اس کائنات میں موجود سبزہ زار، دریا، ندیاں، جھیلیں، بلند و بالا پہاڑ سب فطری مناظر اور دلکشی سے بھرپور ہیں. اور مجھے اس دلکشی نے اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ چلچلاتی دھوپ ہو یا ہونٹوں کو کاٹ دینے والی جاڑے کی سرد ہوائیں دریا کی طرف جانے سے میں اپنے قدموں کو نہیں روک سکتا۔
میں آج بھی حسب معمول دریا کے کنارے پانی کے بہاؤ کی مخالف سمت میں چل رہا ہوں۔ دریا کی موجیں کنارے تک مشکل سے پہنچ پا رہی ہیں۔ ہوا بھی قدرے سست ہی ہے۔ ماحول میں ایک عجب ٹھہراؤ ہے۔ موسم خشک ہونے کے باوجود بھیگا بھیگا محسوس ہو رہا ہے۔ چڑیوں کی چہچہاہٹ اور لہروں کی موسیقی میرے وجود میں سرایت کر رہی ہے۔ خزاں کا موسم اپنے رنگ دکھا رہا ہے۔ کچھ مرے ہوئے پتے اور سوکھی ٹہنیاں دریا کے بہاؤ کو نمایاں کر رہی ہیں۔ دریا کی لہریں پتھر سے ٹکرا کر بکھر رہی ہیں اور میرے ذہن میں ایک ہی سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا سوچ کی بھی لہریں ہوتی ہیں جو چاروں طرف پھیل جاتی ہیں؟
سفید ریت کا جزیرہ میرے خواب جزیروں جیسا ہے۔ وسیع وعریض بیٹ ہے اور بیٹ میں خود رو جھاڑیاں اُگی ہوٸی ہیں یہ جھاڑیاں سرما میں ہجرت کرکے آنے والے آبی پرندوں کا مسکن ہیں۔ ان مسکنوں سے خوش کُن آوازیں آ رہی ہیں جو من کو بہت لُبھا رہی ہیں۔ میرے دل پر "باباۓ تھل فاروق روکھڑی" کے دو شعر دستک دے رہے ہیں
سندھ دریا کے ساحل پر کسی پُر کیف وادی میں۔۔
جو کونجوں کی قطار آۓ تو ساجن پھر چلے آنا۔۔۔
سُریلے بول تیتر کے سُنو جب جھاڑیوں میں تم۔۔
تیرے دل کو جو ٹھار آۓ ساجن پھر چلے آنا۔۔۔۔
میں عصر کے وقت یہاں پہنچا تھا سورج پانی ، ریت اور کھیتوں پر سرخی پھیلا کر ڈوب چکا ہے ۔ سُرمٸ رنگ پر رات غالب آ رہی ہے۔ ہر طرف سکوت ہی سکوت ہے ٹھنڈی ہوا اور چاندنی میں روشن اجلی ہوئی فضا بھی خاموش ہے سارا جہاں اس خاموشی میں ڈوبا ہوا ہے ہر چیز چاندنی کے نور میں نہائی ہوئی ہے دریا میں یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے نور کے خیمے کھڑے ہوں. دور کہیں کوٸی بانسری بجا رہا ہے
بن یار فرید نہ جیواں میں
کیوں انجھی اوکھی تھیواں میں
ہو زہر پیالا پیواں میں
چھٹ پوساں ہولیں سہواں میں
میرے محبوب تیرے بغیر میں ایک پل بھی نہیں گزار سکتی۔ زندگی اب بہت اذیت ناک ہو گٸ ہے۔ میں پیالے میں زہر گھول کر پی جاٶں گی اور تمام تکالیف اور مصیبتوں سے چھوٹ جاٶں گی۔
تبصرہ لکھیے