دنیا میں ہر انسان ہر میدان میں اپنے آپ کو سرخرو دیکھنا چاہتا ہے وہ یہ چاہتا ہےکہ میں شاندار زندگی گزار سکوں معاشرہ میں چار سومیری اچھائی اور کامیابی کے تذکرے ہوں، میرا نام ہمیشہ اونچا رہے چنانچہ ان مقاصد کی حصول کے لیے وہ شب وروز محنت کرتا ہےاور ہر وہ طریقہ اپناتا ہے جس سے اس کی آرزو پوری ہوسکے۔
کامیابی کے لیے دنیا کے انسانوں نے مختلف زاویے بنارکھے ہیں کسی کے ذہن میں زیادہ پیسہ کمانا کامیابی ہوتی ہے کسی کے ہاں بڑا عہدہ حاصل ہونا کامیابی کہلاتی ہے زیادہ اولاد ہونا بھی کسی کے ہاں کامیابی کی علامت سمجھی جاتی ہے بعض کے ہاں زمین کے زیادہ حصہ کامالک بننا کامیابی تصور کی جاتی ہے اور ہر ایک اپنے زاویہ نظر کے مطابق انہی چیزوں کے حصول میں لگارہتا ہے مقصد کے حصول کے لیےہر جائز وناجائز طریقہ اختیار کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا بس ایک ہی دھن اس سےلگی رہتی ہےکہ میں مطلوبہ ہدف تک پہنچ سکو۔ روزمرہ کی واقعات اس بات پر شاہد ہیں کہ بعض مرتبہ انسان کو یہ ساری چیزیں مل بھی جاتی ہیں جن میں اسے کامیابی نظرآرہی ہوتی ہے مگر یہی کامیابی کی چیزیں ناکامی اور ذلت کاسبب بن جاتی ہیں کیونکہ کامیابی کا جو تصور حضورنبی کریم ﷺ نے پیش کیا ہے کامرانی اسی کی پیروی ہی میں ملی گی اس سے صرفِ نظر کرکے کامیابی کا تصور بھی ممکن نہیں ۔
حضورﷺ نے انتہائی آسان اور مختصر الفاظ میں کامیابی کا تصور سمجھا دیاہے اسی پر جو بھی عمل پیرا ہوگا کامیابی اُس مقدر ہوگی اور وہ بھی دونوں جہانوں کی۔ان بنیادی دواصولوں میں سے پہلا اصول یہ کہ "(کامل) مسلمان وہی ہے جس کے زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں" یعنی جو آدمی قصداً کسی دوسرے مسلمان کو تکلیف دینا چھوڑ دیتا ہے اللہ اس کو ایمان کا کمال نصیب کردیتا ہے اور جس کسی کو کامل ایمان نصیب ہوجاتا ہےکامیاب انسان صرف اُس کو ہی کہا جاسکتا ہے اور دوسری اصولی بات جو حضورﷺ نے بیان فرمائی ہے وہ یہ ہےکہ "لوگوں میں بہترین انسان وہ ہے جو دوسرے لوگوں کیلئے زیادہ نفع مند ہو "
"یہاں پر انسانوں میں سب سے بہترین انسان کا درجہ حضورﷺ نے انہی لوگوں کو عطافرمایا جو دوسروں کے لیے جیتے ہیں۔حضورﷺ فرماتے ہیں" کسی شخص کی ضرورت کے لیے اس کے ساتھ چلنا مجھے مسجد نبویﷺ میں ایک ماہ کےاعتکاف سے زیادہ پسند ہے"ـ علامہ ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں کہ جو انسان چاہے کہ میں ایک عظیم انسان بن جاؤں تو وہ روزانہ مخلوق کی بھلائی کے لیے سوچا کرے خود بخود عظیم انسان بن جائیگا"
میرے والد مکرم مولانا گل رئیس نقشبندی فرمایا کرتے ہیں کہ اپنے لیے جینے والے تو بھت ہیں کوئی ایسا بھی تو ہو جودوسروں کے لیے جیئے دوسروں کی راحت کا سوچے اور دوسروں کی بچوں کے بہترین مستقبل کے لیے فکر مندہو حقیقت میں ایسے لوگ زمین پر آسمان کے تاروں کی مانند ہوتے ہیں اور ایسے لوگوں کو ہی کامیاب کہا جاتا ہے جن کو دیکھ کر لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں اور دلوں میں امیدوں کی شمعیں روشن ہوجائیں "
بہرحال کامیابی کا یہ راز انتہائی آسان ہے اور ہر کسی کے لیے قابل عمل بھی ہے مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سے اپنایا جائے تاکہ کامیابی حاصل ہوسکے تو کیوں نہ آج ہی ہم ارادہ کریں کہ ہم کسی کو قصد اورارادے سے تکلیف نہیں پہنچائیں گے اور ہمیشہ لوگوں کی بھلائی کا سوچیں گے کیونکہ ہم نے عظیم انسان بننا ہےاور ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے اچھے تذکرےسے محفلیں آباد رہیں۔
تبصرہ لکھیے