ہوم << بلوچ ایک محب وطن قوم- نسیم الحق زاہدی

بلوچ ایک محب وطن قوم- نسیم الحق زاہدی

بلوچ قوم اپنی مہمان نوازی ،جر أت او ر ایفائے عہد کی وجہ سے مشہور ہیں ۔بلوچ کے لفظی معنی ’’بلند تاج‘‘کے ہیں۔بلوچ نسلاً عربی ہیں تاہم بلوچ کو مختلف ادوار میں مختلف قوموں نے بعل ،بلوص ،بلوس ،بلوث اور بلوچ لکھا اور استعمال کیا ہے. اہل بابل اپنے قومی دیوتاکو بعل یعنی عظیم کہا کرتے تھے ۔ہمارے ہاں لفظ بلوچ فارسی سے مشہور ہوا۔بلوچ قوم کی وجہ شہرت میں ان کی منفرد ثقافت کا بھی ایک اہم کردار ہے جسے برطانوی اور فرانسیسی ماہرین آثار قدیمہ کی سروے ٹیموں نے دوسری قدیم ثقافتوں کے مقابلے میں ایک مضبوط ثقافت قرار دیاہے۔بلوچی خواتین کے حسین وجمیل ملبوسات اپنی خوبصورت کڑھائی اور ڈیزائننگ کے باعث دنیا بھر کی توجہ کامرکز رہے ہیں۔بلوچ مردوں کے لباس بھی انتہائی دلکش اور جاذب نظر ہوتے ہیں۔

بلوچوں کے پاس ایک نظم کے سوا کوئی قدیمی مواد نہیں ۔اس نظم میں آیا ہے کہ وہ آپﷺ کے سگے چچا سیدنا امیر حمزہ ؓ کی اولاد ہیں اور حلب سے آئے ہیں ۔یہی درست معلوم ہوتا ہے ۔اس میں مزید یہ بیان ہوا ہے کہ انہوں نے کربلا میں حضرت حسین ؓ کا ساتھ دیا تھا اور ان کی شہادت کے بعد وہ بامپور یا بھمپور پہنچے اور وہاں سے سیستان اور مکران آئے ۔بلوچ قوم کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے نہ صرف کربلا میں حضرت امام حسین ؓ کا ساتھ دیابلکہ ان دنوں جب رسول کریمﷺ مکہ میں تھے تو بلوچوں نے اپنے قبائل سے پانچ بہادر منتخب کرکے رسول کریم ﷺ کی حفاظت کے لیے بھیجے. اس بات کا پتہ بھی ہمیں بلوچی کی ایک نظم سے چلتا ہے ۔

بلوچوں کی معاشرتی زندگی میں وعدہ خلافی کے علاوہ جھوٹ بولنا معیوب سمجھا جاتا ہے ،سچ بولنا بلوچوں کا شیوہ ہے اور جھوٹ ایمان کی کمزوری کی نشانی ہے ۔بلوچ معاشرے میں جو کوئی جھوٹ بولے او وعدہ خلافی کرے تو ان کے معاشرے میں کوئی مقام وعزت نہیں ہوتی اور ان کی نظر میں وہ شخص زندہ نہیں بلکہ مردہ ہے۔ بلوچ لوگ عورتوں اور بچوں پر کبھی ہاتھ نہیں اٹھاتے۔ بلوچوں کے چند مشہور قبائل رند، لاشاری، جتوئی، مینگل، مری، بلیدی، بگٹی، رئیسانی، میروانی، کہرانی، کرد، جعفری، بلوچ ، میرالی، جمالی، ھوکانی، ہوتی اور زرداری وغیرہ ہیں۔

بلوچ ایک غیور اور محب وطن قوم ہے اور ان کی پاکستان سے وفاداری ڈھکی چھپی نہیں۔یہی وجہ ہے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کو بلوچ قوم اور بلوچستان سے خصوصی لگاؤ تھا. بلوچستان میں قائد اعظم کے دوروں کا آغاز 1934ء کے وسط سے ہواتھا. اس وقت انہوں نے صوبے میں دوماہ قیام کیا،جس میں انہوں نے کوئٹہ اور زیارت کے علاوہ مستونگ، قلات، پشین، بولان اور سبی سمیت اندرون بلوچستان کے متعدد دورے کیے جو آپ کی اس خطے سے والہانہ محبت کا واضح ثبوت ہے۔ آپ نے فرمایا تھا کہ :’’بلوچستان بہادر اور حریت پسند لوگوں کی سرزمین ہے‘‘۔

بلوچ قوم قائد اعظم سے والہانہ محبت کرتی تھی جس کا ثبوت یہ ہے کہ جب آپ صدر آل انڈیا مسلم لیگ کی حیثیت سے 1943ء میں کوئٹہ تشریف لائے تو 21توپوں کی سلامی دی گئی، جبکہ آپ سے پہلے صرف وائسرائے ہند کو یہ پروٹوکول دیا گیا تھا۔14ستمبر 1945کو بابائے قوم نے جب بلوچستان کا دورہ کیا ۔آپ کراچی میل کے ذریعے کوئٹہ تشریف لائے، ہر اسٹیشن پر والہانہ استقبال دیکھنے میں آیا ۔اس انداز میں استقبال کی پہلے کوئی مثال نہیں ۔جھٹ پٹ اسٹیشن پر لوگ کئی گھنٹوں پہلے موجود تھے جس میں بلوچی سردار اپنے قبیلوں سمیت حاضر تھے۔واضح رہے کہ جناح کیپ کے نام سے شہرت پانے والی اور بابائے قوم کی شخصیت کا حصہ بن جانے والی قراقلی ٹوپی بھی آپ کو کوئٹہ ہی میں پیش کی گئی تھی۔کہا جاتا ہے کہ خان آف قلات نے قائد اعظم ؒ کو سونے چاندی میں تولا تھا،اور تقسیم ہند کے وقت قلات،لسبیلہ،مکران اور خاران کے خان اور نوابوں نے انگریز حکومت کی طرف سے آزاد رہنے کی پیش کش کو اپنے پاؤں سے ٹھوکر ماردی اور قائد اعظم کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے پاکستان کے ساتھ الحاق کرلیا۔خان معظم میر احمد یار خان ،خان آف قلات کو قائد اعظم اور پاکستان سے اتنا لگاؤتھا کہ انہوں نے قائد اعظم سے کہا تھا کہ ’’اگر خداانخواستہ پاکستان نہ بن پایا تو بے شک قلات کا نام پاکستان رکھ دیجیے گا.‘‘

قائد اعظم محمد علی جناح نے 4فروری 1948کو سبی دربار میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھا :’’آپ سب کو علم ہے کہ میرا بلوچستان کے ساتھ تعلق ایک طویل عرصے پر محیط ہے ۔جب میں پلٹ کر ان ایام پر نظر ڈالتا ہوں جب اس صوبے کے عوام نے میرے ساتھ شانے سے شانہ ملاکر جدوجہد آزادی میں حصہ لیا تو مجھے ایک گونہ اطمینان ہوتا ہے ۔اپنے مقاصد کے حصول کے لیے آپ نے پاکستان کے دیگر صوبوں کے بھائیوں کے مقابلے میں کچھ کم حق ادا نہیں کیا۔‘‘بانی پاکستان نے بلوچ قوم اور بلوچستان سے اپنی محبت کا ثبوت قیام پاکستان کے بعد سبی میں پہلے سالانہ دربار میں فروری 1948ء میں طبیعت کی خرابی کے باوجود شرکت کرکے بھی دیا۔بلوچستان سے محبت اور انس کا یہ عالم تھا کہ قائد اعظم ؒ نے اپنی زندگی کے آخری ایام زیارت میں میں گزارے ،علالت کے باوجود آپ نے کسی بڑے شہر جانے کے بجائے زیارت کو کو ترجیح دی۔یہی وجہ ہے کہ اہل زیارت آپ کو بابائے محبت کے نام سے پکارتے تھے۔

بلوچستان کی مملکت پاکستان اور دین اسلام سے محبت کااظہار مولانا ظفر علی خان نے ان الفاظ سے کیا تھا:

مردان مجاہد ہیں گردان بلوچستان
دبتے نہیں باطل سے شیران بلوچستان
جس وقت سے قاسم نے گاڑا ہے یہاں جھنڈا
لغزش میں نہیں آیا ایمان بلوچستان
کیا لائیں گے خاطر میں خم خانہ ء لندن کو
مست مے یثرب ہیں رندان بلوچستان
وہ وقت بھی آتا ہی دیکھوگے ان آنکھوں سے
دارا وسکندر کو دربان بلوچستان
اسلام کی عزت پر سوجان سے قرباں ہے
ملت کو نہ بھولے گا احسان بلوچستان

افسوس کہ آج ان غیور اور محب وطن بلوچوں کی صفوں میں چنددہشت گرد بلوچیت کا لبادہ اوڑھ کر گھس چکے ہیں جنھوں نے بلوچ نوجوان نسل کے سامنے تاریخی حقائق کو مسخ کر پیش کیا ،جبکہ بلوچستان کے عوام پاکستان کا حصہ بننے کی خواہش رکھتے تھے. تکلیف دہ امر یہ ہے کہ یہ ملک دشمن عناصر ڈالروں کے لیے اپنے آباؤ اجداد کے وطن پرستی کا راستہ چھوڑ چکے ہیں ،مگر عنقریب وہ سیدھے راستے پر آجائیں گے۔کیونکہ اقبالؒ ناامید نہیں ہے اپنی کشت ویراں سے۔

آخر میں اپنے محب وطن بلوچ بھائیوں سے التماس ہے کہ پاکستان ہمارا گھر ہے اور گھر کی حفاظت کرنا گھر کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے ۔ملک دشمنوں کا سہولت کار،آلہ کار نہ بنیں بلکہ اپنی ریاست کے محافظ بنیں ،دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ریاست کا ساتھ دیں۔بلوچستان زندہ باد۔۔۔۔پاکستان پائندہ باد