ملک کےتقریباً سارے اخبارات کے صفحہ اول پر پورے پورے صفحے کے سرکاری اشتہارات سے معلوم ہوتا ہے کہ سرکار عوامی خدمت کا کوئی ٹھوس کام کیے بغیر دکھاوے کے اکا دکا کاموں پر تعریف چاہتی ہے، اور وہ بھی اپنے منہ سے، اس لیے پرانے زمانے کے بادشاہوں کی طرح عوامی ٹیکسوں کے پیسے پر اپنی قصیدہ گوئی کی جارہی ہے۔
بس فرق یہ ہے کہ بادشاہ بادشاہ ہوتا تھا جو کہ ہرگز خود کو عوامی خدمت گار نہیں بولتا تھا، دوسرا وہ سارے خزانے کا مالک ہونے اور کسی کے آگے جواب دہ نہ ہونے کے باوجود ملکی پیسہ ایسے لٹاتا نہیں تھا، بلکہ ریاست کے شاعر اپنی شاعری سے، یا وزیر مشیر اپنی باتوں سے بادشاہ کا اقبال دربار میں بلند کرتے ، جس پر زیادہ خرچہ نہیں ہوتا تھا، مگر ہماری سرکار نے جس طرح اپنا اقبال بلند کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے، اس پر اپنے وقت کے بڑے بڑے بادشاہ بھی حیران ہوں گے۔
سرکار آج کل یہ ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے کہ وہ عوامی خدمات کا سر چشمہ ہے، اور اتنے کام سر انجام دے چکی ہے کہ اخبارات کے سارے صفحات کالے ہو جائیں گے مگر کارنامے ختم نہیں ہوں گے۔
سوال یہ ہے کہ پیکا ترمیمی ایکٹ پر خوشی منانے والا میڈیا اچانک کیوں خاموش ہوگیا ہے۔ کیا عوام کے سرکاری کاموں پر مسلسل تنقید، ناپسندیدگی اور غیر تسلی اظہار کے باوجود سرکار کا اپنی واہ واہ پے مشتمل خبریں کیا فیک نیوز نہیں ہے؟ کیا فیک نیوز صرف حزب اختلاف کی ہوتی ہے؟ یا سرکار بھی اس زمرے میں آتی ہے؟
دنیا بھر میں حکومتیں ہوتی ہی عوامی خدمت کے لیے ہیں۔ ان کا کام عوام کی خدمت ہی ہے۔ مگر پاکستان میں سرکار کوئی بھی ہو ،عوام کی خدمت اور بنیادی حقوق کی فراہمی کو احسان قرار دیتی ہے، اور بار بار جتلاتی بھی ہے. بنیادی حقوق اس طرح دیتی ہے کہ عوام اس کو عطیہ سمجھ کر شکریہ بجا لاتے ہیں، حالانکہ ترقی یافتہ ممالک میں بنیادی حقوق کی فراہمی اور شہریوں کے لیے ریاست پر عائد فرائض کی ادائیگی حکومت کے فرائض منصبی میں شامل ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کی حکومتیں اپنی کارکردگی کے تذکروں میں ان کا ذکر نہیں کرتیں، بلکہ وہ ان کاموں کو اپنی کارکردگی قرار دیتی ہیں، جس سے قوم ترقی کی نئی منزلیں طے کرے۔ مگر بد قسمتی سے پاکستان میں یہ غلط روایت ڈال دی گئی ہے۔ اور اس وقت اخبارات کو دیکھ کر یوں محسوس ہورہا ہے کہ شاید ملک میں قبل از وقت انتخابات کی تیاریاں چل رہی ہیں۔
تبصرہ لکھیے