر بن چکا ہے۔ یہی حقیقت بھارتی دانشور ارون دھتی رائے نے بلا کم و کاست بیان کردی ہے۔ ہندوستان سے آزاد ضمیر کی یہ پکار دلی سرکار کے لیے واضح انتباہ ہے، کہ اپنے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنا بند کرے اور کشمیریوں کی آنکھیں پھوڑنے سے بازآجائے۔
تبصرہ لکھیے