بہت سے لوگوں کو اس سوال کا جواب معلوم نہیں کہ تعلیم کا اصل مقصد کیا ہے؟ اگر تعلیم کا اصل مقصدصرف ڈگری لینا، پیسے کمانا، یا پھر نوکری کرنا ہے، تو یہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ یہ سب کامیابیاں تو بغیر ڈگری کے بھی مل سکتی ہیں. تعلیم کا اصل مقصد تو اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا، بڑے خواب دیکھنا اور ناکامیوں سے خوفزدہ نہ ہونا ہے۔
ہمارے ہاں اکثر لوگ تعلیم کو بنیادی طور پر دو مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ پہلا یہ ہے کہ اس کو حاصل کر کے انسان کچھ مہارت سیکھتا ہے جس کو استعمال کر کے کوئی پیشہ اپنایا جا سکتا ہے، جبکہ دوسرا مقصد تعلیم کا یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کے ذریعے روایات، نظریات کو نئی نسل میں منتقل کیا جاسکے، اور یہی سب سے اعلٰی تعلیم ہے.
ایک بات عام طور پر کہی جاتی ہے کہ تعلیم حاصل کرو، ترقی کرو ، اور اپنے ملک کا نام روشن کرو. مگر افسوس کہ ایسی ترقی یہاں صرف امیروں اور سیاست دانوں کے بچے کر سکتے ہیں، اور یہ سلسلہ نسل در نسل سے چلتا آ رہا ہے. اس میں غلطی معاشرے کی بھی ہے کیوںکہ وہ ہمیں صرف نوکری تک محدود رکھتا ہے. ایک نوجوان کو شروع سے آخر تک یہی بات بتائی جاتی ہے کہ تمھیں پڑھ لکھ کرصرف نوکری کرنی ہے. آج کل جتنے بھی نوجوان یونیورسٹی جاتے ہیں، ان میں سے %90 کا مقصد صرف نوکری کےلیے ڈگری کا حصول ہوتا ہے. یہاں کامیاب انسان وہ ہے جس نے ڈگری لی ہو اور ساتھ میں نوکری کر رہا ہو. تعلیم بہت سے بند دروازے کھول دیتی ہے لیکن ہمارے ملک میں تو ایسا نہیں ہوا . یہاں آج بھی پڑھا لکھا طبقہ سیاست دانوں کے احکامات کے نیچے کام کرتا ہے اور وہ آزاد ہو کر بھی غلامی کی زندگی گزار رہا ہے .
پاکستان میں بنیادی طور پر تعلیم حاصل کرنے کے لئے مختلف ادارے موجود ہیں� جن میں مذہبی تعلیم سے لے کر انتہائی مہنگے انگریزی اسکول تک شامل ہیں۔ لیکن ہر دو قسم کے ادارے بنیادی طور پر وہی کام کر رہے ہیں جو اوپر بیان کیے گئے ہیں۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں سوال کرنے پر پابندی ہے، اگر کوئی سوال پوچھے تو اس کو یہی کہا جاتا ہے کہ تمھیں بہت زیادہ سوال آئے ہوئے ہیں.
معاشرہ تربیت پر بھی بہت زیادہ تو جہ دیتا ہے. زیادہ زور اس پر ہوتا ہے کہ نئی نسل بالکل ویسے سوچے، ویسے عمل کرے جیسے ان سے پچھلی نسل کرتی آئی ہے. جبکہ وقت بدل رہا ہے، نئی سائنسی ترقی نے نئی نسل کو تیز کر دیا ہے۔ تیزی سے بدلتے دور نے تعلیمی مقاصد تبدیل کرنے پر مجبور کیا ہے۔ مغرب نے کافی عرصے سے تعلیم کے مقاصد تبدیل کر دیے ہیں۔ ان کے مطابق تعلیم کا مقصد ”دماغ کی تربیت کرنا ہے تاکہ وہ سوچ سکے،سوال کر سکے، اور زندگی میں آنے والے مسائل کو حل کر سکے.“ نوم چومسکی کے مطابق ”زندگی کا سب سے بڑا مقصد تلاش کرنا، بنانا اور ماضی کے اسباق کو اپنا حصہ بناتے ہوئے اپنی تلاش جاری رکھنا ہے“. ہم ترقی کرنا اور آگے بڑھنا چاہتے ہیں، لیکن یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ ہمارا موجودہ تعلیمی نظام انگریزوں نے بنایا تھا، جس کا مقصد ایسےبے دام غلام پیدا کرنا تھا جو سوال نہ کرسکیں اور گورے کے اشاروں پر اس کا ہر کام سرانجام دیں۔ پاکستان بننے کے بعد بھی ہمارے حکمرانوں نے یہ نظام جاری رکھا ہوا ہے. جس سے ہمارے ذہن ایسے بن گۓ ہیں کہ ہم آگے چلتے ہوئے پیچھے دیکھتے رہتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم تعلیم کو صرف دو کام یعنی نوکری اور نظریات کی ترویج کے علاوہ بھی دیکھیں، اور آنے والی نسل کو نئے علوم و فنون سیکھنے پر لگائیں تاکہ ہمارے معاشرے میں امن، تحمل، معاشی ترقی، اور برداشت پیدا ہو سکے۔تعلیم لیڈر پیدا کرتی ہے نوکر نہیں. تعلیم دوسروں کو فائدہ دیتی ہے. خود کے بارے میں سوچنے کا نام تعلیم نہیں ہے. تعلیم انسان کو بہادر بناتی ہے بزدل نہیں. اگر تعلیم حاصل کرنے کے باوجود بھی ہمارے خواب چھوٹے ہیں تو پھر اس تعلیم کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ ناکامی اور کامیابی زندگی کا حصہ ہیں، اپنی پہچان الگ سے بنائیں، دنیا میں اپنا نام بنائیں، ساری زندگی ایک ہی چیز پرضائع نہ کریں. آج ناکام ہوگئے تو کل ضرور کامیاب ہوگے. ناکامی ہی کامیابی ہے. بائیس گریڈ افسر سے وہ آدمی بہتر ہے جس کے پاس 22 افراد کام کرتے ہیں کیوں کہ وہ خود کے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھی پیٹ پالتا ہے۔
تبصرہ لکھیے