"اُستاد کا مقام والدین کے بعد سب سے زیادہ بلند ہے۔ اُستاد ہی وہ ہستی ہے جو اندھیرے میں چراغ جلاتی ہے، جہالت کے اندھیرے کو علم کے نور سے بدلتی ہے، مگر افسوس! آج کے دور میں سب سے زیادہ بے قدری اُسی اُستاد کی ہو رہی ہے جو قوموں کی تقدیر بدلتا ہے۔"
پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ مزدور نہیں ہیں!
یہ کوئی عام نوکری نہیں کہ جسے جب چاہا رکھ لیا، جب چاہا نکال دیا، اور جب جی چاہا ذلیل کر دیا۔ ایک پرائیویٹ اسکول کا اُستاد صرف تنخواہ کے لیے نہیں پڑھاتا، وہ ایک مشن کے تحت پڑھاتا ہے۔ وہ علم بانٹتا ہے، اخلاق سکھاتا ہے، بچوں کے اندر خواب جگاتا ہے، مگر بدلے میں کیا ملتا ہے؟
عزت نہیں ملتی، بس احکامات ملتے ہیں۔
وقت پر تنخواہ نہیں ملتی، مگر ڈیوٹی کے لیے سختی کی جاتی ہے۔
جب چاہا، بغیر کسی وجہ کے نوکری سے نکال دیا جاتا ہے۔
اضافی کام تھوپ دیے جاتے ہیں، مگر اس کا کوئی معاوضہ نہیں دیا جاتا۔
اگر اُستاد احتجاج کرے تو اسے "بدتمیز" اور "ناشکرا" کہہ کر خاموش کرا دیا جاتا ہے۔
یہ کیسا انصاف ہے؟
کیا استاد کا احترام صرف کتابوں اور تقریروں تک محدود ہے؟ کیا استاد صرف ایک "نوکر" ہے جسے حکم دینا آسان ہے، مگر عزت دینا مشکل؟
جب اُستاد روتا ہے، تو علم روتا ہے!
کبھی کسی پرائیویٹ اسکول کے اُستاد کی آنکھوں میں آنسو دیکھیں،
وہ تنخواہ کے لیے نہیں روتا، وہ بےعزتی کے لیے روتا ہے۔
وہ اس لیے روتا ہے کہ اس نے اپنے شاگردوں کو عزت دینا سکھایا، مگر خود عزت سے محروم رہا۔
وہ اس لیے روتا ہے کہ وہ دن رات محنت کرتا ہے، مگر اس کا حق ادا نہیں کیا جاتا۔
"اُستاد مزدور نہیں، اُستاد معمار ہے!"
وہ قوم کا معمار ہے، وہ مستقبل کی بنیادیں رکھتا ہے۔ اگر اُستاد کا دل ٹوٹ گیا، تو نسلیں تباہ ہو جائیں گی! اگر اُستاد کے ساتھ ظلم ہوتا رہا، تو علم کے چراغ بجھ جائیں گے!
یہ وقت ہے کہ تبدیلی لائی جائے!
اُستاد کو ایک مزدور نہیں، ایک معزز فرد سمجھا جائے۔
اُستاد کو وقت پر تنخواہ دی جائے، اور وہ بھی اتنی کہ وہ عزت سے زندگی گزار سکے۔
اُستاد کو بےعزتی سے نہ نکالا جائے، بلکہ اس کے ساتھ عزت و وقار کا برتاؤ کیا جائے۔
اسکول مالکان اُستاد کو ایک ملازم نہیں، بلکہ "تعلیم کا ستون" سمجھیں۔
اگر اُستاد کی قدر نہ کی گئی، تو یہ معاشرہ ترقی نہیں کرے گا!
یہ وقت ہے کہ ہم جاگیں اور اپنے اُستادوں کے ساتھ انصاف کریں۔ اگر آج ہم نے اُنہیں عزت نہ دی، تو کل یہی جہالت ہمارا مقدر بن جائے گی۔
استاد کو عزت دیں، تاکہ علم زندہ رہے!
تبصرہ لکھیے