کیا بیٹی کا کوئی گھر نہیں ہوتا؟ کیا واقعی کوئی گھر اپنا ہوتا ہے؟ وہ گھر جہاں ہم نے آنکھ کھولی، پہلا قدم اٹھایا، ہنسی بکھیری، اور زندگی کے معصوم ترین لمحات گزارے—کیا وہ صرف ایک عارضی پڑاؤ تھا؟ کیا وہ در و دیوار، جن سے ہماری ہنسی اور رونے کی آوازیں وابستہ تھیں، ایک دن ہمارے لیے پرائے ہو جاتے ہیں؟
شادی کے ایک دن پہلے، آمنہ کی ماں نے اس کے ہاتھ میں اس کا شادی کا جوڑا، زیورات اور چوڑیاں تھما دیں۔ چہرے پر خوشی کے باوجود آنکھوں میں ایک انجانی اداسی تھی۔
"یہ لو بیٹا، کل تمھیں پہننا ہے"
ماں کی آواز میں شفقت تھی، مگر آمنہ کے دل میں ایک عجیب سی بےچینی اتر آئی۔ یہ لمحہ اس کے لیے آخری تھا جب وہ اپنی ماں کے دیے ہوئے کپڑے پہن رہی تھی، کیونکہ اگلے دن وہ کسی اور نام سے پکاری جائے گی، کسی اور گھر کی ہو جائے گی، اور کسی اور رسم و رواج میں ڈھلنے کی کوشش کرے گی۔
"کیا وہ گھر واقعی میرا ہوگا؟ کیا میں وہاں اپنائیت محسوس کر پاؤں گی؟"
شادی کا دن آ پہنچا۔ رخصتی کا لمحہ آیا تو ماں کی آنکھوں میں نمی تھی، باپ کی خاموشی بوجھل تھی، اور بہن بھائیوں کا شرارت بھرا انداز اب عجیب سا لگا۔ سب کچھ ایک لمحے میں بدل گیا۔
سسرال پہنچی تو ساس نے محبت سے کہا
"بیٹا، یہ تمہارا کمرہ ہے۔"
آمنہ نے چاروں طرف نظر دوڑائی—سب کچھ نیا، سب کچھ خوبصورت، مگر سب کچھ اجنبی۔ سسرال کے سب لوگ اچھے تھے، محبت کرنے والے تھے، مگر اس کے باوجود وہ اپنے اندر ایک خلا محسوس کر رہی تھی۔ ہر بات ناپ تول کر کہنی تھی، ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا تھا، ہر عمل کو صحیح ثابت کرنا تھا۔
سسر نے نرمی سے کہا
"بیٹا، اب تم اس گھر کی بہو ہو، ہماری عزت کا خیال رکھنا۔"
ان کے لہجے میں محبت بھی تھی، مگر ذمہ داری کا بوجھ بھی۔
دن گزرتے گئے، مگر آمنہ کے دل میں وہی بےچینی تھی۔ ایک دن اس نے ہمت کی اور ساس سے میکے جانے کی اجازت طلب کی۔ ساس مسکرائیں اور بولیں،
"بیٹا، میکے کے دروازے ہمیشہ کھلے ہوتے ہیں، مگر وہاں ہمیشہ رہا نہیں جاتا۔"
خیر وہ میکے رہنے کو آ گئی۔ ماں کے دروازہ کھولتے ہی آمنہ کو گلے لگا لیا، باپ نے سر پر ہاتھ رکھا، بہن بھائیوں نے چھیڑنا شروع کر دیا۔ سب کچھ وہی تھا، مگر کچھ بدل چکا تھا۔
وہ کمرے جہاں کبھی وہ بےفکری سے گھومتی تھی، اب اسے اجنبی لگ رہے تھے۔ ماں نے پوچھا،
"بیٹا، سسرال میں خوش تو ہو نا؟"
آمنہ نے مسکرا کر کہا
"جی امی، بہت خوش ہوں۔"
مگر ماں کی آنکھوں میں سوالات تھے، باپ کے دل میں فکر تھی، اور بہن بھائی جان چکے تھے کہ اب وہ پہلے والی آمنہ نہیں رہی۔
کیا واقعی وہ گھر اب اس کا نہیں تھا؟ کیا وہ سسرال کو اپنا پائے گی؟
میکے میں چند دن گزارنے کے بعد وہ سسرال واپس آ گئی، مگر اب دل میں ایک عجیب سا احساس تھا۔ نہ میکہ پہلے جیسا رہا تھا، نہ سسرال اپنا لگا۔ وہ ایک ایسے پل پر کھڑی تھی، جہاں نہ پیچھے جانا ممکن تھا، نہ آگے کا راستہ اپنا لگ رہا تھا۔
رات کے سناٹے میں چھت پر جا کر آسمان کو دیکھنے لگی۔ ستارے چمک رہے تھے—قریب ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے جداتھے۔
آمنہ نے سوچا، "یہ گھر، یہ لوگ، یہ رشتے سب میرے پاس ہیں، مگر کیا میں بھی ان کی ہوں؟"
یہ سوال شاید ہر لڑکی کے دل میں اٹھتا ہے، مگر اس کا جواب کبھی نہیں ملتا۔
تبصرہ لکھیے