مسجد نبوی ﷺ کا چپہ چپہ عاشقان رسول ﷺ سے بھر چکا تھا. کرہ ارض کے دوردراز علاقوں سے پروانے اپنی عقیدتوں کے پھول نچھاور کرنے شہر مدینہ میں آئے ہوئے تھے. یہاں آنے والوں کی زبان، تہذیب، جغرافیائی حالات، تاریخ، رسم و رواج تو ایک دوسرے سے بہت مختلف تھے لیکن ان سب میں عشق رسولﷺ مشترک تھا۔ سب کے چہرے عشق رسولﷺ کی آنچ سے دمک رہے تھے، یہ ایک دوسرے کی زبان نہیں سمجھتے تھے لیکن ایک دوسرے کو مسکرا مسکرا کر دیکھ رہے تھے. میں ان کو دیکھ کر اور خود کو کرہ ارض کے عظیم ترین انسانوں میں پا کر یا اس منظر کا حصہ بن کر دنیا کا خوش قسمت انسان سمجھ رہا تھا. مجھے رشک آرہا تھا کہ شہر مدینہ جس کو سرتاج الانبیا نے قیامت تک کے لیے مکہ کے بعد دنیا کا ممتاز ترین شہر بنا دیا تھا، کو جس دن سے سیدالانبیا نے اپنا مسکن بنایا، اس دن سے آج تک اور قیامت تک کرہ ارض کے ہر گوشے سے انسان سوالی بن کر دامن پھیلائے ننگے پائوں اس شہر میں آتے رہیں گے. آپ تصور کریں کہ کسی بھی گائوں، شہر یا ملک کا بہترین سے بہترین، بڑے سے بڑا اور متقی سے متقی انسان ساری عمر دست دعا پھیلائے رہتا ہے کہ مدینہ کی ہوائوں اور فضائوں میں جا سکے، سانس لے سکے، گنبد خضری کی ایک جھلک دیکھ سکے، روضہ رسولﷺ کے سامنے سوالی بن سکے.
مدینہ وہ شہر ہے جہاں پر کائنات کے سب سے بڑے انسان آسودہ خاک ہیں، اس شہر کی مٹی کو سعادت حاصل ہے جہاں پر سرتاج الانبیا ﷺ کا جسم اطہر قیامت تک موجود ہے. شہر مدینہ کے بارے میں سرور کونین ﷺ نے فرمایا تھا کہ مدینہ امن کی معراج پر ہے کیونکہ اس کی گزر گاہیں فرشتوں کے پہرے میں ہیں. آقا دوجہاں ﷺ نے فرمایا کہ اس کے ہر راستے پر پہرے دار فرشتے مقرر ہیں بلکہ یہ شہرچاروں جانب سے فرشتوں کے پہرے میں ہے. دجال اس کی طرف آئے گا تو دیکھے گا کہ یہاں فرشتے حفاظت پر مامور ہیں، یہ شہر دجال سے محفوظ ہے، دجال اس کے قریب آئے گا لیکن اس کے راستے اس کے لیے بند ہوںگے (امام بخاری). مزید فرماتے ہیں کہ ایمان مدینہ میں یوں سمٹ آئے گا جس طرح سانپ اپنی بل میں سمٹ آتا ہے. پیارے آقاﷺ فرماتے ہیں کہ مجھے ایک ایسی بستی کی جانب ہجرت کا حکم دیا گیا ہے جو دوسری بستیوں کو کھا جائے گی یعنی اسے سب پر غلبہ حاصل ہوگا جیسے لوگ یثرب کہتے ہیں اور وہ یہی مدینہ ہے(امام بخاری) سرور کائنات فرماتے ہیں کہ مدینہ گناہوں اور خطائوں کو مٹا دیتا ہے ‘یہ طیبہ ہے اور گناہوں کو اسی طرح مٹاتا ہے جیسے آگ چاندی کا کھوٹ دور کردیتی ہے. مدینہ جو وبائوں اور بیماریوں کا شہر تھا رحمت دوجہاں ﷺ کے مقدس نعلین مبارک نے جیسے ہی اس شہر کی مٹی کو چھوا، یہ شہر تمام بیماریوں اور وبائوں سے ہمیشہ کے لیے پاک ہوگیا.
دنیا بھر سے آنے والے پردیسی جیسے ہی اس شہر جاناں میں قدم رکھتے ہیں، ہوا کا پہلا جھونکا جب ان کو چھوتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کوئی عطر بیز لطیف لوزانی چیز روح کے پردوں کو چیرتی ہوئی روح کے بعید ترین اور عمیق ترین گوشوں کومعطر اور منور کر گئی ہے. اس حسیں احساس کے ساتھ ہی ساری تھکاوٹیں پل بھر میں دور ہو جاتی ہیں، ہوا کے پہلے جھونکے سے ہی وہ سرشاری، طاقت، حلاوت اور نشہ سرور ملتا ہے کہ جس کی لذت مرتے دم تک یاد آتی ہے. لگتا ہے مدینہ کی ہوائیں، فضائیں شیریں شہد سے بھیگی ہوئی ہیں جس کی مٹھاس مرتے دم تک انسان محسوس کرتا ہے. مدینہ چمنستان بستی کا مہکتا ہوا وہ سدا بہار پھول ہے جس کی مہک تازگی گزار اور لطافت سے بھرپور ہے. جس کے رنگ اور مسحور کن خوشبو آنے والے کو اپنے سحر میں جکڑ دیتی ہے، اس شہر کی عطر بیز مشک بو فضائوں میں ایسا سحر ہے کہ ہزاروں میل دور سے آنے والا مسافر اس کی مسحور کن خوشبو کو محسوس کرتاہے تو اپنے جذبات و احساسات پر قابو نہیں رکھ سکتا. سرشاری اور مسحور کن سرمستی اور کیفیت کا اندازہ وہی کر سکتا ہے جس نے برسوں اس گوشہ جنت میں آنے کی آرزو میں لمبی راتیں اور آتشیں دن کاٹے. وہ جس نے دن رات ذکر، اذکار، نوافل اور عبادات کی ہیں، اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ مرنے سے پہلے اپنی آنکھوں کو گنبد خضری کے عکس جمیل سے منور کرے. شمع رسالت ﷺ کے پروانے دن رات موسلادھار برسات کی طرح اس شہر میں آتے ہیں اور اپنی عقیدتوں کے پھول آقائے دوجہاں ﷺ کے قدموں میں ڈھیر کر دیتے ہیں. بڑے سے بڑا گنہگار، سیاہ کار، سخت دل، ظالم جب اس در پر گیا تو باقی زندگی عبادت اور تقوی میں گزار دی. جس نے چند گھڑیاں مسجد نبوی ﷺ میں گزاری ہیں، جس نے روضہ رسولﷺ کے سامنے اپنے آنسوئوں کا نذرانہ پیش کیا ہے، اس نے دوبارہ پھر کبھی گناہ کی طرف مڑ کر بھی نہ دیکھا. جو ایک بار یہاں آگیا وہ پھر یہیں کا ہوکر رہ گیا. جس کی اندھی بےنور روح کو یہاں روشنی ملی وہ پھر کبھی بھول کر اندھیرے کی طرف نہ گیا.
دنیا کے کسی اور شہر کو یہ سعادت حاصل نہیں جو اس شہر کو حاصل ہے کہ کرہ ارض میں ایک بھی مسلمان ایسا نہیں جس نے یہ آرزو نہ کی ہو کہ وہ مرنے سے پہلے ایک بار اس مسجد نبویﷺ میں نہ جائے جس کی مٹی میں سرور کونین ﷺ کے معطر پسینے کی خوشبو رچی بسی ہے، جہاں پر آقائے دوجہاںﷺ نے کتنے شب وروز گزارے. آپ کے تربیت یافتہ صحابہ کرام اور پھر 14 صدیوں سے ہر دور کا بڑے سے بڑا مفتی اور کون عالم دین ہوگا جس نے اس کوچہ جاناں میں آنے کی حسرت اور خواہش نہ کی ہو.
میں سرشاری و مستی میں بیٹھا دنیا جہاں سے آئے ہوئے عاشقوں کو دیکھ رہا تھا. پھر اس تصور کے ساتھ لمبی لمبی سانسیں لیں، اس خیال کے ساتھ کہ محبوب خدا ﷺ کی معطر سانسوں نے مسجد نبویﷺ کو معطر کیا ہوگا. پھر میں نے گداز قالین پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا کہ اس کے نیچے وہی مقدس مٹی ہے جس میں سرور دو جہاں کے جسم اقدس کو چھونے والے ذرات بھی ہوں گے اور یہیں کہیں آپ ﷺ کے جسم اطہر کے معطر پسینے کے ذرات جذب ہوئے ہوں گے. اس تصور کے ساتھ ہی خوشی و مسرت اور خود پر رشک اور اپنی قسمت پر نازاں ہونے کا احساس غالب ہو گیا اور آنکھوں میں مسرت و سرشاری کے آنسو تیرنے لگے اور موتیوں کی لڑی آنکھوں سے جھڑنے لگی. کتنی دیر میں اس نشاط انگیز کیفیت میں ڈوبا رہا، مبہوت سا مسجد نبویﷺ کے مختلف کونوں کو دیکھ رہا تھا اور پھر ایک طرف عاشقان رسولﷺ کا بہت زیادہ ہجوم دیکھا، دیوانے پروانوں کی طرح ادھر والہانہ طور پر جا رہے تھے، خیال آیا کہ یہ تو ریاض الجنہ ہے جس کے بار ے میں شافع محشرﷺ نے فرمایا تھا کہ مسجد نبویﷺ کا وہ حصہ جو روضہ رسولﷺ اور منبر مصطفی ﷺ کے درمیان واقع ہے بقیہ سب حصوں سے ممتاز اور محترم ہے، اس حصے کو سرتاج الانبیاء ﷺ نے ریاض الجنہ کا نام عطا فرمایا. اس مخصوص ٹکڑے سے متعلق حدیث مبارکہ ہے کہ میرے گھر اور منبر کے درمیان والی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یعنی یہ حصہ جنت کا ٹکڑا ہے جو اس دنیا میں اتارا گیا. قیامت کے دن یہ ٹکڑا واپس جنت کی طرف اٹھا لیا جائے گا. 14 صدیوں سے دنیا بھر سے آئے ہوئے مہمان جب بھی مسجد نبویﷺ میں داخل ہونے کی سعادت حاصل کرتے ہیں تو ان کی اولین خواہشوں میں ایک یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ ریاض الجنہ میں چند گھڑیاں گزار سکیں، چند نوافل، نمازیں اور ذکر اذکار کرسکیں. اس جگہ کی یہ خاص کرامت اور شان ہے کہ چاہے جتنا بھی رش ہو جیسے ہی آپ ریاض الجنہ کے قریب آتے ہیں تو آپ کو فوری زمین پر جنت کے اس بے نظیر و بے مثال ٹکڑے میں داخل ہونے اور نوافل ادا کرنے کا موقع مل جاتا ہے. بلاشبہ زمین پر یہ جنت کا ٹکڑا ہے جہاں عبادت کی خواہش ہر مسلمان کی ہوتی ہے۔
تبصرہ لکھیے