مرفی Murphy نے بیان کیا ہے کہ بھرپور تیاری اور پلاننگ کے بعد عرب بغاوت کا آغاز ۱۰ جون 1916ء کو ہوا ۔ جب حسین بن علی کی فوج نے مکہ کے ترک گریژن پر حملہ کر دیا ۔ جسے تاریخ میں جنگ مکہ Battle of Mecca کہا جاتا ہے۔ ترک ابھی تک شریف مکہ کی غداری سے بے خبر تھے ۔
یہ حملہ اتنا اچانک تھا ۔ کہ انہیں یہ سمجھنے میں دیر لگی کہ یہ حملہ شریف مکہ کی جانب سے کیا گیا ہے ۔ ترک گریژن تین قلعوں پر مشتمل تھا جو مکہ کی وادی سے اوپر پہاڑی پر واقع تھے ۔ ترکوں کی توپوں کی جوابی فائرنگ سے حرم کعبہ میں تباہی ہوئی اور غلاف کو آگ لگ گئی۔ جس کاخمیازہ ترکوں کو بعد میں ساری بغاوت کے دوران کئی سال تک پروپیگنڈے کی صورت میں بھگتنا پڑا۔شریف کعبہ کے آدمیوں نے ترکوں کے قلعوں کا محاصرہ کر لیا، دو قلعے تو فتح کر لیے گئے لیکن وہ تیسرے قلعے کو فتح کرنے میں ناکام رہے، جس پر مصر اور سوڈان میں برطانوی جرنیل سر ریجینالڈ وینگیٹ نے جدہ کے راستے سوڈان سے برطانوی آرٹلری بھیجی، جن کی مدد سے بالآخر تین ہفتوں کی شدید جنگ کے بعد چار جولائی 1916ء کو حسین بن علی نے مکہ کا کنٹرول حاصل کر لیا۔
جنگ مکہ کی فتح عرب مقبوضات میں سلطنت عثمانیہ کے اختتام کی شروعات اور ہاشمی خلافت کے قیام کی ابتداء تھی ۔ 10 جون کو ہی شہزادہ عبداللّہ بن حسین نے طائف پر حملہ کر دیا جہاں ترک گورنر حجاز غالب پاشا موجود تھا ۔ طائف کا قلعہ بھی برطانوی آرٹلری کی مدد سے ستمبر 1916ء کو فتح ہوا۔ دس جون کے دن ہی انگریزوں اور فرآنسیسیوں کی مشترکہ فوج نے جدہ اور بحیرہ قلزم Red Sea میں موجود ترکوں کی بحری دستے پر حملہ کردیا یوں ستمبر تک بحیرہ قلزم کا سارا ساحلی علاقہ شریف مکہ کے قبضے میں آ چکا تھا ۔جے ولسن Wilson نے اپنی کتاب Lawrence of Arabia: The authorised biography of T. E. Lawrence میں لکھا ہے کہ " کرنل مکموہن کی ہدایت پر عرب بیورو قاہرہ میں تعینات لیفٹیننٹ کرنل تھامس ایڈورڈ لارنس اکتوبر 2016 ء کو ایک برطانوی فارن آفیسر رونلڈ سٹارز کے ساتھ مکہ پہنچا ، جس نے اس بغاوت کو عملی جامہ پہنانے میں کلیدی کردار اداکیا۔"
لارنس اس سے پہلے بصرہ میں برطانوی جاسوس کی حیثیت سے اپنی خدمات ادا کر چکا تھا اور اس نے بصرہ پہنچ کر مذہب کا سہارا لیا تھا اور بصرہ کی ایک مسجد میں مسلمان ہونے کا اعلان کیا اور عربی لباس پہن کر عرب صحرا نشینوں میں گھل مل گیا۔ وہ عربی زبان کسی اہل عرب کی طرح روانی سے بولتا تھا ۔ اور اس نے اپنی چرب زبانی اور مکارانہ چالوں سے بہت جلد شریف مکہ حسین بن علی ہاشمی کو شیشے میں اتار لیا۔ پاسبان حرم کو قابو میں کرنے کے بعد لارنس نے اپنی پوری توجہ حسین بن علی کے بیٹوں عبد اللہ، علی، فیصل اور زید پر مرکوز کی۔ شریف مکہ کے چاروں بیٹوں میں اسے فیصل اپنے مقصد کے لئے موزوں ترین لگا چنانچہ اس نے خاص طور پر فیصل سے تعلقات استوار کئے ۔
لارنس نے عربوں کے قبائیلی لشکر کی فوجی تشکیل اور تربیت میں سب سے اہم کردار ادا کیا ۔ ترکوں کے خلاف ہونے والی گوریلا جنگ کا خالق بھی وہی تھا ۔ اس نے ترکوں کی بچھائی حجاز ریلوے ، اسکی ریلوے لائن اور پلوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا تاکہ ترکوں کی سپلائی لائن کو تباہ کیا جاسکے ۔ یہ حملے اتنے موثر تھے کہ ترکوں کی سپلائی لائن بری طرح متاثر ہوئی۔ اور چند ہی مہینوں میں دمشق سے مدینہ تک بچھائی گئی حجاز ریلوے جو انیسویں صدی میں انجنئیرنگ کا شاندار ترین اور دنیا کا سب سے بڑا منصوبہ تھا ۔ پوری طرح تباہی کی نذر ہوگیا جس کے کھنڈرات آج بھی عرب کے طول عرض میں جگہ جگہ بھرے نظر آتے ہیں .
اس نے فیصل کے ساتھ مل کر پورے نجد اور عراق کے صحرا کے دورے کئے اور وہاں رہنے والے بدوؤں کو بغاوت کے لئے منظم کیا جہاں مشکل پیش آئی اس مقصد کے لئے پیسے کا بے دریغ استعمال کیا ۔ لارنس نے بدوؤں میں دو لاکھ پونڈ ہر ماہ تقسیم کرنا شروع کردیئے اس نے " پونڈ" پانی کی طرح بہا کر عربوں کو اپنا مداح بنا لیا۔ وہ اس کو اپنا محسن اور مربی سمجھنے لگے ۔ 1917 ء میں اس نے عقبہ کو فتح کر کے ہتھیاروں کی سپلائی کو ممکن اور آسان بنایا ۔ عقبہ اردن کا واحد شہر ہے جو خلیج عقبہ پر واقع ہے ۔
خلیج عقبہ بحیرہ احمر کی ایک خلیج ہے جو جزیرہ نمائے سینا کے مشرقی اور جزیرہ نمائے عرب کے مغربی جانب واقع ہے۔ اس کے ساحلوں سے مصر، اسرائیل، اردناور سعودی عرب کی سرحدیں لگتی ہیں۔ یہ فوجی نکتہ نظر سے ایک بہت اہم فتح تھی جس کے بعد قاہرہ سے براہ راست اور بآسانی ہتھیاروں کی فراہمی اور دوسری مدد ممکن ہو گئی تھی ۔ عقبہ کی فتح نے آدھی جنگ جیت لی تھی ۔
فلسطین پر حملہ ، بئر سبع کی فتح اور اعلان بالفور
جب نجد کا سارا علاقہ فتح ہو چکا تو اتحادیوں نے عراق اور مصر کی جانب سے بھی عرب سر زمین پر یلغار کردی ۔ ایک طرف صحرائے عرب میں حسینی افواج ترکوں سے نبرد آزما تھیں ۔ عین اسی وقت مصر میں تعینات برطانوی فوج Egyptian Expeditionary Force صحرائے سینائی اور غزہ کی جانب سے فلسطین پر حملہ آور ہوئی ۔ غزہ میں اس فوج کو نہ صرف شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا بلکہ غزہ کی پہلی جنگ میں شکست سے بھی دوچار ہونا پڑا آخر مصر سے کمک حاصل کرنے کے بعد جنرل ایڈورڈ ایلن بی کی قیادت میں مصر کی جانب سے آنے والی اس برٹش فوج نے ۱ستمبر ۱۹۱۷ء میں غزہ کی دوسری جنگ میں غزہ فتح کر لیا ۔ اور اکتیس اکتوبر ۱۹۱۷ء کو چھ ہفتے کی جنگ بئر سبع Battle of Beersheba کے بعد بئر سبع پر بھی قبضہ کر لیا ۔ بئر سبع یروشلم جانے والی شاہراہ پر آخری بڑا اور اہم فوجی مرکز تھا ۔
جان گرینگر Grainger John نے لکھا ہے کہ “ اسی دن جب بئیر سبع کی فتح کی خبر لندن پہنچی تو برٹش کابینہ نے اعلان بالفور Balfour Declaration کی تصدیق کر دی ۔ اور دو دن کے بعد دو نومبر کو برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بالفور نے برطانیہ کے امیر ترین شخص اور بینکر بیرن روشیلڈ Baron Rothschild سے رابطہ کر کے اسے یہ خوشخبری نما خط پہنچایا ۔ جس میں یہودیوں کو فلسطین کی صورت میں ایک آزاد یہودی ریاست کی نوید دی گئی تھی ۔ “ نو نومبر کو یہ خبر شہ سرخی کی صورت میں دی ٹائمز کی زینت بنی ۔ اور دنیا اعلان بالفور سے روشناس ہوئی ۔
برٹش اشرافیہ یہودیوں سے اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لئے اس قدر زیادہ بے تاب تھی کہ انہوں نے یروشلم کی فتح کا انتظار بھی نہ کیا اور جب ابھی صرف تیس فیصد فلسطین پر ان کا قبضہ تھا یروشلم کی فتح سے ایک مہینہ پہلے ہی اعلان بالفور کر دیا ۔ اور اس خط میں دراصل روتھ شیلڈ کو ہی مخاطب کیا گیا تھا اس سے یہودیوں کی طاقت اور برطانوی گورنمنٹ کی بے بسی کا اندازہ بھی ہوتا ہے ۔ تاریخ آج بھی اس بات پر ششدر ہے کہ دنیا کی بڑی سپر پاور برطانوی گورنمنٹ کو آخر کیا مجبوری تھی کہ وہ ایک یہودی بینکر کے سامنے یوں سجدہ ریز ہو گئی ۔ لیکن اس مجبوری پر یہودیوں کے اثر ورسوخ کے اتنے گہرے پردے پڑے ہیں کہ یہ راز شاید دنیا کبھی نہ جان سکے ۔ ممتاز کالم نگار ھارون رشید نے اس پر کیا خوب تبصرہ کیا تھا :” کچھ واقعات شاید کبھی نہ لکھے جاسکیں کچھ داستانیں شاید کبھی ساری بیان نہ ھو سکیں“۔
بالفور کا معاہدہ، اعلان اور خط دراصل دو یہودیوں حائیم وائزمینChaim Weizmann اور ناہوم سوکولو کی متواتر کوششوں اور لندن میں اثرو رسوخ کا نتیجہ تھا جو لندن میں صیہونی یہودیوں کے نمائندے تھے۔ حائم وائزمین بعد میں اسرائیل کا صدر بنا ۔ یہودیوں کی خواہش تھی کہ فلسطین کے دس لاکھ لوگوں کو وہاں سے نکال کر وہاں ایک یہودی ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے۔ اس منصوبے کو نتیجہ خیز بنانے میں کرنل مارک سائیکس کا کردار قطعاً نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جو برطانوی اشرافیہ میں یہودیوں کا سب سے بڑا ہمدرد تھا ۔ اور فلسطین کو اسرائیل بنانے کے ہر مرحلے میں شریک نظر آتا ہے ۔ حسین بن علی سے مزاکرات ہوں ، عرب بغاوت کا جھنڈا تیار کرنا ہو سائیکس پیکو معاہدہ ہو ہر جگہ اس کی پرچھائیں نظر آتی ہے ۔
اعلان بالفور بعد میں نہ صرف ترکی کے ساتھ اس وقت ایک معاہدہ کا حصہ بھی بنا جب ترکی پہلی جنگ عظیم ہار گیا بلکہ وائزمین نے اس کو خفیہ طور پر حسین بن علی سے منوایا بھی جو اس زمانے میں اقتدار کی شدید ہوس میں بری طرح مبتلا تھا ۔ اس کی آنکھوں پر اس ہوس کی اتنی گہری پٹی بندھی تھی اور اسے اپنے اقتدار کے سوا کچھ نظر نہ آتا تھا اور اس کے لیے سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے سمیت وہ کچھ بھی کرنے کو تیار تھا۔
سیکریٹری خارجہ آرتھر جیمز بالفور کے خط کے متن کا اردو ترجمہ کچھ یوں ہے :
دفترِ خارجہ2 نومبر 1917ءمحترم روتھشیلڈمجھے شاہ برطانیہ کی طرف سے آپ کو بتاتے ہوئے ازحد خوشی ہو رہی ہے کہ درج ذیل اعلان صہیونی یہودیوں کی امیدوں کے ساتھ ہماری ہمدردی کا اظہار ہے اور اس کی توثیق ہماری کیبنٹ بھی کر چکی ہے. شاہ برطانیہ کی حکومت فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام کی حامی ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اپنی ہر ممکن صلاحیت کو بروئے کار لائے گی مگر اس بات کو مدِ نظر رکھا جائے کہ فلسطین کی موجودہ غیر یہودی آبادی (مسلمان اور مسیحی) کے شہری و مذہبی حقوق یا دوسرے ممالک میں یہودیوں کی سیاسی حیثیت کو نقصان نہ پہنچے۔ "میں بہت ممنون ہوں گا اگر اس اعلان کو صہیونی فیڈریشن کے علم میں بھی لایا جائے۔ آپ کا مخلصآرتھر جیمز بالفور."
اعلان بالفور نے عربوں کے کان کھڑے کر دیے. انھیں انگریزوں کی جانب سے بے وفائی کی بو آنے لگی ۔ حسین بن علی نے برٹش گورنمنٹ سے بھرپور انداز میں احتجاج کیا اور اسے حسین مکموہن معاہدے کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ،جس پر مکموہن اور سائیکس نے فوری طور پر حسین سے رابطہ کر کے عربوں اور حکومت برطانیہ کے درمیان پیدا ہونے والی اس تلخی کو رفع کرنے کی کوشش کی۔ حسین بن علی اور اس کے بیٹوں پر انگریزوں کی نیت واضح ہو چکی تھی ۔ یہودیوں کے عزائم بھی ان پر پوری طرح عیاں تھے اور یہودی برطانوی گٹھ جوڑ بھی ان سے چھپا نہیں تھا ۔ لیکن وہ باپ بیٹے اقتدار کی ہوس اور ترکوں سے نفرت میں اتنا آگے آ چکے تھے کہ اب واپسی ان کے لیے ممکن نہیں تھی ۔
(یہ مضمون میری نئی آنے والی کتاب '' اہل وفا کی بستی'' کا حصہ ہے جو فلسطین اور اسرائیل کے سفر کی یادداشتوں پر مشتمل ہے )
تبصرہ لکھیے