ہوم << ماہ مبارک رمضان ؛ تعلیم و تربیت کا مہینہ - خادم حسین

ماہ مبارک رمضان ؛ تعلیم و تربیت کا مہینہ - خادم حسین

نبی مکرم ﷺ جب ماہِ رمضان المبارک کا چاند دیکھتے تو قبلہ رخ ہو کر اپنے ہاتھ اٹھاتے اور فرماتے:
"اے اللہ! اس چاند کو ہمارے لیے امن، ایمان، سلامتی، اسلام، مکمل عافیت، کشادہ رزق اور بیماریوں کو دور کرنے کا سبب بنا۔ اے اللہ! ہمیں اس مہینے کے روزے رکھنے، قیام کرنے اور قرآن کی تلاوت کرنے کی توفیق عطا فرما۔ اے اللہ! اس (مہینے) کو ہمارے لیے سلامت رکھ، اور اسے ہم سے قبول فرما، اور ہمیں اس میں سلامتی عطا فرما۔"

ادیان عالم میں انسانوں کے سدھار اور بہتر طرز زندگی کے حصول کے لیے مختلف طریقے اور اعمال رائج ہیں، جن کو اپنا کر انسان سعادت مند ہوتا ہے، معاشرے کے لوگوں کے لیے سود مند ثابت ہوتا ہے ،اور ان اعمال و اذکار کے ذریعے اپنی فوز و فلاح کو یقینی بناتا ہے. اسلام میں بھی تزکیہ نفس، ایثار و قربانی کے جذبے اور درست تعلیم و تربیت کے لیے مختلف عبادات اور اعمال بجا لائے جاتے ہیں.ان میں نماز روزہ حج زکوۃ جیسی عبادات شامل ہیں. نہ صرف ان کا دنیاوی پہلو اہم ہے، بلکہ ان جملہ عبادات کا اخروی پہلو بھی اہم ہے کہ جن کی بجآوری سے حیات انسانی کامیابی اور کامرانی سے ہمکنار ہوجاتی ہے ۔ مذکورہ اعمال کی انجام دہی دل و جان سے کی جائے اور نیت خالص کی جائے تو پورا معاشرہ امنیت اور پرامن فضا کی طرف قدم بڑھائے گا.

رمضان ایک ایسا مہینہ ہے جس میں انسان تزکیہ نفس کرتا ہے، اپنا محاسبہ کرتا ہے اور اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے، یہ ماہ یہی جد و جہد سکھاتا ہے. اس ماہ میں تزکیہ نفس اور تعلیم و تربیت کے متعدد پہلو ہیں، جن کو ملحوظ خاطر رکھ کر ایک بہتر مسلمان اور ایک بہتر انسان بندے کا سفر طے کرتا ہے، یوں تو اس میں مادی پہلو بھی ہیں جن کی بجاآوری لازمی ہے، سر فہرست مقررہ وقت سے ایک معین کردہ وقت تک کھانے پینے اور اس جیسی دوسری کئی مادی اور معنوی چیزوں سے پرہیز کر کے قرب الہی حاصل کرتا ہے.یہ وہ سعادت ہے جو ماہ مبارک رمضان فراہم کرتا ہے۔ سعادت و کامرانی کو درک کرنے والوں اور نیکوکار افراد کے لیے یہ ایک بڑی نعمت ہے. فرصت کے چند محدود لمحے جو گزر جائیں گے مگر جو اس ماہ کی حرمت اور برکات سے کماحقہ آگاہ ہوگا اور اس ماہ کی برکتیں سمیٹنے کی تگ و دو میں رہے گا، وہی انعام و کرام سے نوازا جائے گا۔

اس پر برکت ماہ کی ہر ہر گھڑی عبادت و سعادت مندی سے عبارت ہے۔ اس میں سونا عبادت ہے، سانس لینا تسبیح کے ثواب کا موجب بنتا ہے. یوں دیکھا جائے تو یہ مہینہ اپنے اندر انمول برکات و ثمرات ِ اخروی لیے ہوئے ہے.اس ماہ میں اللہ میزبان ہے، رب العزت نے کیسا دسترخوان اس ماہ میں بچھایا ہے جس میں ہر طرف رحمتیں اور برکتیں ہیں ، بندوں کے لیے توبہ کا در کھلا ہے اور شیطان پابند سلاسل کیا جاتا ہے، تاکہ بندہ اللہ سے لو لگائے، اپنے کیے پہ پشیمان ہو اور رذائل و زندقہ سے باہر نکل سکے. اللہ نے ان سعادتوں کے حصول کے لیے رمضان میں روزے اور عبادات کو اہم قرار دیا تاکہ بندے سعادت مندی سے سرفراز ہو سکیں اور زیادہ سے زیادہ تقرب الہی اور اخروتی نعمات کے حقدار قرار پائیں.

اس ماہ کا ایک بڑا سبب قرآن کریم سے انس اور زندگی میں تقوی اور پرہیزگاری اختیار کرنا ہے .قرآنی آیت کا مفہوم کچھ اس طرح سے ہے کہ تم روز رکھو تاکہ تم پرہیزگار بن سکو، یہی کامل فلسفہ روزہ ہے، یعنی بندہ حقیقی طور پہ عبد الہی بن جائے، پس اس آیت کے مفہوم نے بتلا دیا کہ اس مہینے کا ہدف کیا ہے اور کیوں روزے واجب کیے اللہ نے۔ اس ماہ کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اس میں نزول قرآن ہوا، اس میں شب ہائے قدر کی گراں قدر ساعتیں موجود ہیں، یوں یہ بہار کا بھی مہینہ کہلاتا ہے جس میں تزکیہ نفس اور قرب الہی مطلوب ہے. اس ماہ میں قرآن سے آشنائی اور انس و محبت بھی لازمی پہلو ہے جس سے صرف نظر کرنا ممکن نہیں ہے ۔ اس میں تلاوت قران کو نہایت اہمیت دی گئی ہے، ایک آیت کی تلاوت کو ختم قران کے مساوی قرار دیا گیا، اس سے اس ماہ کی برکات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس قدر اہم اور متبرک مہینہ ہے۔ رمضان میں جہاں تلاوت قرآن سے قرآنی سے انس و محبت اور قلبی رشتہ میں اضافہ ہوتا ہے وہی بھوکے اور پیاسے رہنے سے ایثار و قربانی کا جذبہ بھی موجزن ہوتا ہے ۔ بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ بے یار ومددگار اور غریب مفلس کس قدر مشکلات سہتے ہیں؟ اس طرح اس ماہ سے افرادی تو انفرادی ان لمحات سے اجتماعی فیوض و برکات بھی نمودار ہوتی ہے۔

اس ماہ میں انسان ان مادی لذتوں سے بھی ہاتھ کھینچ لیتا ہے جو عام زندگی میں حلال اور پاک و طیب شمار کی جاتی ہیں، یعنی اس ماہ میں ہمیں اللہ رب العزت ایسا بنانا چاہتا ہے، جس سے ہم ان نعمتوں سے بھی اپنے آپ کو دور رکھیں، جو کہ حلال ہیں، مقصود ہر لمحے اللہ کے احکامات کے تابع بنانا ہے، چاہے ہر شے دستیاب ہو، ہر طرح کی چھوٹ اور فرصت ملے مگر اللہ کی خاطر دور رہنا ہے، اس طرح سے جو ناجائز اور ممنوع چیزیں اور اعمال ہیں ان سے اس تربیت کے نتیجے میں کس قدر کراہت اور دوری ممکن ہے، اس کا اندازہ مشکل نہیں، غرض اس تربیتی دورانیہ کے ذریعے اللہ ہمیں ہر طرح کے مشکل اور کٹھن مرحلوں کے لیے تیار کرنا چاہتا ہے۔ اس طرح یہ ماہ مسلمانوں کے لیے کسی نعمت عظمی سے کم نہیں۔ اس کے ہر ہر لمحے میں قرب الہی کی توفیق طلب کرنی چاہیے تاکہ اس ماہ کے پورے فوائد کا حصول یقینی ہو ۔

رمضان کا مہینہ ہماری معاشرتی زندگی میں نہایت اہم اور گراں قدر اقدار اور رویے لانے کا موجب بنتا ہے،جب ہم اس کے تقاضے پورے کریں ۔ اللہ نے اس ماہ کو فقط بھوک پیاس سے پرہیز کرنے تک نہیں رکھا ہے، بلکہ یہ اس سے بڑا مقصد ایک ایسی جاودانی اور معصیت سے پاک صاف والی حیات کی شاہراہ پہ گامزن کرنا مطلوب ہے، جس سے ایک مسلمان واقعی عبد بن جائے، اس کی ہر ادا اور رضا رب کی رضا اور خوشنودی پہ منتج ہوتی ہو، اور کوئی بھی خواہش یا عمل ایسا نہ ہو جو مرضی پرودگار کے خلاف ہو، گویا یہ مہینہ سراپا خیر و عافیت اور دائمی بقا کا سبب بن سکتا ہے. اگر اس کے رموز سمجھے جائیں اور دل و جان سے اللہ کے فرامین کو مانیں، نیز اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ توبہ اور استغفار کی جائے۔ جتنا ممکن ہو اس ماہ میں نیکیاں بجا لانے میں سبقت حاصل کی جائے۔ جہاں کہیں ضرورت مند ہو بھوک و پیاس سے متاثر لوگ ملیں، یا ان تک پہنچنے کا سبب فراہم ہو تو بھر پور ان کی مدد اور تعاون کیا جائے. یہی اس ماہ کا تقاضا ہے اور اپنی ابدی سعادت کےلیے زاد راہ کہ جو ہر ذی بشر کے لیے چاہیے. جب وہ مرے گا تو یہی کچھ اعمال و افعال جو راہ خدا میں انجام پائے کام آئیں گے ۔