ہوم << ."ح" سے حلوہ - رفیع عباسی

."ح" سے حلوہ - رفیع عباسی

"ح" مولوی حضرات کا پسندیدہ حرف ہے کیوں کہ اس سے "حلوہ " بنتا ہے۔ وہ بچوں کو قاعدہ پڑھاتے ہوئے ان کے "حلق"سے "حلوہ" نکلوانے کی کوشش کرتے ہیں اور بار بار بچے کا کان کھینچتے ہوئے دہراتے ہیں کہ "حلق سے نکالو، "حلوہ"۔ شب برات "مذہبی عبادات" کے علاؤہ حلوہ کا سالانہ تہوار بھی ہوتا ہے جس میں ہر گھر میں ہمہ اقسام کے حلوے بنتے ہیں، مثلاً سوجی اور بیسن کا گیلا اور سوکھا قتلے والا حلوہ، چنے کی دال کا حلوہ، مونگ کی دال کا حلوہ، ماش کی دال کا حلوہ، چاول کا حلوہ وغیرہ شامل ہیں۔

ہمیں بھی حلوہ پسند ہے اس لئے شب برات کو بطور خاص اس نعمت خداوندی سے کام و دہن کو تسکین دینے کے لئے "دعوت حلوہ" اڑانے رشتے داروں اور دوستوں کے گھر بھی جاتے ہیں۔ عام دنوں میں ہم حلوائی کی دکان سے گاجر کا، لوکی کا اور حبشی حلوہ خرید کر کھاتے ہیں۔ گزشتہ سال بھی شب برات کا با برکت دن تھا جب اس دن کی مناسبت سے مسلم امہ کی ایک بیٹی نے عربی رسم الخط میں حلوہ لکھے ڈیزائن والی قمیص پہن لی تھی اور اپنے مجازی خدا کے ساتھ خریداری کرنے لاہور کی اچھرہ مارکیٹ پہنچ گئی۔ شوہر کی قربت ہونے کی وجہ سے وہ یہ سمجھ بیٹھی تھی کہ میرا "مجازی خدا" میرا محافظ بن کر میرے ساتھ ہے، وہ ہر خطرے سے اسے بچانے کی ہمت رکھتا ہے۔ اسے کیا معلوم تھا کہ قمیص پر عربی رسم الخط میں تحریر کردہ حلوہ کا ڈیزائن "ح" کے نیچے ایک نقطہ لگانے سے "ج" بن جاتا ہے اور ح سے حلوہ، ج سے جلوہ بن کر اپنی جلوہ گری دکھاتا ہے جو بعض اوقات کسی کی ناگہانی موت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

مذکورہ واقعے کے مرکزی کردار مولانا صاحب اس دن شب برات کا اتنا حلوہ کھاچکے تھے کہ اب انہیں حلوے کے نام سے بھی چڑ ہونے لگی تھی اور وہ مولوی حضرات کی دوسری پسندیدہ خوراک "مرغی" تناول فرمانا چاہتے تھے لیکن ان کے اہل خانہ بار بار ان کے آگے حلوہ رکھ دیتے۔ اس لئے غصے کے عالم میں گھر سے نکلے اور "تلاش مرغ" میں دوپہر کے کھانے کے وقت اپنے کئی اعزا کے گھر گئے لیکن انہوں نے بھی مولوی صاحب کے آگے مرغ مسلّم کی بجائے حلوے کی پلیٹ لاکر رکھ دی۔ اب تو مولوی صاحب کا پارہ "آب پارہ" تک جاپہنچا اور وہ حلوے کی پلیٹ جوں کی توں چھوڑ کر ان کے گھر سے بھی واک آؤٹ کرگئے اور اسی عالم میں کسی ہوٹل کی تلاش میں بھٹکتے ہوئے اچھرہ مارکیٹ جا پہنچے۔ راستے میں ان کے چند معتقدین بھی ساتھ ہوگئے تھے۔

جب وہ اچھرہ مارکیٹ پہنچے تو ان کی نظر ایک خاتون پر پڑی جن کی قمیص پر عربی رسم الخط میں جگہ جگہ حلوہ لکھا ہوا تھا۔ یہ دیکھ کر ان کی حلوے سے چڑ دو آتشہ ہوگئی، انہوں نے قمیص پر چھپے ہوئے الفاظ کو آیات ربانی سمجھا جس کی وجہ سے ان کی غیرت ایمانی جاگ اٹھی۔ وہ اس قمیص کو حلوے کی پلیٹ سمجھ کر توڑنے پھوڑنے پر آمادہ ہوگئے۔ انہوں نے مذہبی انتہا پسندی کا سہارا لے کر بازار میں غیظ و غضب کا طوفان برپا کردیا اور مذکورہ خاتون کے پیراہن پر چھپی تحریروں کو آیات قرآنی قرار دے کر وہاں اکٹھا ہونے والے افراد کے دلوں میں جوش ایمانی جگانے کے لئے اس پر توہین قرآن کے مرتکب ہونے کا فتوٰی صادر کرکے اسے واجب القتل قرار دے دیا۔

ان کے فتوے کے بعد صورت حال اتنی سنگین ہوگئی کہ مذہبی جنونی "اسلام کو خطرے" میں دیکھ کر خاتون کی قمیص کے ساتھ ساتھ اس کے جسم کے بھی چیتھڑے اڑانے کے درپے ہوگئے۔ لیکن چند دکانداروں نے انسانی ہمدردی کے ناتے اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر دختر مشرق کو "عزرائیلیوں یا ملک الموت" کے نرغے سے نکال کر ایک دکان میں بند کردیا اور علاقہ پولیس کو اس واقعے کی اطلاع کردی۔ رب کائنات نے علاقے کی خاتون اے ایس پی شہر بانو کو فرشتہ بنا کر بھیج دیا جو خاتون کو مشتعل افراد کے نرغے سے نکال کر لے گئیں جس کی وجہ سے اس کی جان بچ سکی۔

Comments

رفیع عباسی

رفیع عباسی سینئر صحافی اور مزاح نگار ہیں۔ جنگ، جسارت، مارننگ نیوز سمیت کئی اخبارات و جرائد میں کام کر چکے ہیں۔ ان دنوں ایک آن لائن روزنامہ میں ریذیڈنٹ ایڈیٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ اندرون و بیون ملک کئی اخبارات و رسائل کےلیے لکھتے ہیں۔ طنزیہ و مزاحیہ مضامین کی کتاب "نام میں کیا رکھا ہے" کے مصنف ہیں۔

Click here to post a comment