ہوم << غربت کے خاتمے میں زکوٰۃ کا کردار - عبیداللہ فاروق

غربت کے خاتمے میں زکوٰۃ کا کردار - عبیداللہ فاروق

دنیا میں غربت ہمیشہ سے ایک سنگین مسئلہ رہا ہے۔ کروڑوں لوگ دو وقت کی روٹی کے لیے تڑپتے ہیں، اور دولت چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ گئی ہے۔ لیکن اسلام نے غربت کے خاتمے کے لیے ایک ایسا جامع اور مکمل نظام پیش کیا ہے جس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔

زکوٰۃ، جو اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے، ایک ایسا مالیاتی فریضہ ہے جو نہ صرف فرد کی پاکیزگی کا ذریعہ بنتا ہے بلکہ معاشرے کے معاشی نظام میں توازن قائم کرتا ہے۔ زکوٰۃ صرف ایک مالی ادائیگی نہیں بلکہ ایک اخلاقی اور روحانی فریضہ ہے۔ اس کا بنیادی مقصد مال و دولت کو چند ہاتھوں کی قید سے آزاد کر کے اسے ضرورت مندوں تک پہنچانا ہے۔ قرآن پاک میں زکوٰۃ کو ایمان کے ساتھ جوڑا گیا ہے، اور یہ بتایا گیا ہے کہ ایک حقیقی مسلمان وہی ہے جو اپنے مال میں سے دوسروں کا حق ادا کرے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَعْلُومٌ، لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ"۔ (الذاریات: 19) یعنی ان کے مال میں ایک مقررہ حصہ ہے جو سائل اور محروم کے لیے ہے۔

زکوٰۃ: غربت کا علاج
زکوٰۃ کا نظام اس وقت فعال ہوتا ہے جب صاحبِ نصاب افراد اپنی دولت کا ایک مخصوص حصہ، یعنی 2.5 فیصد، سالانہ بنیاد پر غریبوں، مسکینوں، یتیموں اور ضرورت مندوں کو ادا کرتے ہیں۔ اس عمل کے ذریعے دولت گردش میں آتی ہے، اور معاشرے کے کمزور طبقات کو بنیادی ضروریات فراہم ہوتی ہیں۔ زکوٰۃ صرف انفرادی مدد تک محدود نہیں بلکہ ایک ایسا معاشرتی نظام تشکیل دیتی ہے جس سے غربت کے خاتمے کا مستقل بندوبست کیا جا سکتا ہے۔

مثال کے طور پر، زکوٰۃ سے نہ صرف لوگوں کو کھانے اور رہائش کی سہولت مل سکتی ہے بلکہ انہیں تعلیم اور تربیت کے ذریعے خود کفیل بھی بنایا جا سکتا ہے۔ آج کے دور میں، اگر زکوٰۃ کو منظم اور شفاف انداز میں استعمال کیا جائے تو یہ غریبوں کو کاروبار کے مواقع فراہم کر کے انہیں اپنی زندگی بہتر بنانے میں مدد دے سکتی ہے۔

اسلامی تاریخ کے سنہری نقوش
تاریخ گواہ ہے کہ زکوٰۃ کے نظام نے کئی بار غربت کے خاتمے میں انقلاب برپا کیا ہے۔ خلیفہ دوم سیدنا عمر بن عبدالعزیز کے دور میں زکوٰۃ کا نظام اتنا موثر تھا کہ پورے معاشرے میں کوئی شخص زکوٰۃ لینے والا باقی نہیں بچا تھا۔ لوگ زکوٰۃ لے کر غریبوں کو ڈھونڈتے، لیکن انہیں کوئی مستحق نہ ملتا۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ زکوٰۃ کے نظام کو اگر صحیح طریقے سے نافذ کیا جائے تو یہ معاشی عدم توازن کو ختم کر سکتی ہے۔

آج کے دور میں زکوٰۃ کی اہمیت
آج ہم ایسے دور میں رہ رہے ہیں جہاں غربت ایک عالمی مسئلہ ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں کروڑوں لوگ بھوک اور بیماری سے مر رہے ہیں، جبکہ دولت مند افراد کے اثاثے بے پناہ ہیں۔ ایسے میں زکوٰۃ کا نظام ایک روشنی کی کرن بن سکتا ہے۔آج کے مسلمان، خصوصاً صاحبِ نصاب افراد، اگر اپنی زکوٰۃ کو منظم انداز میں ادا کریں اور اسے مستحقین تک پہنچانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور اداروں کا سہارا لیں، تو یہ غربت کے خاتمے میں ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ زکوٰۃ کو صرف فوری مدد کے بجائے طویل المدتی منصوبوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جیسے:

1.غریب بچوں کی تعلیم و تربیت
2.خواتین کے لیے ہنر سکھانے کے مراکز
3.چھوٹے کاروبار کے لیے مالی معاونت
4.طبی سہولیات کی فراہمی

زکوٰۃ کا نظام صرف ایک انفرادی عبادت نہیں بلکہ ایک مکمل معاشرتی نظام ہے، جو عدل و انصاف اور مساوات پر مبنی ہے۔ اگر ہم زکوٰۃ کو ایک ذمہ داری کے طور پر سمجھیں اور اس کے حقیقی مقاصد پر عمل کریں تو دنیا سے غربت کا خاتمہ ممکن ہے۔ یہ صرف مالداروں کے لیے نہیں بلکہ ایک معاشرتی فریضہ ہے، جس سے ایک مضبوط، خوشحال اور پُرامن معاشرہ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔

آج وقت کی ضرورت ہے کہ ہم زکوٰۃ کے نظام کو دوبارہ فعال کریں اور اسے عملی طور پر نافذ کریں۔ یاد رکھیں، زکوٰۃ نہ صرف غربت کے خاتمے کا ذریعہ ہے بلکہ اللہ کی رضا اور آخرت کی کامیابی کا راستہ بھی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اپنے مال کے ذریعے دوسروں کی ضرورت پوری کریں، تاکہ دنیا بھی سنورے اور آخرت بھی۔

Comments

Avatar photo

عبیداللہ فاروق

عبیدالله فاروق جامعہ فاروقیہ کراچی فارغ التحصیل ہیں۔ جامعہ بیت السلام کراچی میں تدریس سے وابستہ ہیں۔ دینی و سماجی امور پر لکھتے ہیں

Click here to post a comment