فروری کے برطانوی نیوز ویب سائٹس کی کچھ سُرخیاں دیکھ لیں:
Police accused of bringing 'Sharia law to British streets' after naming man who set fire to Koran
Man Burning Quran Outside Turkish Consulate In London Attacked By Knife
Man arrested after livestreamed Quran burning at Manchester bombing memorial
Man denies religious offence over burning of Quran
Is Britain bringing back blasphemy laws?
It’s official: Islamic blasphemy laws have come to Britain
Burning a Quran shouldn’t be a crime,
(Article 3 Feb2025: The Spectator)
فروری 2025 کے ابتدائی 13 دنوں میں برطانیہ میں قرآن کریم کے نسخوں کی اہانت اور نذرِ آتش کرنے کی 3 گستاخانہ وارداتیں ہوچکی ہیں۔مگر سناٹا ایسا ہے کہ جیسے اب یہ کوئی معمولی بات ہے۔ یہ ہے وہ معمول بن جانا ، جس پر ہم پہلے دن سے چیخ رہے ہیں۔ یہ لوگ ایک ہی کام اتنی بار کرتے ہیں کہ پھر اس کا تقدس اور اُس کے تقدس کی ، تحفظ کی کوشش ’’لا یعنی ‘‘لگنے لگتی ہے۔ کوئی نام نہادمسلمان بھی ہو ، کلمہ گو بھی کہلائے ، نماز روزہ کی اداکاری بھی کرے، بڑے فخر سے پاکستان آکر بتائے کہ ’’بھئی یہاں تو اسلام پر زیادہ عمل ہوتا ہے۔۔۔ یہا ں لوگ زیادہ اسلام سے قریب ہوجاتے ہیں۔یہاں سب مل کر رہتے ہیں۔۔آپس میں کمیونٹی ہے۔۔وغیرہ وغیرہ‘‘ اس سب کے باوجوداُن کے نزدیک’’کتاب اللہ ‘‘ کی اہمیت ایسی ہوجائے جیسے کہ وہ کچھ بھی نہیں ۔تو یہ معمولی با ت نہیں۔ یہ بات اپنی جگہ ہے کہ اللہ نے خود اس کلام کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے مگر ہم اس دنیا میں امتحان کے لیے آئے ہیں یہ بھی تو بتا دیا ہے تو ہم اپنی پوزیشن کو کیسے ختم کر سکتے ہیں ؟ محض حب مال، شہریت اور حب دُنیا کی خاطر اور جعلی امن پسندی اور جعلی قانون کی پاسداری کے نام پر۔ ایک یورپی مقیم واقف کار سے پوچھا تو اُس نے یہ جواب دیا کہ ’’ہم نے اس معاملے پر مشاورت کی ہے اور اب ہم سب اس لیے خاموش رہتے ہیں کہ ہمارے رد عمل سے ’’ملعون گروہ‘‘ کو خوشی ہوتی ہے اور وہ ہمارے احتجاج کی بنیاد پر مزید متعصب ہو کر مضبوط ہوتا ہے۔ اس لیے اگر ہم خاموش رہیں تو پھر یہ بھی ایک وقت آئیگا کہ ختم ہوجائیں گے۔ یقین مانیں میں خاموش رہنے کی یہ ’’قیمتی ‘‘دلیل کئی سال سے سُن رہا ہوں ، مگر مجال ہے جو واقعات میں کمی واقع ہوئی ہو۔البتہ بڑھ ضرور گئے ہیں۔
’شعائر اللہ ‘ کی تعظیم کرنا،اُن کا تقدس، اُن کا مقام برقرار رکھنا قرآنی نصوص سے ثابت شدہ حکم اور شرط تقویٰ میں سے ہے۔مگر کس سے شکوہ کریں؟ پورا عالم کفر اس معاملے پر یکسوئی سے کاربند ہے۔ آپ مکمل سیکولر ہوجاؤ، لبرل بن جاؤ تب بھی اُن کو قبول نہیں ہوگے ، یہ بات ذہن نشین کرلیں۔یہ عمل تاریخ سے ثابت شدہ ہے۔وہ دیکھ رہے ہیں کہ یہ ہمارے پاس پیدا ہوتے ہیں، ہمارا کھانا پینا، ہماری تہذیب اطوار، حلال حرام سب ہمارا ہی لیتے ہیں مگر پھر بھی انکا بھروسہ نہیں کب ’دھماکہ ‘کردیں۔
آپ اوپر خبروں کی سُرخیوں میں ایک اسلامی شریعت والی کو غور سے پڑھیں۔ اِس ملعون شخص کا نام پولیس نے پبلک کر دیا تو ’’ہیومن رائٹس‘‘ کی کیسی چیخیں نکلیں کہ اُنہوں نے صاف کہا کہ اُس کی شناخت بتانے سے اُس کی زندگی کو خطرہ ہوجائیگا۔ وہ اپنی پولیس کو قصوروار ٹھہرا کر کہہ رہے ہیں کہ اِس سے گویا وہ برطانیہ میں اسلامی شریعت لانا چاہتے ہیں ، یعنی وہ جانتے ہیں کہ اسلامی شرع میں ایسے شخص کی سزا موت ہے۔ یہ ساری معلومات کے ساتھ وہ یہ کام کرتے ہیں اور پوری پشت پناہی کرتے ہیں۔ ہمارے ملک میں لوگ یہ کام کرکے برطانیہ ، یورپ میں حکومتوں سے پنا ہ لینے آتے ہیں کہ وہاں اُن کو جان کا خطرہ ہے اور یہاں لوگ وہی خطرہ مسلمانوں کی موجودگی کی وجہ سے بتا رہے ہیں۔وہ دیکھ رہے ہیں کہ مسلمان بے شک بے غیرتی کی غفلت میں پڑے ہیں مگر حالیہ دنوں ’’سلوان ‘‘ اور امریکہ میں ’’رشدی‘‘ پر حملوں نے بتا دیا ہے کہ نیند سے کوئی تو کبھی توجاگ سکتا ہے۔
دونوں وارداتوں میں پہلے سوشل میڈیا پر مشتہر و اعلان کیا گیا۔ایک نے تو لائیو نشر بھی کیا۔دونوں گرفتار ہوئے مگر برطانوی کورٹ نے دونوں ملعونوں کو ضمانت پر آزاد کردیا۔
پہلے ملعون 47 سالہ مارٹن فراسٹ نے جوسٹریٹ فورڈ، گریٹر مانچسٹر کا رہائشی ہے ۔اُس نے یکم فروری 2025 کو مانچسٹر میں گلیڈ آف لائٹ میموریل کے قریب قرآن پاک کا ایک نسخہ جلایا تھا۔ اس دوران قرآن کے نُسخے کے صفحات پھاڑنے اور آگ لگانے سے پہلے اسرائیلی جھنڈا پکڑے کا پورا عمل فلماتے ہوئے لائیو نشر بھی کیاگیا۔عدالتی کارروائی سے یہ بات سامنے آئی کہ فراسٹ نے اپنے غلیظ عمل کا محرک اسرائیلی تنازعہ میں اپنی بیٹی کی موت بتایا اور ظاہر کیا کہ اس کی بیٹی کی موت نے اُس کی ذہنی صحت پر گہرا اثر ڈالا۔یعنی آپ سمجھ گئے کہ وہ ذہنی مریض ہونے کا فائدہ اٹھانا چاہ رہا ہے۔ کورٹ میں خاتون جج نے بھی اس وجہ کو سُن کر نرمی کا رویہ اظہار کیا۔ ویسے وہ سختی بھی کرتی تو بھی برطانوی قانون میں اس عمل کی کوئی سخت سزا ہے ہی نہیں۔اہم بات یہ ہے کہ اس ملعون کی نہ بیٹی کی تفصیل ظاہر کی گئی ہے اور نہ ہی اس کے اسرائیل سے تعلق کی ۔ یہ ’’ذہنی بیماری ‘‘ کے بارے میں آپ پوری تحقیق کرکے نوٹ کرلیں کہ یہ وہ غلیظ بہانہ ہے جو آپ کو کبھی کسی مسلمان مجرم میں نہیں ملے گا۔ مطلب ذہنی بیمار صرف یہی ملعون ہوتے ہیں، ان کو ہی ریلیف ملتا ہے،چاہے یہ جو بھی کریں۔ مسلمان جب بھی کرے گا وہ بیماری کی کیٹیگری میں نہیں آئےگا۔اُس کو وہ مسلمان کے عقیدے پر رکھ کر ناپیں گے ، سارا جہاد تصور اُن کو زیادہ اچھی طرح یاد آجائیگا۔
دوسرا واقعہ ترکش قونصلیٹ کے باہر ہوا جہاں ایک ملعون نے قرآن مجید کے مصحف کی بے حرمتی کی ۔یہ مجرم ایک ایتھیسٹ (ملحد) ہے جس کا نام اس کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر H. Coskun دکھائی دیتا ہے۔اس ملعون ملحد نے 10 فروری 2025 کو اپنے ٹوئٹر پر اس غلیظ ارادے کا اظہار لکھ کر کیا تھا کہ وہ 13 فروری کو ترکش قونصلیٹ کے باہر یہ کام کرے گا۔یہاں جرم ہونے کے عین درمیان ایک 59سالہ غازی موسیٰ قادری نے اُس ملعون پر حملہ کیا۔غازی کے ہاتھ میں و یسے تو چاقو تھا تاہم ملعون کو چاقو کا کوئی وار نہ لگ سکا۔ اس پورے حملے کی وڈیو بھی لائیو نشر ہوئی کیونکہ وہ ملعون بھی اپنے کسی ساتھی کے ساتھ آیا تھا جو کیمرے پر سب فلما رہا تھا ۔ ملعون کو حملے میں معمولی چوٹ آئی ۔قونصلیٹ کے باہر یہ واقعہ ہو رہا تھا ، ملعون کو فوراً انسانی حقوق کے تحت ہسپتال لے جایا گیا پھر بعد میں پولیس اُس کو بھی لے گئی۔وڈیو میں ہم نے دیکھا کہ محض چند لاتیں مارنے اور تھوکنے پر غازی موسیٰ قادری کو پولیس نے گرفتار کرلیا ۔برطانوی میڈیا نے متعصب رپورٹنگ کرتے ہوئے غازی کو حملہ آور اور ملعون گستاخ کو مبینہ ملزم اور Protestor بنا ڈالا۔مغربی نظریات کا دوغلا پن اب ساری دنیا کے سامنے ہے۔ اس شخص کو بھی کورٹ میں پیش کیاگیا جہاں وہ جرم سے انکاری ہوگیا، اسلیے اُس کو ضمانت پر آزاد کرتے ہوئے 28 مئی کی سماعت تک کیس موخر کردیاگیا۔ غازی موسیٰ کی سماعت 17 فروری کو ہونی ہے۔
تیسرا واقعہ برطانیہ میں مقیم ’’ایکس مسلم ‘‘ یعنی مرتدین کے گروہ کی جانب سے کیا گیا۔اس کی وڈیوبنا کر سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی۔ اِن کی وڈیو میں کی گئی بے حرمتی ناقابل بیان ہے۔ وڈیو میں چہرے اتنے ہیں کہ گرفتاری ممکن ہے ۔تاہم اس میں ابھی تک کوئی گرفتاری نہیں ہوئی،نہ ہی وہاں مقیم لاکھوں مسلمانوں کی کمیونٹیز کی جانب سے کوئی قانونی کارروائی کی اطلاع یا رد عمل آیا۔ یہ مرتدین کا گروہ انتہائی غلیظ حرکات پر اترا ہوا ہے ۔ مستقل للکار رہا ہے کہ امت میں ابھی غازی الم دین کیوں پیدا نہیں ہورہے۔ ہمیں ویسے تو یقین ہے کہ جیسے سلوان، رشدی کے لیے غازی آئے یہاں بھی آئیں گے ۔ مگر پہلے سوال تو وہاں مقیم 39 لاکھ سے ہے ، جن کی ہمت ہی نہیں ہورہی، اُن کو اچانک شہریت، جائداد، پرایا دیس، سب سے پیار کر، ہدایت کی دعا کرو ، ہم اقلیت میں ہیں، ہم کیا کر سکتے ہیں ، قانون یہی ہے کے فارمولے یاد آجاتے ہیں۔پھر ہم پوچھتے ہیں کہ یہ ہے وہ زیادہ اسلام ؟
کہاجاتا ہے کہ برطانیہ میں 39 لاکھ کے قریب مسلمان ہنسی خوشی سے رہتے ہیں تاہم 2 علانیہ واقعات میں صرف ایک غیرت مند غازی نکل سکا۔ یہ کوئی نجی کارروائی نہیں ہے ۔ سوشل میڈیا پر اعلان کرکے لائیو نشر کی جاتی ہے۔ آپ تصور کریں کہ یہ سب کس طرف لے جایا جا رہا ہے۔حکومت کے نزدیک یہ سب کوئی جرم ہے ہی نہیں ، ثابت بھی ہوجائے تو ان جرائم پر معمولی جرمانےعائد ہوتے ہیں۔اس طرح مسلمانوں کی مقدسات پر حملے ہو رہے ہیں اوپر میڈیا کی سُرخیاں پڑھ لیں۔پھر بتائیں کہ کون ’شدت پسند‘ ہے اور یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ میڈیا نے سوئیڈن میں ملعون سلوان مومیکا جو حالیہ عرصے میں یورپ میں قرآن مجید کی بے حرمتی کا بانی ہے اُس کی موت کو موضوع بنایا ہے۔ جعلی انسانی حقوق پر رونا گانا مچا ہوا ہے۔
جب اِن کو یہ آیت مبارکہ یاد دلائی جائے:
قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ ن ِقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ(24)
تم فرماؤ: اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا خاندان اور تمہاری کمائی کے مال او ر وہ تجارت جس کے نقصان سے تم ڈرتے ہو اور تمہارے پسندیدہ مکانات تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیاد ہ محبوب ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
بس یہ اُصول جان لیں کہ مدد کا وعدہ آج بھی سچا ہے ۔مگر یہ سارا وعدہ تکالیف سہنے کے بعد ہے۔ تکلیف سے پہلے نہیں۔ تازہ تازہ غزہ کی زندہ مثال سے ہی سمجھ لیں۔
تبصرہ لکھیے