یہ دل تھا خاک، یہ دنیا ویران لگتی تھی
کوئی نہیں تھا میرا، ہر راہ سنسان لگتی تھی
کبھی کبھی جو چاندنی راتوں میں بیٹھتا تھا میں
ہوا کی سرگوشیاں بھی بے جان لگتی تھی
پھر اک نظر کی روشنی دل کو چراغ کر بیٹھی
بجھی ہوئی یہ زندگی تابان لگتی تھی
وہ ساتھ تھا تو خواب بھی تعبیر بن گئے
ہر ایک خواہش جیسے مہربان لگتی تھی
نگاہ اٹھتی تو محبت کا موسم جاگتا
بہار خود بہار کی پہچان لگتی تھی
مگر یہ خواب، خواب تھے، تعبیر کب بنے؟
حقیقتوں کی دھوپ بھی طوفان لگتی تھی
وہ چھوڑ کر گیا تو دنیا بے رنگ ہو گئی
حیات خود ہی جیسے بے جان لگتی تھی
اب اس کے ذکر سے بھی دل دکھنے لگا ہے دوست
محبتوں کی داستاں نقصان لگتی تھی
تبصرہ لکھیے