عدل و انصاف کسی بھی معاشرے کی بقا اور استحکام کے ضامن ہیں، اور سورہ نساء اسی اصول کو عملی شکل دیتی ہے۔ اسلامی معاشرتی نظام عدل، مساوات اور حقوق کی ادائیگی پر مبنی ہے، اور یہ سورت انہی بنیادی اصولوں کی وضاحت کرتی ہے۔ اس میں سکھایا گیا ہے کہ انصاف تبھی ممکن ہے جب تمام طبقات کے حقوق کو برابر تسلیم کیا جائے۔ سورہ نساء کا عدالتی نظریہ نہ صرف پدرشاہی جاگیرداری کے خلاف ہے، بلکہ سرمایہ دارانہ استحصال اور طاقتور طبقات کی اجارہ داری کو بھی چیلنج کرتا ہے، تاکہ ایک منصفانہ اور متوازن معاشرہ تشکیل دیا جا سکے۔
معاشرتی عدل کے بنیادی ستون:
قرآن مجید نے ظلم و ناانصافی کے خاتمے کے لیے مختلف پہلوؤں سے انصاف پر مبنی ہدایات دی ہیں۔ ان ہدایات کی بنیاد پر ہم معاشرتی عدل کو پانچ اہم ستونوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:
1. معاشی عدل: یتیموں، بیواؤں اور وراثت کے اصول
2. خاندانی عدل: نکاح، ازدواجی حقوق، اور خواتین کی عزت و حفاظت
3. عدالتی عدل: حکومتی و سماجی انصاف، کرپشن کا خاتمہ، اور قانونی مساوات
4. اجتماعی عدل: اقلیتوں، غلاموں اور محکوم طبقات کے حقوق
5. عالمی عدل: جہاد و قتال اور بین الاقوامی انصاف
یہ پانچ اصول درحقیقت ایک ہی مقصد کے لیے وضع کیے گئے ہیں: ایسا معاشرہ تشکیل دینا جہاں کوئی طاقتور کمزور کو دبا نہ سکے، ہر فرد کو اس کا حق ملے، اور ہر ناانصافی کا سدباب کیا جائے۔
1. معاشی عدل – وراثت، یتیموں، اور محتاجوں کے حقوق
سورہ نساء میں سب سے پہلے معاشی عدل پر بات کی گئی ہے، کیونکہ جب کسی معاشرے میں دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم ہوتی ہے تو استحصال، طبقاتی فرق، اور ظلم جنم لیتا ہے۔ چنانچہ آیت نمبر 7 میں ہے:
"لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ"
’’مردوں کے لیے بھی حصہ ہے اس میں جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں، اور عورتوں کے لیے بھی حصہ ہے‘‘ (النساء: 7)
یہاں واضح کیا گیا کہ دولت کی تقسیم میں کسی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، چاہے وہ عورت ہو یا مرد، یتیم ہو یا بیوہ۔
2. خاندانی عدل – ازدواجی تعلقات، خواتین کے حقوق، اور عدل کا اصول
اسلامی معاشرتی نظام میں خاندان کو بنیادی اکائی کی حیثیت دی گئی ہے اور اس کی بنیاد عدل پر رکھی گئی ہے۔ آیت نمبر 19 میں اسی امر سے متعلق بیان ہے کہ:
"وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ"
"اور ان (عورتوں) کے ساتھ بھلائی سے پیش آؤ" (النساء: 19)
یہ آیت ازدواجی زندگی میں محبت، انصاف اور بھلائی کے رویے کو لازم قرار دیتی ہے۔ خاندانی عدل کے تحت بیوی اور شوہر کے درمیان باہمی حقوق و فرائض متعین کیے گئے ہیں۔میاں بیوی کے رشتے میں محبت اور خیرخواہی کی بنیاد رکھی گئی۔ خفیہ تعلقات (Affairs) کی حوصلہ شکنی کی گئی، کیونکہ یہ عورت کی عزت و وقار اور خاندانی نظام کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
یہاں ایک ایسے گھریلو نظام کا تصور دیا گیا ہے جس میں عورتوں کو عزت دی جائے اور ان کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی نہ کی جائے۔ خاندانی نظام میں عمومی قاعدہ یہ بیان کیا گیا کہ بیوی کے مقابلے میں شوہر کو گھر کے سربراہ کی حیثیت دی گئی، اور گھریلو تنازعہ کی صورت میں افہام وتفہیم اور باہمی اصلاح کا جامع میکانزم دیا، جس میں آخری حد تک خاندان کے ادارے کو بچانے کی کوشش کی گئی، مردوں کو گھریلو تشدد سے روکا گیا، حضرت عمر عورت کو سرزنش کرنے کے حکم کو ریاستی دائرہ کار میں قرار دیتے تھے اور اسی ضمن میں کئی مقدمات میں عورتوں پر تشدد کرنے والے مردوں کو سخت سزائیں دیں، حتیٰ کہ بعض کو کوڑے مارے۔ (سنن کبریٰ، بیہقی)
3. عدالتی عدل – حکومتی انصاف اور کرپشن کا خاتمہ
معاشی اور خاندانی عدل کے بعد، قرآن عدالتی عدل کو لازمی قرار دیتا ہے، کیونکہ جب عدالتیں کمزوروں کو انصاف نہ دے سکیں تو پورا معاشرہ ظلم کے شکنجے میں جکڑ جاتا ہے۔ آیت نمبر 58 میں اسی بابت حکم ہے کہ:
"إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤدُّوا الأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ"
’’بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے حق داروں کو پہنچا دو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو‘‘ (النساء: 58)
یہاں اسلامی عدالتی نظام کا بنیادی اصول دیا گیا کہ فیصلے ہمیشہ انصاف پر مبنی ہونے چاہئیں، نہ کہ اقربا پروری یا ذاتی مفادات پر۔
4. اجتماعی عدل – غلام، مزدور، اور اقلیتوں کے حقوق
قرآن اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ کسی بھی طبقے کے ساتھ ناانصافی نہ ہو، چاہے وہ غلام ہو، خادم ہو یا اقلیت سے تعلق رکھتا ہو، آیت 105 میں اسی جانب اشارہ ہے:
"وَلَا تَكُن لِّلْخَائِنِينَ خَصِيمًا"
’’اور خیانت کرنے والوں کی طرف سے وکیل نہ بنو‘‘ (النساء: 105)
یہ حکم طاقتوروں کو تحفظ دینے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور یہ اصول دیتا ہے کہ ہر مظلوم کو انصاف ملنا چاہیے، چاہے وہ کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتا ہو۔
5. عالمی عدل – جہاد و قتال اور بین الاقوامی انصاف
قرآن صرف داخلی عدل پر زور نہیں دیتا بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کی تعلیم دیتا ہے۔ چنانچہ آیت 75 میں بیان. کیا گیا ہے کہ:
"وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ"
’’اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان کمزور مردوں، عورتوں، اور بچوں کے لیے نہیں لڑتے جو ظلم سہ رہے ہیں؟‘‘ (النساء: 75)
یہ آیت ظالموں کے خلاف جہاد کا حکم دیتی ہے، تاکہ کوئی قوم کسی دوسری قوم پر جبر نہ کر سکے۔
عادلانہ نظام میں رکاوٹیں:
اگرچہ اسلام ایک کامل عادلانہ نظام فراہم کرتا ہے، مگر اس کے قیام میں مختلف معاشرتی، سیاسی، اور فکری رکاوٹیں ہمیشہ حائل رہی ہیں۔ سورہ نساء ان تمام عناصر کی نشاندہی کرتی ہے جو عدل کے نفاذ میں رکاوٹ بنتے ہیں:
1. منافقین – عدل کے دشمن اور دہرے معیارات کے حامل افراد
"إِنَّ الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ"
’’منافق لوگ اللہ کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں، مگر وہ انہیں انہی کے دھوکے میں مبتلا کر دیتا ہے‘‘ (النساء: 142)
منافقین ہمیشہ عدل کے خلاف سرگرم رہتے ہیں، کیونکہ وہ بظاہر حق کی حمایت کا دعویٰ کرتے ہیں، مگر درحقیقت ظالموں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ ان کا سب سے بڑا حربہ جھوٹ، دغا، اور دہرے معیارات ہوتے ہیں، جو عدالتی فیصلوں، سماجی مساوات، اور سیاسی نظام میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔ مذکورہ بالا آیت 142 اسی امر کو بیان کر رہی ہے.
2. رشوت اور سفارش – عدالتی عدل میں سب سے بڑی رکاوٹ
"وَلَا تَكُن لِّلْخَائِنِينَ خَصِيمًا"
’’اور خیانت کرنے والوں کی طرف سے وکیل نہ بنو‘‘ (النساء: 105)
یہ آیت اسلامی عدالتی نظام کی سب سے بڑی اصلاح ہے، کیونکہ اکثر معاشروں میں عدل کا قتل رشوت، اقربا پروری، اور طاقتوروں کی پشت پناہی کے ذریعے ہوتا ہے۔ قرآن نے صاف الفاظ میں کہا کہ ظالموں کے وکیل مت بنو، چاہے وہ تمہارے اپنے ہی کیوں نہ ہوں۔
3. طاقتور ظالم طبقے – جو کمزوروں کا استحصال کرتے ہیں
"وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ"
’’اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ‘‘ (النساء: 29)
یہ آیت ظالم جاگیرداروں، سرمایہ داروں، اور وڈیروں کے لیے کھلی وارننگ ہے، جو غریبوں اور مزدوروں کا استحصال کرتے ہیں۔ قرآن کا اصول یہی ہے کہ کوئی بھی طاقتور فرد یا گروہ کمزوروں کے حقوق نہ غصب کرے۔
4. خواتین کے حقوق کو پامال کرنے والے عناصر
"فَإِن كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا"
’’اگر تمہیں اپنی بیویاں ناپسند ہوں، تو ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں خیر رکھ دے‘‘ (النساء: 19)
یہ آیت خواتین پر جبر، زبردستی، اور ازدواجی زیادتی کے خلاف ایک بنیادی اصول ہے۔ مگر اس کے باوجود، کچھ نام نہاد مذہبی طبقے، روایتی سماجی ڈھانچے، اور مردانہ بالادستی کے حمایتی افراد اسلام کے اس عدل پر مبنی نظام کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں اور عورت کو کمزور اور بے اختیار ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
5. جہاد کے خلاف غلط پروپیگنڈا – عدل کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ
"وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ"
’’اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان کمزور مردوں، عورتوں، اور بچوں کے لیے نہیں لڑتے جو ظلم سہ رہے ہیں؟‘‘ (النساء: 75)
یہ آیت ان ظالم گروہوں کے خلاف عملی اقدام کا حکم دیتی ہے جو مظلوموں پر جبر کرتے ہیں۔ لیکن آج کے دور میں مغربی مفکرین اور مستشرقین اس آیت کو سیاق و سباق سے ہٹ کر جہاد کو دہشت گردی کے مترادف ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مغربی استعماری طاقتیں ہمیشہ ظلم کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دہشت گردی قرار دیتی رہی ہیں، تاکہ مظلوموں کو عدل سے محروم رکھا جا سکے۔
قرآن کا نظام عدل ہر ظلم اور ناانصافی کے خاتمے کا ضامن ہے۔ مگر جب تک منافقین، کرپٹ حکمران، طاقتور استحصالی طبقے، اور جہاد کے خلاف سازشیں کرنے والے عناصر موجود رہیں گے، عدل کا مکمل نفاذ مشکل رہے گا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ مسلمان قرآن کے عدل کے اصولوں کو سمجھیں اور ان کے مطابق اپنے معاشرے کو تشکیل دیں۔ یہی وہ جامع نظام عدل ہے جو ظلم و ناانصافی سے پاک معاشرہ قائم کرتا ہے، جس کا خاکہ سورہ نساء میں پیش کیا گیا ہے۔
تبصرہ لکھیے