کسی بھی معاشرے کی اخلاقی اقدار اس کی نمائندگی کا لازمی جزو تصور کی جاتی ہیں، اخلاقیات کی اونچ نیچ ہر جگہ پائی جاتی ہے، اسی طرح ہر جگہ پڑھے لکھے اور ان پڑھ لوگ موجود ہوتے ہیں، ان میں جو پڑھے لکھے "ان پڑھ" ہوتے ہیں وہ معاشرے کے لیے بہت خطرناک ہوتے ہیں. کسی بھی قدر کی ایک حد ہوتی ہے، اس سے تجاوز گھاٹے کا سودا کہلاتا ہے، جیسے عام فہم ہےکہ فلاں بندہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے تو غربت کی لکیر سے نیچے پھر سانس ہی چلنے کی مثال دی جا سکتی ہے اور ہمارے آس پاس ایسی کئی مثالیں موجود ہیں. اخلاقی گراوٹ کی بھی ایک لکیر ہوتی ہے، وہاں تک اس کو برداشت بھی کیا جا سکتا ہے، اور اس کا کوئی ممکنہ "علاج معالجہ" بھی کیا جا سکتا ہے مگر بد قسمتی سے ہمارے ملک میں ایک بہت بڑا طبقہ اس اخلاقی گراوٹ کی لکیر سے نیچے چلا گیا ہے، جس کی مثال پڑھیں.
چند روز پہلے ایک سفر کے دوران ہم فتح جنگ (ضلع اٹک کی تحصیل) کے ایک پٹرول پمپ پر "وقفہ نماز " کے لیے رکے. "تازہ " وضو کے لیے وضو خانے کا رخ کیا، وضو کی اس مہم میں میرے رفیق "ماسٹر طارق " صاحب تھے. استنجاء کی غرض سے بڑی مشکل سے "صاف نما " بیت الخلا تلاش کیے ، میں نے تو بیت الخلا میں اپنے کام سے کام رکھا اور جلدی نکل آیا لیکن ماسٹر طارق صاحب کہیں اور ہی الجھ گئے. ان کا کافی دیر "اندر" رہنا باعثِ تشویش ٹھہرا ، میں اس پریشانی میں کہ کہیں طبعیت خراب نہ ہو گئی ہو، اپنے "رفیق" کا پوچھنے گیا ، انھی لمحوں انتہائی پریشانی اور شکستہ دلی کے انداز میں ماسٹر صاحب "اندر" سے باہر نکلے اور اس قوم کی ایسی ایک اخلاقی پستی کی طرف میری توجہ مبذول کروائی کہ جس کو دیکھ کر کسی بھی شریف النفس انسان کا شرم سے جھک جاۓ.
اس بیت الخلا میں کسی ذہین و فطین دماغ نے ایسی تحاریر لکھ چھوڑیں کہ آپ بھول ہی جائیں کہ آپ کس کام کو وہاں گئے، میں یہ تحریر لکھتے وقت اپنے آپ کو ایسے معاشرے کا حصہ سوچ کر انتہائی شرمسار ہوں . اس بیت الخلاء میں کافی کچھ لکھا ہوا تھا جو کہ میں نے بھی ایک نظر پڑھا، کسی نے "کٹے" ہوۓ کالے مارکر کے ساتھ وہاں پر "نظریات" قلمبند کیے تھے، جس میں ایک تو کسی محترمہ کی تشہیر کے سلسلے میں لکھا گیا تھا کہ محترمہ بعوض تین ہزار روپے سکہ رائج الوقت کے ایک پوری رات عوام کی "خدمت" کرتی ہیں، ان سے خدمت کروانے کے لیے دیے گئے نمبر پر کال کریں، یقیناً وہ فحش نگار جس نے یہ تشہیر کی وہ ان کے بھائی ہوں گے اور شاید رابطہ نمبر بھی اپنا دیا ہوگا. اس بیت الخلاء میں مزید بھی کئی ایک "اقوال زریں" لکھے گئے تھے جو معذرت کے ساتھ میں یہاں اس تحریر میں لکھنے سے قاصر ہوں .
ہمارا معاشرہ اجتماعی طور پر اس اس جیسی کئی ایک فضولیات میں الجھا ہوا ہے. اس بیت الخلاء میں جو کچھ لکھا گیا تھا یہ تو کسی بڑے دماغ کا کام لگ رہا تھا. ماسٹر طارق صاحب بتا رہے تھے کہ سکول کے بچے بھی واش رومز کی دیواروں پر کئی ایک پیغامات لکھ جاتے ہیں. اب پرائمری سکول کے بچے کی عمر کتنی ہوگی، اس کو یہ سب کس نے بتایا ہوگا،تو ان کو بالضرور یہ "ورثے" میں ہی ملا ہوگا .
یقیناً کسی نہ کسی عوامی بیت الخلاء میں ایسی کئی جملے آپ کی نظروں سے بھی گزرے ہوں گے، جہاں آپ کا سر شرم سے جھک گیا ہوگا . تو کیا ہم واقع اخلاقی گراوٹ کی حد سے بھی نیچے نہیں چلے گئے؟ کیا ہم قوم کہلانے کے لائق ہیں؟ یقیناً نہیں، ہم قوم نہیں ایک ہجوم کی مانند ہیں اسی لیے ہم بے مہار ریوڑ کی مانند میں بس ہانکے جا رہے ہیں، اور ہمیں ہانکنے والے گڈریے ہماری اوقات سے بڑی اچھی طرح واقف ہیں. ایسی کئی ایک فضولیات ہمارے معاشروں میں پنپ رہی ہیں ، تو یہ ہمارا کونسا سا چہرہ دنیا کے سامنے رکھ رہی ہیں؟ کوئی بھی مہذب ملک قوم ہمارے ساتھ نہیں چلے گئی،لہذا خدارا ان فضولیات کے تدارک میں اپنا کردار ادا کریں
تبصرہ لکھیے