ہوم << شان یکتائی وہی اول وہی آخر (حصہ دوئم) - آصف رندھاوا

شان یکتائی وہی اول وہی آخر (حصہ دوئم) - آصف رندھاوا

عقیدۂ توحید کی ضد شرک ہے، جو اسلامی تعلیمات میں سب سے بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے۔ قرآن و حدیث میں شرک کی سخت مذمت کی گئی ہے، اور اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا کہ وہ شرک کو معاف نہیں کرے گا اگر انسان بغیر توبہ کے دنیا سے چلا جائے۔

"بے شک اللہ اس کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے، اور وہ اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے۔"

اسلامی عقیدے میں شرک کو بنیادی طور پر تین اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے:

شرک فی الربوبیہ (اللہ کی ربوبیت میں شریک کرنا)

یہ وہ شرک ہے جس میں کسی اور کو اللہ تعالیٰ کے اختیارات میں شریک مانا جائے، جیسے:

یہ عقیدہ رکھنا کہ کوئی اور بھی کائنات کا خالق اور مدبر ہو سکتا ہے۔

کسی اور کو تقدیر بنانے والا، بارش برسانے والا یا زندگی و موت کا مالک سمجھنا۔

کسی پیر، ولی یا بزرگ کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ ازخود مدد کر سکتے ہیں یا کسی کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔

کسی اور کو رزق کا حقیقی مالک ماننا۔

قدیم مشرکین یہ مانتے تھے کہ اللہ ہی خالق ہے، مگر ساتھ ہی وہ مختلف بتوں کو بھی کائناتی معاملات میں شریک سمجھتے تھے۔

موجودہ دور میں بعض لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ کچھ روحانی شخصیات (اولیاء، پیغمبر، پیر) اللہ کے اذن کے بغیر بھی مسائل حل کر سکتے ہیں۔

شرک فی الألوہیہ (عبادت میں شرک)

یہ وہ شرک ہے جس میں اللہ کے سوا کسی اور کو عبادت میں شریک کیا جائے، جیسے:

اللہ کے سوا کسی اور کو سجدہ کرنا یا رکوع کرنا۔

کسی اور کے نام پر نذر و نیاز دینا۔

غیر اللہ سے مدد طلب کرنا (جبکہ وہ مدد کرنے پر قادر نہ ہو)۔

کسی قبر، درخت، پتھر یا نجومی سے امیدیں وابستہ کرنا۔

ہندو مت میں مختلف دیوتاؤں کی عبادت۔

بعض مسلمانوں کا قبروں پر جا کر دعا کرنا اور مردوں سے مدد مانگنا۔

شرک فی الاسماء والصفات (اللہ کے ناموں اور صفات میں شرک)

یہ وہ شرک ہے جس میں اللہ کی کسی خاص صفت یا نام کو کسی اور کے لیے استعمال کیا جائے یا کسی اور کو اللہ جیسی صفات دی جائیں، جیسے:

کسی انسان یا مخلوق کو "عالم الغیب" یا "قادرِ مطلق" کہنا۔

یہ عقیدہ رکھنا کہ کوئی شخص اللہ کی طرح ہر جگہ موجود ہے۔

کسی کو "رحمت کا مالک" یا "مشکل کشا" ماننا۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو عیسائیوں کا "اللہ کا بیٹا" کہنا۔

بعض گروہوں کا یہ کہنا کہ ان کے پیشوا غیب کا علم رکھتے ہیں۔
بعض فرقوں کا یہ کہنا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ مشکل کشا ہیں

شرک کی مزید دو قسمیں بھی ہیں ذذ

شرک کو مزید دو بنیادی اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

1. شرک جلی (واضح شرک)

یہ وہ شرک ہے جو کھلے عام کیا جائے اور کسی بھی موحد کے لیے واضح ہو، جیسے:

اللہ کے ساتھ کسی اور کی عبادت کرنا۔

بت پرستی، قبر پرستی، یا کسی نبی یا ولی کو اللہ کا ہم مرتبہ سمجھنا۔

غیر اللہ کو سجدہ کرنا۔

2. شرک خفی (پوشیدہ شرک)

یہ وہ شرک ہے جو بظاہر نظر نہیں آتا مگر عقیدے یا عمل میں پایا جاتا ہے، جیسے:

دکھاوے کے لیے عبادت کرنا (ریاکاری)۔

یہ عقیدہ رکھنا کہ کسی ستارے، پتھر، یا تعویذ میں نفع و نقصان کی طاقت ہے۔

اپنے اعمال پر غرور کرنا کہ وہی نجات کے ضامن ہیں۔

> نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"تمہارے لیے میں سب سے زیادہ جس چیز سے ڈرتا ہوں، وہ شرکِ خفی ہے۔"
(مسند احمد، حدیث 23630)

شرک کے دنیاوی اور اخروی نقصانات بہت شدید ہیں:

اللہ کی رحمت سے محرومی

دعا کی قبولیت میں رکاوٹ

دل کا بے سکون ہونا

آخرت میں جہنم کی سزا

> اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرے گا، اللہ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔"
(المائدہ: 72)

عقیدۂ توحید نہ صرف اسلامی تعلیمات کی بنیاد ہے بلکہ انسان کی زندگی میں بے شمار برکتوں اور فضائل کا باعث بھی بنتا ہے۔ توحید کے فوائد دنیاوی اور اخروی دونوں جہتوں میں ظاہر ہوتے ہیں

توحید کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ انسان کو داخلی سکون اور اطمینانِ قلب عطا کرتی ہے۔

جو شخص صرف اللہ پر بھروسہ کرتا ہے، وہ کسی اور کے سامنے نہیں جھکتا، اور اس کا دل ہر طرح کے خوف و پریشانی سے آزاد ہو جاتا ہے۔

قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

> "وہی ہے جس نے ایمان والوں کے دلوں میں سکون نازل فرمایا تاکہ وہ اپنے ایمان میں اور اضافہ کریں۔"
(الفتح: 4)

توحید پر مضبوط یقین رکھنے والا شخص کسی مخلوق یا جادو، جنات، یا کسی اور طاقت سے نہیں ڈرتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ نفع و نقصان کا اختیار صرف اللہ کے پاس ہے۔

جو لوگ شرک میں مبتلا ہوتے ہیں، وہ مختلف خداؤں، پیروں فقیروں، اور بدشگونیوں سے ڈرتے رہتے ہیں، جبکہ موحد شخص ہمیشہ اللہ کے حکم پر راضی رہتا ہے۔

توحید کی برکت سے انسان کی دعائیں زیادہ قبول ہوتی ہیں، کیونکہ اللہ صرف خالص عبادت کو پسند کرتا ہے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

"جب تم دعا کرو تو صرف اللہ سے مانگو اور جب مدد طلب کرو تو صرف اللہ سے مدد مانگو۔"
(ترمذی: 2516)

اللہ تعالیٰ توحید کے حامل لوگوں کو دنیا میں عزت اور برکت عطا کرتے ہیں۔

نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرامؓ کی زندگیاں اس کی بہترین مثال ہیں کہ جب انہوں نے خالص توحید اپنائی، تو اللہ نے انہیں عروج اور کامیابی عطا کی۔

عقیدۂ توحید کے سب سے بڑے فضائل میں سے ایک جنت کی ضمانت ہے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

> "جس شخص کا خاتمہ اس حال میں ہو کہ وہ صرف اللہ کو الٰہ مانتا ہو، وہ جنت میں داخل ہوگا۔"
(مسلم: 93)

نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ وہ سب سے زیادہ شفاعت ان لوگوں کے لیے کریں گے جن کے دل میں خالص توحید ہوگی۔

جو لوگ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے، ان کے لیے اللہ کے عرش کے سائے میں جگہ اور حساب میں آسانی ہوگی۔

توحید کی برکت سے اللہ تعالیٰ سب سے بڑے گناہ بھی معاف فرما سکتے ہیں، سوائے شرک کے۔

حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

> "اے ابن آدم! اگر تو زمین بھر گناہ لے کر میرے پاس آئے، مگر تو نے میرے ساتھ شرک نہ کیا ہو، تو میں تجھے زمین بھر مغفرت دے کر ملوں گا۔"
(ترمذی: 3540)

جو لوگ خالص توحید پر زندگی گزارتے ہیں، وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں نہیں جائیں گے۔

حدیث میں ہے کہ سب سے بڑا نفع بخش کلمہ لا الہ الا اللہ ہے، اور یہ کلمہ قیامت کے دن ترازو میں سب سے بھاری ہوگا۔

توحید کے سماجی اور اخلاقی فوائد بھی بہت زیادہ ہیں جن میں سے چند ایک کا یہاں ذکر کر رھے ہیں

توحید کی بنیاد پر تمام انسان برابر ہوتے ہیں، کیونکہ اس میں ذات پات، رنگ، نسل، قومیت کی تفریق نہیں ہوتی۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

> "بے شک تم میں سب سے زیادہ معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔"
(الحجرات: 13)

توحید انسان کو ہر طرح کی غلامی سے آزاد کرتی ہے، کیونکہ وہ صرف اللہ کو اپنا حاکم و مالک مانتا ہے۔

وہ کسی بھی ظالم کے سامنے نہیں جھکتا، چاہے وہ بادشاہ ہو یا کوئی اور طاقتور شخص۔

جب ایک معاشرہ اللہ کے احکامات پر عمل کرتا ہے اور شرک سے بچتا ہے، تو وہ عدل و انصاف پر قائم ہوتا ہے، اور اس میں ظلم و بدامنی کم ہو جاتی ہے۔

عقیدۂ توحید پر ہمیشہ سے مختلف طبقات کی طرف سے اعتراضات کیے جاتے رہے ہیں، خاص طور پر دہریہ (ملحدین)، مشرکین، اور جدید سیکولر فکر کے حامل لوگ اس پر سوالات اٹھاتے ہیں۔ یہاں ہم ان اعتراضات کا تفصیلی جائزہ لے کر قرآن و حدیث اور عقلی دلائل کی روشنی میں جوابات پیش کریں گے۔

دہریت (الحاد) اور توحید پر اعتراضات

اعتراض: خدا کا وجود کیسے ثابت ہوتا ہے؟

خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے کائنات کی تخلیق، نظم و ضبط، اور انسانی فطرت خود ایک بہت بڑی دلیل ہے۔

قرآن کہتا ہے:

> "کیا وہ بغیر کسی خالق کے پیدا ہوگئے ہیں، یا وہ خود ہی (اپنے) خالق ہیں؟"
(الطور: 35)

جدید سائنس بھی Big Bang Theory کو مانتی ہے، جو یہ بتاتی ہے کہ کائنات کسی نہ کسی سبب سے بنی، اور وہ سبب اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے۔

ہر تخلیق کا ایک خالق ہوتا ہے، اور اتنی منظم کائنات کا خالق ایک علیم و حکیم ہستی (اللہ) ہی ہو سکتا ہے۔

(2) اعتراض: خدا نظر کیوں نہیں آتا؟

اللہ تعالیٰ نے دنیا کو آزمائش کی جگہ بنایا ہے، اس لیے وہ اپنی ذات کو ظاہر نہیں کرتا۔

سورۃ الانعام میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

> "نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں، اور وہ نگاہوں کا ادراک کرتا ہے۔"
(الانعام: 103)

بہت سی چیزیں نظر نہیں آتیں، لیکن ان کا وجود ہے، جیسے ہوا، جذبات، کششِ ثقل وغیرہ۔

اگر اللہ دنیا میں ظاہری طور پر موجود ہوتا، تو پھر امتحان کیسا؟ تب سب کو زبردستی ماننا پڑتا۔

(3) اعتراض: اگر اللہ عادل ہے تو دنیا میں ظلم کیوں ہوتا ہے؟

دنیا ایک آزمائش گاہ ہے، جہاں اللہ انسان کو آزادی دے کر آزماتا ہے۔

ہر ظلم اور برائی کا حساب قیامت کے دن لیا جائے گا، اور ظالم اپنے ظلم کا انجام دیکھے گا۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

"اور مت سمجھو کہ اللہ ظالموں کے اعمال سے غافل ہے۔ وہ تو انہیں اس دن تک مہلت دے رہا ہے جس دن آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔"
(ابراہیم: 42)

اگر دنیا میں فوراً انصاف ہوجائے تو امتحان کا مقصد ختم ہو جائے گا۔

2. مشرکین کے دلائل اور ان کا رد

(1) اعتراض: ہم اللہ کے قریب ہونے کے لیے ولیوں اور بزرگوں کو وسیلہ بناتے ہیں، یہ شرک کیسے ہے؟

اللہ نے واضح فرمایا کہ عبادت میں کسی کو شریک کرنا ناقابل معافی جرم ہے:

"بے شک اللہ اسے معاف نہیں کرتا جو اس کے ساتھ شرک کرے، اور اس کے علاوہ جسے چاہے معاف کر دیتا ہے۔"
(النساء: 48)

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

> "جب تم دعا کرو، تو صرف اللہ سے مانگو۔"
(ترمذی: 2516)

وسیلے کا مطلب اگر نیک اعمال اور اللہ کے اسمائے حسنیٰ کے ذریعے دعا کرنا ہو تو جائز ہے، لیکن ولیوں، قبروں یا کسی اور ہستی سے دعا مانگنا واضح شرک ہے۔

اعتراض: اگر اللہ ہر جگہ موجود ہے، تو ہم اسے بتوں میں کیوں نہیں دیکھ سکتے؟

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

> "اس کی مثل کوئی چیز نہیں ہے، اور وہ سننے والا، دیکھنے والا ہے۔"
(الشوریٰ: 11)

اللہ کو کسی مجسمے یا تصویر میں محدود کرنا اس کی شان کے خلاف ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ جو قومیں بت پرستی میں مبتلا ہوئیں، وہ گمراہی اور پستی میں چلی گئیں۔

---

3. جدید فکری چیلنجز اور توحید

(اعتراض: ہر مذہب کا خدا مختلف ہے، پھر کون صحیح ہے؟

تمام انبیاء نے ہمیشہ ایک ہی خدا کی عبادت کی تعلیم دی، لیکن لوگوں نے تحریف کر کے اپنے خداؤں کو بدل لیا۔

قرآن میں ہے:

> "یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں، پس میری عبادت کرو۔"
(الانبیاء: 92)

صرف اسلام کا عقیدۂ توحید خالص اور تحریف سے پاک ہے، جبکہ دوسرے مذاہب میں شرک اور تحریف داخل ہو چکی ہے۔

اعتراض: کیا عقیدۂ توحید جدید سائنسی نظریات سے متصادم ہے؟

جدید سائنس صرف مادی دنیا پر تحقیق کرتی ہے، جبکہ عقیدۂ توحید روحانی اور مابعدالطبیعاتی (Metaphysical) حقیقتوں سے متعلق ہے۔

سائنسی اصول خود اللہ کی تخلیق کے تابع ہیں، اور سائنس کا کوئی نظریہ اللہ کے وجود کو رد نہیں کر سکتا۔

مشہور سائنسدان آئن سٹائن بھی کہتا تھا کہ کائنات کا ایک خالق ہونا ضروری ہے

عقیدۂ توحید پر جو بھی اعتراضات کیے جاتے ہیں، وہ یا تو کم علمی، فلسفیانہ مغالطوں، یا غلط فہمیوں کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ اسلام میں توحید کی دلیلیں اتنی مضبوط ہیں کہ نہ صرف قرآن و حدیث بلکہ عقل، سائنس اور تاریخ بھی اس کی گواہ ہیں۔