زبان و ادب میں "قدر" کے معنیٰ کسوٹی، پیمانہ اور قیمت(01) کے ہیں اس کی جمع اقدار و قدریں آتی ہے(02) اور یہ "مطلق اندازے کے معنی میں بھی مستعمل ہے۔"(03)
کسوٹی اور پیمانہ بنانے والے ادارے حسبِ ذیل ہیں۔
(1) مذہب
(2) تہذیب
(3) فلسفہ و فکر
(4) قانون
حسن کی قدر کس طرح وجود میں آئی؟ قدریں تہذیب سے بنتی ہیں اور تہذیب جغرافیے سے، جغرافیائی اعتبار سے اقدار کو پرکھنے پر ایک مثلث کا وجود ہوتا ہے۔ جسے ہم ستِّیَم، شِوَم، سُنْدَرَم(حق، حُسن اور خیر) کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ اس مثلث کا منبع خدا ہے۔ ان تمام قدروں کی عمر اور زندگی کے بارے میں دو زاوئیے سامنے آتے ہیں۔
(1) حسنِ عارضی، غیر دائمی یا مجازی
(2) حسنِ دائمی، ابدی، ازلی یا حقیقی
حسن کے ساتھ لازماً عشق بھی ہے۔ جہاں حسن ہے وہاں عشق ہے۔ اگر حسن دوامی یا عارضی ہوگا، تو عشق بھی دوامی اور عارضی ہوگا اسی طرح سے اگر عشق غیر حقیقی یا مجازی ہوگا تو حسن بھی غیر حقیقی یا مجازی ہوگا۔ دنیا کے تمام ادب آرٹ یا فنونِ لطیفہ شاعری، موسیقی، مصوری، رقص اور فنِ تعمیر میں محصور ہیں۔ اصل میں یہ فنونِ لطیفہ حق، حُسن اور خیر کے تلاش کا عمل ہے۔ جب ہم ڈرامے اور فلمیں دیکھتے ہیں تو عاشق، معشوق اور وِلَن کا ایک مثلث قائم ہوتا ہے۔ ہمارے عالمی ادب میں عاشق تمام اعلیٰ انسانی قدروں کا محور، مرکز اور علمبردار ہے۔ مثلاً عاشق میں وفا، محبت، رحم دلی، جذبۂ ایثار و قربانی، دیانت داری، استقامت، استقلال، جہدِ مسلسل، عمل پیہم، صبر، شکر، جفا طلبی، مشقت، خارہ شگافی، اس کے علاوہ بھی یہ سبھی مثبت قدروں کا زندہ پیکر ہوتا ہے۔
عاشق کے مقابلے میں معشوق حسن کے تمام تر انتہا پر فائز ہے۔ لیکن اخلاقی اقدار سے عاری ہے۔ وہ صنم، پتھر کی طرح بے حس، بے وفا، ہرجائی، فریبی، مکار، عیار، ستم گر، جفا پیشہ، ناز و ادا، عشوہ و غمزہ، دلکش سراپا، مکر و دغا، بے حسی، بے وفائی اور تمام تر منفی اقدار کا سرچشمہ ہے۔ لیکن اس کے کردار میں جو خوبی ہے وہ معشوق کے ظاہری و باطنی تضاد سے آتا ہے۔
تیسرے کردار میں وِلَن، رقیب، غیر، عدو، دشمن، حریف، واعظ، زاہد، ملا، محتسب، ناصح، وغیرہ آتے ہیں۔ ان کی خصوصیات میں منافقت سب سے بڑی صفت ہے۔ فتنہ پروری، سازشی ذہن، باہم بغض و عناد پھیلانا، بدگمانیوں کو ہوا دینا۔ رِیاکاری اس کردار کی اہم ترین صفات ہیں۔ ہماری شاعری اس کردار کو طنز و مزاح، تحقیر و تذلیل، ہجو و ابتذال وغیرہ کا نشانہ بناتی ہے۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ مثبت و منفی سبھی طرح کے کردار اس کے تحت آجاتے ہیں۔ ہر نوع کو پیش کرنے میں یہ حد درجہ کامیاب ہے۔
1480 میں لودھی سلطنت کے حکمرانوں کے ذریعے بسایا گیا شہر لدھیانہ آج کھیتی باڑی کا مرکز مانا جاتا ہے۔ یہاں پورے پنچاب کی چالیس فیصد صنعتی فیکٹریاں موجود ہیں۔ جن میں سائیکل، ٹائر اور ٹیوب جیسی تیس سے زائد مصنوعات تیار کرنے والی کمپنیاں بہت شہرت کی حامل ہیں۔ یہ شہر پنجاب کی ثقافت اور کلچر کو پیش کرتا ہے۔ یہ ستلج سے تقریباً 13کلومیٹر دور اور ہندوستان کی راجدھانی دہلی سے محض 270 کلومیٹر کے فاصلے پر شمال مغرب میں واقع ہے۔ یہ دہلی سے امرتسر جانے والے نیشنل گرانڈ ٹرنک روڈ پر موجود ہے۔ یہ شمالی ہندوستان کے بڑے ریلوے جنکشن میں سے ایک ہے۔ 1962 میں یہاں پنجاب ایگریکلچرل یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔ لدھیانہ میں سینچائی کے لیے سرہند سے آنے والے نہر کے پانی کا استعمال کیا جاتا ہے۔شہر کا رقبہ تقریباً 160 مربع کیلومیٹر ہے۔ جبکہ پورے ضلع کا رقبہ لگ بھگ 3500 کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ رقبے کے اعتبار سے یہ پنجاب کا سب سے بڑا ضلع ہے۔ اس شہر کی آبادی سولہ لاکھ سے زائد ہے۔ آبادی کے حساب سے یہ پنجاب کا پہلا اور ہندوستان کا بائیسواں والا شہر ہے۔ اہالیانِ لدھیانہ کی شرح خواندگی کا تناسب 82 فیصد ہے۔ یہ دو حصوں میں منقسم ہے۔ نیا لدھیانہ اور پرانا لدھیانہ، نئے لدھیانہ میں صنعتی فیکٹریاں ہیں جبکہ پرانے لدھیانہ میں برطانوی عہد کی سرکاری عمارتیں موجود ہیں۔ اس شہر نے سڑک، ریلوے، بسوں اور ایک گھریلو ایئرپورٹ کی وجہ سے پورے ہندوستان کے بڑے شہروں سے خود کو جوڑ رکھا ہے۔
متنوع صفات کے حامل اس شہر کے کریم پورہ کی لال پتھروں والی حویلی(04) میں، عبد الحئی 08/مارچ1921 کو پیدا ہوئے۔ ان کے نانا عبد العزیز کشمیری تھے۔ ان کے والد کا نام چودھری فضل محمد، والدہ کا نام سردار بیگم اور دادا کا نام فتح محمد تھا۔ یہ پنجاب میں اپنے علاقے کے ایک زمیندار گجر تھے، جن کے پاس بہت ساری دولت تھی۔ یہ ساری جائیداد عبدالحئی کے والد کو ان کے دادا سے وراثت میں ملیں، لیکن بدقسمتی سے یہ عبد الحئی کے حصے میں نہیں آئی۔
ساحر کی وفات 25/اکتوبر1980 کو بامبے(موجودہ ممبئی) میں ہوئی۔ طالب علمی کے زمانے میں عبدالحئی کے تین اہم مشاغل تھے۔ جیسا کہ عموماً طالب علمی کے زمانے میں سبھی کے ہوتے ہیں۔ (1) شاعری (2) سیاست (3) عشق و عاشقی، یہ کچھ برسوں تک ادھر ادھر تک بھٹکتے پھرتے رہے۔ پھر 1950 میں ممبئی جاکر فلمی دنیا سے وابستہ ہوگئے اور آخری وقت تک وہیں مقیم رہے۔
ساحر کی اقدار پسندی کے تشکیلی عناصر :
کسی بھی فن کار یا تخلیق کار کی ذاتی زندگی کے معاملات اندرونِ خانہ کی آواز سے معتبر سمجھی جاتی ہے۔ شفیع سرور(ساحر کی ماموں زاد بڑی بہن) کے مضمون سے ہی ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ ساحر لدھیانوی اپنے بچپن سے ہی اشتراکی نقطۂ نظر کے حامل تھے۔ اللّٰہ نے بچپن ہی سے ان کے اندر دوسروں کے ساتھ تعاون، نُصح اور خیر خواہی کے جذبے کو ودیعت کر دیا تھا۔ اپنی اسی خوبی کی وجہ سے ساحر نے اپنے ساتھی، دوستوں، عزیزوں، خویش و اقارب اور اپنے ملنے جلنے والوں، مداحوں، غریب، مزدور عوام کی دامے، درمے، قدمے، سخنے ہر طرح کا تعاون پیش کیا اور ان کی مدد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ساحر اپنی زبان کے بہت پکے تھے۔ اپنے ماموں کی وفات پر ان کی دونوں بیٹیوں کو بہن سے بڑھ کر بیٹی کا درجہ دیا اور تاحیات ان دونوں کی ہر چھوٹی بڑی خواہش پوری کرتے رہے۔ ان سبھی باتوں کا تذکرہ سرور شفیع نے خود اپنے مضمون میں بہت تفصیل سے کیا ہے۔ ذیل میں ساحر کی اقدار پسندی کے تشکیلی عناصر کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ساحر نے بچپن میں اپنے دوست کا پھٹا کپڑا دیکھ کر اسے اپنا کپڑا دے دیا۔(05)خود سے پہلے اپنے پڑوسی دوست "گُرچَرن" کو گڑ کھلاتے۔ (06) اسی طرح ایک مرتبہ الہ آباد میں بھی ایک فقیر کی خستہ حالت دیکھ کر اسے دس روپے کا تعاون دیا اور ساتھ ہی ساتھ اسے اپنی قمیص بھی ہدیتاً دے دی۔(07)
گھر آنے والے ایک مانوس پرندے کے پانی والے جگ میں گرنے سے بے چین ہو گئے۔ مولانا ابوالکلام آزاد(1888-1958، غبارِ خاطر، خط نمبر 20-19، مرتب مالک رام) کی طرح یہ بھی پرندوں سے بہت محبت کرتے تھے۔ ساحر نے تو پرندوں کے لیے شعر بھی کہا ہے۔
چھن چھن کرتی آئی چڑیا
دل کا دانہ لائی چڑیا
جانوروں پر رحم کرنے کا اسی سے ملتے جلتے دو مزید واقعات کا تذکرہ انور سلطانہ(یہ بھی ساحر کی ماموں زاد چھوٹی بہن تھیں، جو ایک عرصے تک ممبئی میں ساحر کے ساتھ ہی مقیم رہ کر پڑھ رہی تھیں) نے بھی اپنے مضمون "گھر کی باتیں، انور بی بی کے بھائی جان" میں کیا ہے۔ جیسے ساحر کا الہ آباد ریلوے اسٹیشن سے اپنی ممانی کے گھر جانے کے لیے ہاتھ گاڑی کی شکل و شباہت والے رکشے پر نہ بیٹھتے ہوئے پیدل چلنے کو ترجیح دینا، کیونکہ اس رکشے کو آدمی کھینچتا ہے۔ یعنی اس رکشے میں بیل، گھوڑا، بھینسا یا کھچَّر جیسے جانوروں کی جگہ انسان جُتا ہوا ہے۔ ( شاید تہذیبی نشانی کے طور پر آج بھی کلکتہ میں کہیں کہیں اس قبیل کے رکشے چلتے دکھائی دیتے ہیں) ساحر نے اس رکشے پر سواری نہیں کی بلکہ صرف اپنا سامان رکھنے پر اکتفا کیا اور دو روپے کیرایہ کے عوض اسے دس روپے عنایت کیے۔ ساحر کے انسان دوستی کی یہ بھی ایک مثال ہے۔(09)
ساحر دوستی کے بہت اعلیٰ درجے پر فائز تھے۔ اپنے دوست رام پرکاش اشک کی بیماری پر اپنی فلم 'دو کلیاں' لکھنے کا مدراس سے کافی معاوضہ لے کر اسی دوست کے کینسر کے علاج کے لیے امریکہ بھجوا دیا۔(10)
ساحر کی زندگی پر بننے والی فلم پیاسا(1957) کا آخری مکالمہ بھی ان کی انسان دوستی کا مظہر ہے۔
"مجھے شکایت ہے سماج کے اس ڈھانچے سے جو آج انسان سے اس کی انسانیت چھین لیتا ہے۔ مطلب کے لیے اپنے بھائی کو بیگانہ بناتا ہے۔ دوست کو دشمن بناتا ہے۔ مجھے شکایت ہے اس تہذیب سے، اس سنسکرتی سے، جہاں مُردوں کو پوجا جاتا ہے اور زندہ انسانوں کو پیروں تلے روندا جاتا ہے۔ جہاں کسی کے دکھ، درد پر دو آنسو بہانا بزدلی سمجھا جاتاہے۔ جھک کے ملنا کمزوری سمجھا جاتا ہے۔ ایسے ماحول میں مجھے کبھی شانتی نہیں ملے گی مینا ! کبھی شانتی نہیں ملے گی۔ اسی لیے میں دور جارہا ہوں۔۔۔۔"(11)
سردار شفیع کے بقول ساحر کی والدہ سردار بیگم انہیں جج یا سول سرجن بنانا چاہتی تھیں، لیکن یہ شاعر بن گئے۔ (12) ایک بار کالج کے مشاعرے میں ان کی ماں نے بنفسِ نفیس شرکت کرکے جب اپنی آنکھوں سے اپنے بیٹے کو مشاعرہ پڑھتے دیکھ لیا تو یہ بہت خوش ہوئیں کہ ان کے بیٹے نے معاش کے لیے کسی غلط راستے کا انتخاب نہیں کیا ہے۔(13) کالج کے زمانے سے ہی عبدالحئی نے ساحر تخلص اختیار کرلیا اور مکمل طور پر شعر و شاعری میں مشغول ہوگئے۔ یعنی پیشہ ورانہ طور پر انہوں نے شاعری اختیار کرلی اور پروفیشنل شاعر بن گئے۔
ساحر کی عشق و محبت:
ساحر کی محبت ان کے والد کے علاوہ ان کی والدہ، ماموں، ممانی اور ان کی دونوں بیٹیوں انور سلطانہ اور سرور شفیع سے بہت گہری تھی۔ جبکہ ساحر کا معاشقہ "پریم چودھری"(14) "ایشر کور" اور "امرتا پریتم" سے تھا۔ یہ بات بہرحال تحقیق طلب کی ان تینوں میں سے ساحر کس کے ساتھ سنجیدہ تھے؟ کیوں کہ 'رسیدی ٹکٹ' پڑھ کر امرتا کی ساحر پر فریفتگی اور وارفتگی کا علم ہوتا ہے، لیکن ساحر کی ایسی کوئی تحریر مجھے نہیں مل سکی، جس کی بنیاد پر میں یہ کہہ سکوں کہ ساحر کا عشق بھی امرتا کی طرح جذباتی تھا۔ مزید تفصیل کے لیے اظہر جاوید کی کتاب 'ناکام محبت' کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔
ساحر کی آخری خواہشات جو کبھی پوری نہ ہوسکیں :
(1) ایک پبلیشر کے بقول ساحر اپنی کچھ نظموں کا انگریزی ترجمہ شائع کرانا چاہتے تھے۔ لیکن پبلیشر کے ہندوستان سے باہر چلے جانے کی وجہ سے یہ کام مؤخر ہوگیا۔ بالآخر یہ کام نہ ہوسکا اور ساحر کا انتقال ہوگیا۔ (15)
(2) سرور شفیع کے بقول ساحر کی ایک خواہش تو یہی تھی کہ وہ الہ آباد(موجودہ، پریاگ راج) میں ایک بنگلہ بنوائیں اور یہ چھے ماہ الہ آباد اور چھے ماہ ممبئی میں رہا کریں۔(16)
(3) انور سلطانہ کے بقول ساحر کہا کرتے تھے۔ "1982ء میں فلم سے کنارہ کش ہو جاؤں گا، بلکہ اس کا اعلان بھی کردوں گا اور الہ آباد جاکر رہوں گا تاکہ وہ دن نہ دیکھنا پڑے کہ پروڈیوسر کی خوش آمد کرنا پڑے۔"(17)
رواداری، یک جہتی، اخوت، تحمل، برداشت، حلم و بردباری کا درس ساحر نے اپنے متقدمین شعرائے اردو سے شعوری یا غیر شعوری طور پر اخذ کیا ہے، جیسے کہ متقدمین شعراء میں سے کچھ کے اشعار تمثیل کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں۔ ان اشعار میں وحدت الوجود بھی موجود ہے۔ جو ہماری کلاسیکی شاعری کا بنیادی وصف ہے۔
کعبہ اگر چہ ٹوٹا تو کیا جائے غم ہے شیخ
کچھ قصرِ دل نہیں کہ بنایا نہ جائے گا
بستے ہیں تیرے سائے میں سب شیخ و برہمن
آباد تجھی سے تو ہے گھر دیر و حرم کا
اس کے فروغِ حُسن سے جھمکے ہے سب میں نور
شمعِ حَرم ہو یا کہ دیا سومنات کا
ہم موحّد ہیں ہمارا کیش ہے ترکِ رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہوگئیں
اے زہدِ خشک تیری ہدایت کے واسطے
سوغاتِ عشق لائے ہیں کوئے بُتاں سے ہم
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہیں، ہندوستان ہمارا
حرم ہو، مدرسہ ہو، دیر ہو، مسجد کہ میخانہ
یہاں تو صرف جلوئے کی تمنّا ہے کہیں آ جا
مذکورہ بالا تمام شعرا کے اشعار کی گونج اور دھمک ہم ساحر کی نظم "کرشن پھر آئیں گے" میں محسوس کرسکتے ہیں۔
بچتے نہیں مؤاخذۂ روز حشر سے
قاتل اگر رقیب ہے تو تم گواہ ہو
اس نقشِ پا کے سجدے نے کیا کیا کیا ذلیل
میں کوچہ رقیب میں بھی سر کے بل گیا
بالی ووڈ کے خداؤں پر طنز کرتے ہوئے ساحر نے انہیں اپنا رقیب بتایا ہے۔
کون جانے یہ ترا شاعر آشفتہ مزاج
کتنے مغرور خداؤں کا رقیب آج بھی ہے
"انسان دوستی ساحر کی شاعری کا بنیادی وصف ہے۔"(18)
کلام ساحر سے انسانیت کی اعلیٰ قدروں کی کچھ مثالیں:
ساحر کی مکمل شاعری انسانیت کی اعلیٰ اقدار پر مبنی ہے۔ انہوں نے "تلخیاں"، "پرچھائیاں"، "آؤ کہ کوئی خواب بنیں"، "گاتا جائے بنجارہ"، جیسے شعری مجموعے اپنے پیچھے چھوڑے ہیں۔ ان کی چنندہ نظموں میں "معذوری"، "شکست"، "تاج محل"، "کبھی کبھی"، "خون پھر خون ہے"، "جواہر لال نہرو"، "ورثا"، "اک دیا اور بجھا"(شورش کاشمیری کے چھوٹے بھائی یورش کاشمیری کا مرثیہ)، "بنگال"، "نور جہاں کے مزار پر" اور "فن کار" کا نام قابلِ ذکر ہے۔ ساحر کی نظم "چکلے" پڑھ کر ایک شقی القلب قاری کا دل موم کی طرح نرم پڑ جاتا ہے۔ اس نظم کا صرف ایک بند ہزاروں صفحات اور گھنٹوں کے لیکچر پر بھاری ہے۔
مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی
یشودھا کی ہم جنس، رادھا کی بیٹی
پیمبر کی امت زلیخا کی بیٹی
ثنا خوانِِ تقدیس مشرق کہاں ہیں
عورتوں کی عزت و احترام کے متعلق سرور شفیع نے بھی اپنے مضمون میں ایک جگہ لکھا ہے۔ "کسی بوڑھی عورت کو کام کرتے دیکھتے تو بہت دکھی ہوتے، جو کچھ روپے دینا ہوتا تو چھپا کر دیتے۔ اپنی نظموں میں عورتوں کو بہت بڑا مقام دیا ہے۔ ان کا فلمی گانا ہے :
"عورت نے جنم دیا مردوں کو۔۔۔۔۔۔"(19)
"تلخیاں" میں شامل ان کی شاہ کار نظم "تاج محل" کا آخری بند ملاحظہ فرمائیں:
چمن زار یہ جمنا کا کنارہ یہ محل
یہ منقش در و دیوار یہ محراب یہ طاق
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے
اسی موضوع پر شکیل بدایونی(1916-1970) نے بھی ایک نظم لکھی، جس کا آخری حصہ یوں ہے۔
اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل
ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے
ان دونوں نظموں کو بہ غور پڑھنے سے یہ علم ہو جاتا کہ شکیل کے کلام میں محض رومانی تصور اور لفظی بازیگری کے سوا عنوان کے پوشیدہ پہلوؤں پر نظر نہیں ہے، جبکہ ساحر کی نظم میں پختگی، ایقان اور زمینی مسائل پر توجہ دی گئی۔
جنگ اور امن پر جب بھی گفتگو ہوگی تو ساحر کا نام ہمیشہ لیا جانے کا امکان ہے۔ اس سلسلے میں ان کی طویل نظم " پرچھائیاں" بہت ہی زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ "اے شریف انسانو !" کے دو بند یوں ہیں۔ جو پوری نظم کا ماحصل ہیں۔
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
آگ اور خون آج دیتی ہے
بھوک اور احتیاج کل دے گی/
اس لیے اے شریف انسانو !
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے
ساحر کی انہیں تخلیقی کوششوں کی وجہ سے ہند و پاک جنگ بندی کے عوض 1972 میں کچھ فوجی چوکیوں کا نام ساحر کے نام پر رکھا گیا تھا۔ (20)
ہم امن چاہتے ہیں مگر جنگ کے خلاف
گر جنگ لازمی ہو تو، پھر جنگ ہی سہی
ظالم کو جو نہ ٹوکے وہ شامل ہے ظلم میں
قاتل کو جو نہ روکے وہ قاتل کے ساتھ ہے
ساحر کا ماننا ہے کہ امن قائم کرنے کے لیے اگر جنگ ناگزیر ہو جائے تو یہ بھی کی جاسکتی ہے۔
ساحر کسی کو تکلیف پہنچانا تو دور کسی کی اداسی بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ (کسی کو اداس دیکھ کر، مشمولہ، "تلخیاں")
انسانی اقدار ساحر لدھیانوی کی نظر میں کیا ہیں؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے جب ہم ساحر کی تحریروں کا جائزہ لیتے ہیں، تو ہمیں حسبِ ذیل یہ الفاظ ملتے ہیں۔ جو ان کے مضمون "ترقی پسند ادب اور حب الوطنی" (مشمولہ، سہ ماہی اُردو ادب، شمارہ نمبر 357، جلد نمبر 65) کا اختتام پر درج ہیں۔
"ہم انسانیت کے اس عظیم کارواں کی امنگوں اور امیدوں کے عکاس ہیں۔ ہمارے فن کار کی ننھی ننھی کرنیں اس آفتابِ جہاں تاب کی شعاعوں کا ایک حصہ ہیں، جو عوامِ عالم کی پیشانی سے طلوع ہو رہا ہے۔ ہمیں قید کیا جا سکتا ہے، لیکن اس آفتاب کی روشنی کو کوئی قید نہیں کر سکتا۔ اسے نہ امریکی تا عمر قید کر سکتے ہیں نہ ہندستانی سرمایہ دار۔ نہ پاکستانی جاگیردار جکڑ سکتے ہیں اور نہ ان کے ادبی محافظ محمد حسن عسکری صاحب۔ یہ آفتاب تو ابھی اور ابھرے گا اور روشن ہوگا ، یہاں تک کہ دھرتی کا کونا کونا اس کے نور سے جگمگا اٹھے اور ظلم، جہالت اور افلاس کی پر چھائیاں سدا کے لیے نیست و نابود ہو جائیں۔"
کسی نے کہا ہے کہ ساحر کا بچپن ایک دل خراش چیخ، لڑکپن گالیاں اور بدعائیں، جوانی بغاوت اور ضد، جبکہ بڑھاپا اکیلا تھا۔ جبکہ سچ بات تو یہ ہے کہ ساحر نے خود کو کبھی بوڑھا مانا ہی نہیں۔ ان کی آرزؤں، امنگوں، شخصیت، شاعری، جوش جذبے اور خواہشات نے بھی انہیں ہمیشہ جوان رکھا۔
ساحر کے کلام میں پختگی :
ساحر کے کلام میں پختگی ان کا مسلسل اپنے اشعار پر غور و خوض کا نتیجہ تھی، جیسا مولانا الطاف حسین حالی(1837-1914) نے اپنی مشہور کتاب "مقدمہ شعر و شاعری"(1893) میں صفحہ نمبر 60 پر روما کے مشہور شاعر ورجل کے بارے میں یہ بات لکھی ہے کہ "صبح کو اپنے اشعار لکھواتا تھا اور دن بھر اُن پر غور کرتا تھا اور اُن کو چھانٹتا تھا، اور یہ بات کہا کرتا تھا کہ "ریچھنی بھی اِسی طرح اپنے بدصورت بچوں کو چاٹ چاٹ کر خوب صورت بناتی ہے۔"
عین ممکن ہے کہ یہ بات ساحر کے سامنے بھی رہی ہو کہ بار بار اپنے کلام پر غور و فکر کرتے رہنے سے کلام میں پختگی پیدا ہوتی ہے۔ کلام میں لفظوں کی ترتیب، تقدیم و تاخیر اور حذف و اضافے سے شعر کی موزونیت پر بھی فرق پڑتا ہے۔ اسی وجہ سے بقول جاوید اختر(1945) ساحر بھی مسلسل مہینوں اپنے کلام میں غور و خوض کیا کرتے تھے۔ ایسے ہی انہوں نے جب فلم "سگُن" کا گانا لکھا۔ تب بھی یہی عمل دہرایا تھا۔
تم چلی جاؤگی پرچھائیاں رہ جائیں گی
کچھ نہ کچھ حسن کی رعنائیاں رہ جائیں گی
گھل کے رہ جائے گی جھونکوں میں بدن کی خوشبو
زلف کا عکس گھٹاؤں میں رہے گا برسوں
پھول چپکے سے چرالیں گے لبوں کی سرخی
یہ جواں جسم فضاؤں میں رہے گا برسوں
الغرض "عنفوانِ شباب کا شاعر" کہہ کر اس وقت کے ناقدین نے نئے قارئین کو ساحر کے سِحر(جادو) سے بچے رہنے کی تلقین کی، لیکن بالآخر حقیقت نے خود کو منوا ہی لیا اور آج ساحر لدھیانوی صحیح معنوں میں اسم بامسمیٰ ہیں۔ ناقدین کی اس پھبتی کا جواب علی سردار جعفری(1913-2000) نے اپنے طور پر دے دیا تھا۔ لیکن اس کا ایک بہتر جواب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہمارے عہد کا نوجوان 'اے نئی نسل !' (مشمولہ "آؤ کہ کوئی خواب بنیں") سمیت ان کی جملہ شاعری میں اپنے لیے تسکین کا بہت سامان پاتا ہے۔
حواشی :
�(01) فیروز اللغات: مولوی فیروز الدین، (صفحہ نمبر 512)
(02) فیروز اللغات: مولوی فیروز الدین، (صفحہ نمبر 73)
(03) لغاتِ کشوری : مولوی تصدق حسین رضوی، (صفحہ نمبر، 552)
(04) یوٹیوب چینل بنام "Irshad Kamil" بہ عنوان "شاعر" پہلا ایپی سوڈ،
(05) سرور شفیع کا مضمون، مشمولہ، "ادب ساز، ساحر لدھیانوی نمبر"، (صفحہ نمبر 69)
(06) سرور شفیع کا مضمون، مشمولہ، "ادب ساز، ساحر لدھیانوی نمبر"، (صفحہ نمبر 74)
(07) سرور شفیع کا مضمون، مشمولہ، "ادب ساز، ساحر لدھیانوی نمبر"، (صفحہ نمبر 73)
(08) سرور شفیع کا مضمون، مشمولہ، "ادب ساز، ساحر لدھیانوی نمبر"، (صفحہ نمبر 74)
(09) بیان، انور سلطان، تحریر، محمود ایوبی، مشمولہ، "ادب ساز، ساحر لدھیانوی نمبر"، (صفحہ نمبر 78)
(10) فلم "پیاسا"، 1957، گرودت، ابرار علوی
(11) بحوالہ، سرور شفیع کا مضمون، مشمولہ، "ادب ساز، ساحر لدھیانوی نمبر"، (صفحہ نمبر 69)
(12) بحوالہ، حمید اختر، مشمولہ اطلاع ارشاد کامل دوسرا ایپی سوڈ
(13) بحوالہ، سرور شفیع کا مضمون، مشمولہ، "ادب ساز، ساحر لدھیانوی نمبر"، (صفحہ نمبر 68)، (مکمل حوالہ، ادب ساز مدیر نصرت ظہیر، جلد نمبر 04، شمارہ نمبر، 12،13،14،جولائی-ستمبر، اکتوبر-دسمبر 2009، جنوری-مارچ 2010)
(14) بحوالہ سنسد ٹی وی، گفتگو جاوید اختر، پہلا حصّہ، نشریہ، 20/ دسمبر 2016،
(15) سہ ماہی اردو ادب، مدیر اطہر فاروقی، شمارہ نمبر 257، جلد نمبر 65، جنوری-مارچ 2021، (صفحہ نمبر 24)
(16) بحوالہ، سرور شفیع کا مضمون، مشمولہ، "ادب ساز، ساحر لدھیانوی نمبر"، (صفحہ نمبر 72)
(17) بحوالہ، بیان، انور سلطان، تحریر، محمود ایوبی، مشمولہ، "ادب ساز، ساحر لدھیانوی نمبر"، (صفحہ نمبر 78)
(18) بحوالہ، اُردو زبان و ادب کی تاریخ : ثانوی اور اعلیٰ درجات کے لیے، تیار کردہ این سی ای آر ٹی، اشاعت 2013، (صفحہ نمبر 94)
(19) سرور شفیع کا مضمون، مشمولہ، "ادب ساز، ساحر لدھیانوی نمبر"، (صفحہ نمبر 75)
(20) "ترقی پسند ادب اور حب الوطنی" : ساحر لدھیانوی، مشمولہ سہ ماہی اُردو ادب، شمارہ نمبر 357، جلد نمبر 65، (صفحہ نمبر 13)
(21) بحوالہ سنسد ٹی وی، گفتگو جاوید اختر، پہلا حصّہ، نشریہ 20/دسمبر 2016،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*(مضمون نگار دہلی یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر ہیں)
تبصرہ لکھیے