عظیم انسان وہ ہوتا ہے جس کے سینے میں حساس دل دھڑکتا ہو،جودوسروں کے درد کو اپنا درد سمجھے،کوئی تڑپے تو یہ بھی تڑپنا شروع کردے.میرے خیال میں ایسے لوگ معاشرے کس حسن ہوا کرتے ہیں.
ایک مرتبہ ایسے عظیم انسان کے ساتھ مجھے سفرکرنے کا موقع مِلاڈرائیو کرتے ہوئے ایک جگہ پہ ڈرائیور نے مسلسل ہارن دینا شروع کیا۔: ہارن کی مسلسل آواز انہیں بے چین کر رہی تھیبزرگ نے گہری سانس لی، شاید ان کے چہرے پر کوئی پرانی یاد تازہ ہو گئی تھی۔ ان کی آواز میں دکھ بھی تھا اور شفقت بھی۔ انہوں نے نرمی سےڈرائیور کو کہا ”ہارن تب کرنا چاہیے جب ضرورت پڑے بِلاضروت ہارن کرنا مناسب نہیں.“
ان کی باتیں سن کر میں نے سر اٹھایا اور حیران کُن نظروں سے ان کی طرف دیکھنے لگا انہوں نے میری حیرانی بھانپ لی میری طرف متوجہ ہوکر فرمانے لگے”بیٹا بِلاضرورت،بِلاموقع اور محض شوق کی خاطر ہارن بجانا خاموش بددعا کاسبب بنتا ہے ہماری زندگی کی بے چینیاں اور پریشانیاں اکثر ہماری اپنی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کا نتیجہ ہوتی ہیں۔کیا معلوم آگے گاڑی میں،موٹر سائیکل سوار یاپیدل چلنے والوں میں کوئی بوڑھایا بیمار انسان بیٹھاہو جس کو ہارن سے ذہنی تکلیف پہنچتی ہو،اور جب یہ مسلسل ہوتو ان کے دل سے بددعائیں نکلتی ہیں جو انسان کی ہلاکت اور بربادی کا ذریعہ بنتی ہیں خاص کر جہاں روڈ بلاک ہوجائے اور فوری طور پر نکلنے کا کوئی راستہ نہ ہو تب مسلسل ہارن پھنسے ہوئے لوگوں کے لئےدوگنا اذیت کا ذریعہ بنتا ہے“.
بزرگ نےایک آہ بھری اور اپنی بات جاری رکھتےہوئے فرمانے لگے”"اگر ہم صرف ایک چھوٹی سی تبدیلی لے آئیں—ضرورت کے بغیر ہارن نہ بجائیں—تو نہ صرف دوسروں کو سکون ملے گا، بلکہ ہمیں بھی زندگی میں سکون اور برکت محسوس ہوگی۔“
یہ نصیحت میرے دل میں یوں اتری کہ اب میں نہ صرف خود اس عادت سے بچتا ہوں، بلکہ جہاں ممکن ہو، دوسروں کو بھی سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ کیونکہ بعض اوقات چھوٹی تبدیلیاں ہی ہماری زندگی میں بڑے سکون کا ذریعہ بنتی ہیں۔
تبصرہ لکھیے