ہوم << خداوندانِ مکتب سے شکایت - عبدالصمد بھٹی

خداوندانِ مکتب سے شکایت - عبدالصمد بھٹی

یہ بحث آج تک جاری ہے کہ تحقیقی مضامین میں الفاظ یا صفحات کی تعداد معیارِ مطلوب ہے یا مواد کا معیار۔ دنیا بھر کی جامعات میں تحقیق کے لیے مختلف طریقے رائج ہیں۔ ان کو بروئے کار لا کر طلبہ اپنی تحقیق کرتے اور اپنی پڑھائی مکمل کرتے ہیں۔ اس میں گروہی مباحثہ، مختلف کتب کی چھان بین کی جاتی ہے۔ اساتذہ راہ نمائی کرتے ہیں اور طلباء اس راہ نمائی کی روشنی میں اپنے مضامین اور اسائنمنٹ مکمل کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ نہ گروہی مباحث ہوتے ہیں نہ کتب سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ ہماری جامعات میں اول تو کتب خانوں کا وجوود ہی نہیں ہے، اگر کہیں ہے بھی تو اساتذہ اور طلباء دونوں اس جانب توجہ ہی نہیں دیتے۔ سرکاری جامعات کے اساتذہ اس معاملے میں شہ کے مصاحب بن کر ہر طالب علم کو اپنی شرائط منوانے کے لیے 'دھمکی' دینے سے بھی گریز نہیں کرتے کہ فیل کر دوں گا۔ طالب علم کو نمبر چاہیے ہوتے ہیں اور وہ نہ چاہتے بھی ان کی ہر ضروری اور غیر ضروری 'شرط' ماننے پر مجبور ہوتے ہیں۔

ملک کی ایک معروف جامعہ کے طلباء کو سوشل سائنسز کے معلم نے دو عنوانات پر مضامین تحریر کرنے کو دیے۔ اس میں شرط یہ رکھی گئی کہ کم از کم 20 سے 25 صفحات پر مشتمل ہوں۔ یہ ان دونوں عنوانات کے لیے واحد شرط تھی۔ اس پر ہی بس نہیں ہوا بلکہ طلباء کی اکثریت نے اپنے طور پر مضامین لکھ کر جمع کروا دیےتو کچھ دنوں بعد جامعہ سے ناموں کے ساتھ بلاوا آگیا کہ آپ کے اسائنمنٹ میں اتنے صفحات کم ہیں۔ یہ اسائنمنٹ واپس لے جائیں اور دو دن کے اندر اندر مکمل کر کے جمع کروائیں۔

اس پر غصہ آنا فطری امر تھا لیکن مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق جیسے تیسے کر کے جمع کروا دیے۔ میں نے ایک طالب علم سے پوچھا کہ پہلے پانچ دن ملے تھے اس میں آٹھ سے دس صفحات کا اسائنمنٹ بنا کر جمع کروایا تھا۔ اب دو دن میں بیس بائیس صفحات کا اسائنمنٹ کیسے بنا دیا؟ طالب علم کاجواب تھا کہ پہلے پانچ دن میں خود مواد ڈھونڈا ، اس کو پرکھا اور جو کچھ سمجھ میں آیا وہ لکھ دیا۔ یہ سمجھا تھا کہ استاد محترم مواد دیکھیں گے ان کو پتا چل جائے گا کہ طالب علم نے محنت کی ہے۔ بعد میں جب انہوں نے کہا کہ مکمل کرو ناکافی ہے اور ساتھ ہی یہ دھمکی بھی دی کہ اگر بیس صفحات سے کم ہوا تو فیل کر دوں گاتوچار و ناچار سارا مواد انٹرنیٹ سے لیا۔ ایک دوست کو بھیجا، اس سے کہا کہ بیس بائیس صفحات کا لکھ دو۔ دوست نے بھی وہ پورا مواد بس 'چھاپ' دیا۔

ایک اور طالب علم نے بتایا کہ ایجوکیشن کے امتحان میں میں نے معلمہ سے سوال کیا کہ میڈم فلاں سوال کا جواب دو صفحات میں مکمل ہو گیا لیکن ' میڈم' نے فرمان جاری کیا کہ ہر جواب کم از کم چار صفحات کا ہونا چاہیے۔ اس سے کم پر بات نہیں بنے گی اور فیل کی صورت میں نتیجہ بھگتنا پڑے گا۔وہ طالب علم بتاتا ہے کہ ان دو صفحات میں بات مکمل ہو چکی تھی۔ اب میرے پاس لکھنے کو کچھ باقی نہیں تھا۔ میرے سوال پر کہ پھر کیسے مزید دو صفحات مکمل کیے؛ اس نے جواب دیا کہ پہلے والے دو صفحات کا مواد ہی معمولی سے الٹ پھیر کے ساتھ دوبارہ لکھ دیااور پیپر میں 'اچھے' نمبر آ گئے۔

انھی طلبہ سے سوال کیا گیا کہ کیا سب اساتذہ ایسا کرتے ہیں؟ ان کا جواب تھا کہ ایسا وہ اساتذہ کرتے ہیں جو طویل العمر ہیں۔ قدرے جوان اساتذہ جنہوں نے چند سال قبل ہی تعلیم مکمل کر کے جامعہ میں ملازمت اختیار ک،ی ان کا رویہ بالکل الٹ ہوتا ہے۔ ان اساتذہ میں سے ایک کی مثال دیتے ہوئے طلباء نے کہا کہ وہ کہتے ہیں ایک ہی قلم استعمال کرو، سرخیاں بھی اسی قلم سے لگاؤ۔ ٹو دی پوائنٹ بات لکھو بھلے وہ دو سطروں میں مکمل ہو رہی ہو۔ مجھے اس سے غرض نہیں کہ آپ کتنا زیادہ لکھتے ہیں مجھے اس سے غرض ہے کہ کیسا لکھتے ہیں۔مذکورہ معلم کے بارے میں تمام طلباء کی مثبت رائےتھی اور سب کا یہ ماننا تھا کہ تمام اساتذہ کو ایسے ہی ہونا چاہیے۔ یہ نہ لمبے لیکچر دیتے ہیں نہ لمبے چوڑے اسائنمنٹ۔ پڑھاتے ہوئے بھی خود زیادہ تر خاموش رہتے ہیں اور ہر طالب علم کو بولنے پر اکساتے ہیں۔ اس سے ہمارے اعتماد میں بھی اضافہ ہوا اور ہم اپنی ہر بات ان کے سامنے کھل کر کہہ دیتے ہیں۔

ہمارے اساتذہ کو وقت کے ساتھ اپنے آپ کو بدلنا ہو گا۔ آج کا طالب علم ملازمت کے ساتھ ساتھ اپنی پڑھائی جاری رکھے ہوئے ہے۔ اگر یہ اساتذہ طالب علم کی نفسیات اور رجحانات سے نابلد رہیں گے تو اس سے ان کے اور طلباء کے درمیان خلیج بڑھے گی۔ ہمارے ہاں یہ المیہ ہے کہ بدلتے رجحانات کے مطابق اساتذہ کی تربیت کا اہتمام نہیں کیا جاتا۔ اسناد کی بنیاد تعیناتی تو ہو جاتی ہے لیکن ان کی فنی تربیت کا کوئی اہتمام نہیں کیا جاتا، لیکن آج سیکھنا کیا مشکل ہے؟ اگر کوئی سیکھنا چاہے تو۔ دوسری بات یہ ہے کہ اساتذہ سمجھتے ہیں ہم سرکاری نوکر ہیں۔ آئیں حاضری لگائیں اور واپس چلے جائیں، ہمارا فرض اد اہو گیا۔اقبال علیہ الرحمہ کا برسوں کہا ہوا آج سمجھ میں آتا ہے کہ:

کس طرح ہُوا کُند ترا نشترِ تحقیق
ہوتے نہیں کیوں تجھ سے ستاروں کے جگر چاک

اور یہ تو شاید آج کے معلم کے لیے ہی کہا تھا کہ جو طلبہ کو جانے انجانے میں 'کاپی پیسٹ' کی جانب مائل کر رہا ہے:

شکایت ہے مجھے یا رب! خداوندانِ مکتب سے
سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا