ہوم << سعادت کی زندگی، شہادت کی موت - ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

سعادت کی زندگی، شہادت کی موت - ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

جمعہ کی نماز کے بعد اسلام آباد سے مردان کےلیے روانہ ہوا، تو راستے میں یہ جانکاہ خبر ملی کہ دار العلوم حقانیہ میں خود کش حملے میں مولانا حامد الحق شہید ہوگئے ہیں اور ان کے علاوہ کئی دیگر علماء اور طالب علم بھی شہید یا زخمی ہوئے ہیں۔ کچھ دیر کےلیے تو سکتہ سا طاری ہوگیا۔ کون ایسا شقی القلب ہوسکتا ہے جو ان جیسے باعمل عالم کو اور مسجد اور دینی علوم کے مرکز کو یوں دہشت گردی کا نشانہ بنائے؟ پھر کئی اور ایسے واقعات یاد آئے جن میں اس سے پہلے بھی ایسا کیا جاتا رہا ہے۔ کتنے ہی جلیل القدر علماء کو پچھلے چند عشروں میں باقاعدہ ہدف بنا کر قتل کیا گیا، کتنے ہی مساجد برباد کیے گئے، کتنے حجروں اور کتنے جرگوں کو نشانہ بنایا گیا، کتنی دفعہ عوامی مقامات پر دھماکے کیے گئے، کتنے بے گناہ لوگوں کو شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کیا گیا، اور کتنے لوگ ”کولیٹرل ڈیمیج“قرار پا کر صرف اعداد و شمار کی صورت میں ذکر کیے گئے۔

جو ہوا، وہ انوکھا نہیں لیکن انتہائی تکلیف دہ ضرور ہے۔ مولانا حامد الحق دھیمے مزاج کے آدمی تھے، بہترین کردار کے مالک، مثالی اخلاق کے حامل، ہر کسی کے ساتھ خندہ پیشانی سے ملنے والے، کسی کےلیے دل میں بغض نہ رکھنے والے، ہمیشہ اصلاح کی کوشش کرنے والے اور دلوں کو جوڑنے والے۔ میرے ساتھ تو خیر ان کا بہت ہی شفقت کا معاملہ تھا، اور وہی نہیں، ان کے جلیل القدر والد شہید مولانا سمیع الحق بھی مجھ پر بڑی شفقت کرتے تھے۔ اس عظیم خانوادے کے ساتھ ہمارا کئی نسلوں کا تعلق ہے۔

میرے بچپن کی بات ہے۔ اس دن میں ننھیال میں تھا۔ اپنے سب سے چھوٹے ماموں، جو عمر میں مجھ سے کچھ ہی بڑےہیں، کے ساتھ رات گئے تک گپ شپ رہی اور بہت دیر سے سوئے۔ ابھی گہری نیند کے مزے لے رہے تھے کہ اچانک کانوں میں میرے نانا، جنھیں ہم ”خان داجی“ کہتے تھے، کی آواز پڑی: ”اٹھو، جلدی اٹھو“۔ خان داجی حکیم حافظ ضیاء الاسلام قادری (فاضل دیوبند) کی شخصیت بہت بارعب تھی۔ مجھ سے بہت ہی زیادہ محبت کرتے تھے، لیکن رعب بہرحال ان کا بہت تھا۔ اس لیے نیند اڑنچو ہوگئی۔ جلدی سے اٹھے، وضو کیا اور فوراً ہی نماز پڑھی کیونکہ خیال یہ آیا تھا کہ شاید فجر کی نماز قضاء ہورہی ہے اور خان داجی اس وجہ سے جلدی کررہے ہیں۔ نماز پڑھ کر ان کے کمرے کی طرف گیا، تو باہر اندھیرا تھا۔ حیرت ہوئی کہ ابھی تو فجر کا وقت ہی نہیں ہے، پھر خان داجی نے کیوں اٹھایا؟ وہ کہیں جانے کےلیے تیار تھے۔ ہمیں بھی ساتھ لیا۔ گاڑی میں بیٹھ گئے، تو کہا کہ بہت عظیم شخصیت کا انتقال ہوا ہے، تعزیت اور دعا کےلیے جانا ہے۔ پھر انھوں نے شیخ الحدیث مولانا عبد الحق کا ذکر کیا، ان کی علمیت اور ان کے روحانی مرتبے پر بات کی اور کہا کہ ان کی وفات پر دعا کےلیے جانے سے خود ہمیں روحانی فائدہ ہوگا۔
مولانا عبد الحق کے ساتھ یہی قلبی تعلق میرے دادا علامہ مفتی مدرار اللہ مدرار نقشبندی کا بھی تھا۔ ان بزرگوں کی باہمی محبت کے کئی واقعات ذہن میں آرہے ہیں لیکن کالم کا دامن تنگ ہے۔ دار العلوم حقانیہ کے مؤقر مجلے ”الحق“ میں میرے دادا کے علمی مضامین اور مکاتیب مسلسل شائع ہوتے تھے اور بہت ہی اہم موضوعات پر انھوں نے معرکہ آرا تحقیقات پیش کیں۔ ان مضامین میں کچھ بعد میں کتابی صورت میں بھی شائع ہوئے، جیسے ”بایزید انصاری پیرِ روشن یا پیرِ تاریک؟“ اور ”غلام احمد پرویز منکرِ حدیث یا منکرِ قرآن“۔

مولانا عبد الحق کے علاوہ ان کے عظیم القدر فرزندان، جو اپنی جگہ بڑا علمی مقام رکھتے ہیں، کے ساتھ بھی میرے دادا اور میرے والد گرامی جناب اکرام اللہ شاہد کا تعلق اسی طرح برقرار رہا۔ والد گرامی کو مولانا سمیع الحق شہید نے اپنی جانب سے متحدہ مجلسِ عمل کےلیے صوبائی اسمبلی کے امیدوار کی حیثیت سے نامزد کیا، بعد میں وہ صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر بھی رہے۔ بعد میں بھی دار العلوم حقانیہ میں شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی جیسے اساطین کی آمد ہو، یا کسی علمی یا عملی مسئلے پر مشاورت کی مجلس ہو، میرے والد گرامی کو شیخ شہید بلاتے رہے۔ مجھے اپنے تعلیمی سفر اور عملی مصروفیات کی وجہ سے ایسی مجالس میں شرکت کے مواقع کم ملے، لیکن میرے بڑے بھائی افتخار احمد فاروق کو زیادہ توفیق ملی، اور اس وجہ سے شیخ شہید کے فرزندان بالخصوص مولانا حامد الحق اور مولانا راشد الحق کے ساتھ ان کا خصوصی تعلق بن گیا۔ مجھے البتہ یہ سعادت ضرور ملی کہ ”الحق“ میں میرے کئی مضامین اور مقالات شائع ہوئے۔ ان میں جہاد اور دہشت گردی کے موضوع پر وہ مقالہ بھی تھا جو 2005ء میں تین اقساط میں شائع ہوا اور اس میں، میں نے خود کش حملوں اور دہشت گردی کی دیگر صورتوں پر شرعی اصولوں کی روشنی میں تنقید کی تھی۔

مولانا حامد الحق اور مولانا سمیع الحق کے ساتھ ظلم کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ انھیں میڈیا پر انتہا پسندی اور دہشت گردی کے ساتھ جوڑا جاتا رہا، اور نہ صرف ان کے علمی مقام اور مرتبے کا لحاظ نہیں رکھا گیا، بلکہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف اور مسلمانوں کے مختلف مکاتبِ فکر کے مابین اتفاق و اتحاد کےلیے ان کی کاوشوں اور مسلسل جدوجہد کو بھی دبانے کی کوشش کی جاتی رہی۔ مولانا حامد الحق نے اپنے والد کی طرح سعادت کی زندگی بسر کی اور شہادت کی زندگی پائی۔ ان کے ورثا، بالخصوص ان کے جانشین مولانا عبد الحق ثانی، کے بارے میں یقین ہے کہ وہ اپنے بزرگوں کی علمی وراثت کا حق ادا کریں گے اور ان کی عملی جدوجہد کا سلسلہ بھی جاری رکھیں گے۔

تاہم سوال یہ ہے کہ خود ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ کیا ان شہیدوں کا خون رائیگاں جائے گا یا ان کی شہادت سے ہمیں اس بات پر سوچنے کی توفیق ملے گی کہ دہشت گردی کا یہ ناسور کیسے ختم کیا جاسکتا ہے؟ دہشت گرد ایسے ظالمانہ اور بزدلانہ حملوں کےلیے قرآن و سنت سے جو استدلال کرتے ہیں، اس میں کیا غلطی ہے؟ یہ کیسی جنگ ہے جس کی کوئی حدود اور قیود نہیں ہیں اور جس میں ”سب کچھ جائز“ سمجھا جاتا ہے؟ سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمارے سیکیورٹی ادارے ایسے حملوں کا سلسلہ کیوں روک نہیں پارہے اور ان حملوں کے بعد ان کے ذمہ داران کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنے اور انھیں ملکی آئین و قانون کے تحت قرار واقعی سزا دینے میں ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے ناکام کیوں ثابت ہورہے ہیں؟

مولانا حامد الحق کی شہادت کوئی تنہا یا الگ معاملہ نہیں ہے۔ واقعات کا ایک پورا سلسلہ ہے، اس شہادت سے پہلے بھی، اور اس کے بعد بھی۔ دو دن قبل بنوں میں دہشت گردوں کا حملہ ہوا تو اعلان ہوا کہ حملہ ناکام بنا دیا گیا۔ اس پہلو سے تو یقیناً دہشت گرد ناکام ہوئے کہ وہ چھاؤنی میں داخل نہیں ہوسکے، لیکن جو بڑا جانی و مالی نقصان ہوا، کیا اسے یہ کہہ کر بھلایا جائے کہ:
یہ خونِ خاک نشیناں تھا، رزقِ خاک ہوا!

Comments

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیرِ ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر اور سربراہ شعبۂ شریعہ و قانون ہیں۔ اس سے پہلے چیف جسٹس آف پاکستان کے سیکرٹری اور شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔قبل ازیں سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ کی ذمہ داری بھی انجام دی۔ اصولِ قانون، اصولِ فقہ، فوجداری قانون، عائلی قانون اور بین الاقوامی قانونِ جنگ کے علاوہ قرآنیات اور تقابلِ ادیان پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات تصنیف کرچکے ہیں۔

Click here to post a comment