انسانی جبلت ہے کہ انسان سیکھنے کے عمل کو پسند کرتا ہے اور اسی کو اپنی ترقی و عروج کا ضامن سمجھتا ہے. سیکھنے کا عمل اس عالم ہستی میں اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ انسان خود اور عقل سلیم کا تقاضا ہے کہ سیکھنے کے عمل کو معیاری اور با مقصد بنانے کے لیے کسی سکھانے والے کا ہونا ناگزیر ہے. انسان از خود چاہے جتنی ہی بلندیاں طے کرے، بہرحال اسے کوئی نہ کوئی سکھانے والا ضرور ہوتا ہے اور جس قدر یہ عمل ہمارے دنیوی امور کے لیے ضروری ہے اس سے کئی گنا زیادہ ہمارے دینی امور کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔
مشاہدہ عالم یہ امر واضح کرتا ہے کہ دنیا کا کوئی بھی طبیب فقط طب کی کتابوں کو کھنگال کر طبیب نہیں بن جاتا اور نہ ہی اس طبیب کے ہاتھوں کوئی مجبور ترین شخص بھی اپنے مریض کو حوالہ کر سکتا ہے، لہذا جس قدر تعلیم ضروری ہے اسی قدر ’’معلم‘‘ ضروری ہے اور جس طرح معاشرتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے علم ضروری ہے، اسی قدر اس علم کے سکھلانے اوراس کی آبیاری کرنےوالے ’’اہل علم وعلماء‘‘ بھی معاشرے کی تکمیلیت کے لیے ضروری ہیں۔
دین اسلام میں علماء کی حیثیت اور ان کے فرض منصبی کو جاننے کے لئے ’’علم‘‘ کی حیثیت اور مقام و مرتبہ کا جاننا بےحد ضروری ہے، علم کی حیثیت جاننے کے بعد جس قدر فضیلت علم کے لیے بیان ہوگی اتنی ہی بلکہ اس سے کہیں زیادہ ان اہل علم کی (جو علم سکھانے والے ہیں) یعنی علماء کی ہوگی اور جس قدر علمیت (قرآن، حدیث، اجماع، قیاس) کا بول بالا ہوگا، اس کی فضیلت، انفرادیت اور جامعیت کا تذکرہ ہوگا ٹھیک ایسے ہی اس علمیت کے علمبردار یعنی علمائے دین جو اس کے لیے اپنے تن من دھن کی بازی لگائے ہوئے ہیں، کا مقام سمجھا جائے گا، دین کے حقیقی رموز شناس یہی علماء ہیں، انہوں نے علم دین سینہ بہ سینہ سیکھنے کی روایت کو بر قرار رکھتے ہوئے اس کی کڑی کو کڑی سے ملانے کا فریضہ انجام دیا ہے۔
علمائے امت کی ان مساعی کو سراہتے ہوئے اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں
[pullquote] فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (النحل:۴۳)
[/pullquote]
’’اگر تمہیں اس بات کا علم نہیں ہے تو جو علم والے ہیں ان سے پوچھ لو‘‘. اس آیت مبارکہ میں جہالت کی تاریکی کو علم کی روشنی میں تبدیل کرنے کا نسخہ بتایا گیا ہے اور اس نسخہ کا منبع و مرجع اہل ذکر یعنی علماء ہی کو قرار دیا ہے اور اپنی جہالت اور لاعلمی کی پیاس کو انھی کے ذریعے بجھانے کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔ علمائے کرام کے مقام اور منصب کو بیان کرتے ہوئے بکثرت روایات موجود ہیں، ان میں علم، طریق علم، استاذ، تلمیذ، دوات بطور خاص شامل ہیں، ان سب باتوں سے واضح ہوتا ہے کہ علمائے کرام کا وجود اس تعلیم و تعلم کے سلسلے کو جاری ساری رکھنے کے لیے ضروری ہے ، چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا [pullquote]إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنْ النَّاسِ وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ(سنن الترمذي،كِتَاب الْعِلْمِ،بَاب مَا جَاءَ فِي ذَهَابِ الْعِلْمِ)[/pullquote]
’’اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں اٹھائےگا کہ اسے لوگوں (کے دلوں) سے کھینچ لے بلکہ علماء کے اٹھ جانے (یعنی وفات) سے علم اٹھ جائے گا‘‘
حدیث مبارکہ کے مطابق فقدان علما فقدان علم کو مستلزم ہے، لہذا جب تک علمائے امت کا تحفظ اور بقا رہے گا تب تک ’علم‘ کا مرتبہ ومقام بلند رہے گا۔ شارحِ بخاری علامہ عینی علم کی فضیلت کو علماء کی فضیلت پر انطباق کرتے ہوئے فرماتے ہیں: [pullquote]قلت بيان فضل العلم يستلزم بيان فضل العلماء لأن العلم صفة قائمة بالعالم فذكر بيان فضل الصفة يستلزم بيان فضل من هي قائمة به(عمدة القاري شرح صحيح البخاري، كتاب العلم، باب فضل العلم)[/pullquote]
’’میں کہتا ہوں کہ علم کی فضیلت کا بیان علماء کی فضیلت کے بیان کو مستلزم ہے، اس لیے کہ علم ایک ایسی صفت ہے جو کہ جو کہ اس کے جاننے والے (عالم) کے ساتھ قائم ہے، لہذا صفت کی فضیلت کا بیان اس شخص کی فضیلت کو بھی بیان کرتا ہے جس کے ساتھ یہ صفت قائم ہے‘‘
نیز حضورﷺ نے ’’علم‘‘ کو انبیاء اور علماء کی مشترکہ میراث قرار دیتے ہوئے فرمایا [pullquote] إِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ إِنَّ الْأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا إِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ(سنن الترمذي، كِتَاب الْعِلْمِ، بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الْفِقْهِ عَلَى الْعِبَادَةِ)[/pullquote]
’’بے شک علماء انبیاء کے وارث ہیں، بے شک انبیاء دراہم و دینار کا وارث نہیں بناتے بلکہ انبیاء تو علم کا وارث بناتے ہیں‘‘
شارح علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں [pullquote]وبتوقير العلماء توقر الشريعة لأنهم حاملوها وبإهانة العلماء تهان الشريعة(شرح رياض الصالحين،آداب عامۃ، باب توقير العلماء والكبار)[/pullquote]
’’علماء کے وقار سے ہی شریعت کا وقار بر قرار رہتا ہے، اس لیے کہ وہی شریعت کے حاملین ہیں اور علماء کی مذمت سے ہی شریعت کی مذمت وابستہ ہے‘‘
سطور بالا سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ علماء کی حیثیت دین میں راہنما کی مانند ہے، جس طرح کسی تحریک اور ادارہ کے لیے کسی رہنما کی رہنمائی ناگزیر ہے جو ان کی مختلف مواقع پر فکری باگ ڈور سنبھالے رہتے ہیں ٹھیک ایسے ہی دین کو اس کی حقیقی روح سمیت سمجھنے کے لیے علمائے کرام کا دامن تلمذ تھامے رہنے کی ضرورت ہے، جو کہ دین اسلام کی پُرحکمت باریکیوں کو آسان کرتے رہتے ہیں۔
تبصرہ لکھیے