ہوم << سیاسی اسلام اور صوفی اسلام - ناصر فاروق

سیاسی اسلام اور صوفی اسلام - ناصر فاروق

ناصر فاروق بےشک، مسلمان کا نقصان باہمی تفریق میں ہے، یا غیرمسلم سے پرفریب تعلق میں۔ یہی تاریخ ہے، یہی دین فطرت ہے، یہی تقدیر ہے۔ حال میں دونوں صورتیں حرکت پذیر ہیں. غیرمسلم دنیا اس فریب میں ہے کہ مسلمان ایک ایسا دہشت گرد ہے، جیسا داعش کا قاتل، جوگلے کاٹتا ہے، اور اسلامی تعلیمات کے منافی ہر جرم کا مرتکب ہوتا ہے۔ یہ محض دجل ہے، تفصیل طلب ہے۔ فی الوقت زیرقلم موضوع مسلمان یا مسلمانوں کا داخلی یا اندرونی انتشار ہے، باہمی تفریق ہے، اور تعصب ہے۔ اس کا تازہ ترین نمونہ ترکی ہے. دو متوازی نظریاتی نظاموں کا ٹکراؤ ہے، جو نہ صرف ترکی بلکہ پوری مسلم دنیا کے لیے انتشار اور الجھاؤ کا سبب ہے۔ یہ متوازی نظام مغرب میں ’سیاسی اسلام‘ اور ’صوفی اسلام‘ کے عنوانات سے پیش کیے جا رہے ہیں۔
’صوفی اسلام‘ (واضح رہے کہ اسلام میں صوفی مکتب فکر ہرگز جہاد یا سیاسی اسلام کا منکر نہیں، صوفی مجاہدین کی عمدہ مثالوں میں امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ، سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ، اور جناب بدیع الزماں سعید نورسی رحمۃ اللہ علیہ نمایاں ہیں، جنہیں گولن تحريک اپنا روحانی مرشد بیان کرتی ہے) محض جدید ترکی کا المیہ نہیں، بلکہ چند صدیوں سے مسلم دنیا کا المیہ ہے، جس نے اقامت دین اور جہاد کی راہ میں ہمیشہ رکاوٹیں پیدا کی ہیں۔ ’صوفی اسلام‘ ہمیشہ استعماری قوتوں کا مددگار اور محبوب رہا ہے۔ صوفی ازم کا مختصر تعارف یہ ہوسکتا ہے، کہ صلح جو قسم کے تارک الدنیا افراد کا ایسا طبقہ، جو مغربی سامراجیت اور استعماریت کی راہ میں مزاحم اسلام کو ’سیاست اور جہاد‘ سے پاک کرنے کا کام کرے، یا کم از کم مسخ اور مجروح کرے، دفاعی اور محکوم بنا کر پیش کرے۔ ایک ایسا معاون گروہ جو سیکولر سامراجیت کی منشا کے مطابق ریاست کے ہر معاملے سے دین کو بےدخل کرکے خانقاہوں کی حدود میں مقید کر دے۔ مسلم معاشرے میں صوفی ازم اور سیکولرزم ہم معنی ہے۔ یہاں یہ وضاحت بےمحل نہ ہوگی کہ صوفی ازم محض ’اقامت دین‘ کی حد تک غیرسیاسی ہے، دیگر مالی اور اختیاری معاملات میں دنیاوی آسائشات اور اثر و رسوخ کی خاطر اس کی تگ و دو حیران کُن ہے۔ ترکی کی گولن تحریک اس کی مناسب ترین مثال ہے۔ اس مثال کی صراحت سے پہلے ایک نظر جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی اورگولن تحریک کے متوازی ارتقا اور تنازع پر مفید ہوگی۔
جسٹس پارٹی اور گولن تحریک میں گو ’سیاسی اسلام‘ اور ’ثقافتی اسلام‘ کی نام نہاد نظریاتی تفریق تھی، مگر ترکی کا سیکولر مقتدر حلقہ دونوں ہی کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا رہا، اور یہ دونوں ابتدا ميں فطری اتحادی کے طور پر آگے بڑھے۔ جوں جوں جسٹس پارٹی کی مقبولیت نے ترک عوام کے دلوں میں گھرکیا، گولن تحریک نے بھی پولیس، شعبہ انصاف، اور فوج میں اپنے لوگ چپکے اور منظم طریقے سے داخل کیے۔ جسٹس پارٹی عوام میں اور گولن تحریک اہم اداروں میں اثر و رسوخ بڑھاتے چلے گئے۔ 2002ء میں جسٹس پارٹی اقتدار میں آئی تو سیکولر طبقے نے حکومت کوحسب عادت آنکھیں دکھائیں۔ یہ وہ موقع تھا جب پولیس اور عدلیہ میں موجود گولن تحریک جسٹس پارٹی کی معاون بنی۔ 2011ء میں جب سیکولر اسٹیبلشمنٹ کو کاری ضرب لگی، حکومت اور گولن تحریک میں اختلافات سامنے آنے لگے۔ سب سے پہلے قومی انٹیلی جنس ایجنسی کا بحران پیدا ہوا۔ ایجنسی سربراہ اور اردوان کے قریبی ساتھی ہاکان فدان کوعدلیہ میں موجود گولن نیٹ ورک سے وابستہ حکام نے طلب کیا، اور کرد دہشت گرد تنظیم PKK کے بارے میں پوچھ گچھ کی۔ یہ وہ پہلا موقع تھا جب نیویارک ٹائمز نے سرخی جمائی کہ ’’ترکی میں سکیورٹی فورسز اور انٹیلی جنس ایجنسی کے درمیان اقتدار کی جنگ کا پہلا راؤنڈ شروع ہو چکا۔‘‘ (یعنی نیویارک ٹائمز والے حالیہ راؤنڈ سے بھی پیشگی واقف تھے) جسٹس پارٹی کے ووٹرز نے اسی وقت محسوس کر لیا کہ ریاست کے اندر ایک اور ریاست کا نظام حرکت میں ہے۔
2013ء میں اردوان حکومت نے گولن تحریک کے تعلیمی اداروں کی بندش کا ارادہ کیا، یہ ادارے تحریک کی مالیاتی اساس تھے۔ گولن کے زیراثر میڈیا نے حکومت کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کیا۔ اب کُھلی جنگ شروع ہوچکی تھی۔ اسی سال دسمبر میں گولن نیٹ ورک کے پراسیکیوٹر زکریا اوز نے استنبول میں علی الصبح تین وزرا کےگھروں پرچھاپے مارے، جوتوں کے ڈبوں میں بھرے کرنسی نوٹ برآمد کیے، انہیں مبینہ کرپشن کی رقوم قرار دیا، اور میڈیا کے سامنے پیش کر دیا۔ حکومت نے اسےگولن نیٹ ورک کی سازش قرار دیا، جبکہ گولن تحریک کا کہنا تھا کہ جسٹس پارٹی اپنی کرپشن چھپا رہی ہے۔ (عالمی پابندی کے دوران ایران سے خفیہ تجارت پر ملنے والا کیش ترک وزرا نے بینکوں کے بجائے گھروں میں محفوظ کیا تھا، گولن نواز پراسیکیوٹر نے موقع مناسب جان کر چھاپا مارا۔) غرض، یہ واضح تھا کہ گولن تحریک نے منتخب جمہوری حکومت کوگرانے کی کوششیں کئی سال پہلے ہی شروع کردی تھیں۔ پندرہ جولائی کی بغاوت نے صورتحال صاف کردی۔
یہاں اردوان مخالف سیکولراخبار نویس ایزگی بساران کے تازہ مضمون کا ضروری حصہ اس حوالہ سے چشم کشا ہوگا۔ خاتون لکھتی ہے کہ، ’’یہ حق ہر ایک کو حاصل ہے کہ وہ ناکام بغاوت کے بعد، ترک حکومت کے اقدامات میں انسانی حقوق کي پامالیوں کی نشاندہی کرے۔ مگر یہ حق کسی کو نہیں پہنچتا کہ حقوق انسانی کے نعرے کو مسٹر گولن کی خفیہ تنظیم، جو بلامبالغہ ریاست کے اندر ریاست کے طور پر کام کر رہی تھی، کے لیے ڈھال کے طور پر استعمال کرے۔ گولن نیٹ ورک نے رواں ماہ ترک معاشرے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ مسٹر گولن کی شخصیت اور ان کی تحریک مغرب میں بین المذاہب ڈائیلاگ اور امن پسند تحریک کے طور پر جانی جاتی ہے، جبکہ اس چیز کا حقیقت سے زیادہ تعلق نہیں ہے۔ گولن اپنے ماننے والوں کے نزدیک ایک ایسے منتظم کی حیثیت رکھتے ہیں جس نے عدلیہ، فوج اور پولیس سمیت تمام اداروں میں اپنا ایک ایسا خفیہ جال بچھا رکھا ہے جو میکائولی کے نظریہ مکاری کے تحت ترکی میں اپنے اہداف حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ان کے ماننے والے اپنے ادارے یا ملک کے مقابلے میں اپنے رہنما کے ساتھ زیادہ وفادار رہتے ہیں۔ حالیہ ناکام بغاوت کا الزام گولن نیٹ ورک پر محض گمان کی بنیاد پر نہیں ہے، ٹھوس شواہد موجود ہیں، جنہیں بدقسمتی سے لمبے عرصہ تک نظرانداز کیا گیا۔ ملٹری پراسیکیوٹر احمد زکی یوکوک نے 2009ء میں، ترک آرمی کے اندر گولن تحریک کے ایک وسیع نیٹ ورک کا پتہ چلایا تھا۔ آخر میں یہ حقیقت کہ اس بارے میں ترک عوام، تمام اپوزیشن پارٹیاں اور ان کے رہنما اور فوج کے وہ افسران جو بغاوت کا حصہ نہیں تھے، اس بات پر یکسو ہیں کہ یہ کام گولن نیٹ ورک والوں کے علاوہ کسی اور کا نہیں۔‘‘ ایک سیکولر اخبار نویس کی جانب سے حالیہ بغاوت پر یہ رائے قابل قبول بیانیہ ہے۔ سازش کی گرہیں اس حد تک کُھل چکی ہیں، کہ ترکی کے وزیرانصاف نے کہا ہے کہ کامیابی کی صورت میں گولن خمینی کی مانند ترکی لوٹنا چاہتے تھے۔
غرض، اب شمہ بھر بھی شبہ نہیں رہ جاتا کہ پندرہ جولائی کا غدر گولن نیٹ ورک کا سنگین جرم تھا، جسے ترک قوم نے اعلانیہ خس و خاشاک کر دیا۔ گولن صاحب نے نہ جانے کس شرعی حجت یا علمی حیلے کی بنیاد پر بغاوت میں ملوث نہ ہونے کا بیان دیا، اس سے ان کی دینی ساکھ بھی یقینا داؤ پر لگ چکی ہے۔ اب ہو کیا رہا ہے؟ انقلابی حکومت انقلابی تطہیر میں مصروف ہے، جس پر پورا مغرب گویا غل غپاڑہ مچا رہا ہے۔ مغربی جمہوری تعلیمات اور صوفی ازم کی سیاست میں عدم دلچسپی کے دعووں سے قلعی اتر گئی ہے۔ اچھی بھلی لبرل دنیا تلملاہٹ میں مبتلا ہے۔ فلسفہ انقلاب ایک سو اسی کی ڈگری پر الٹا گھوم چکا ہے۔ اچھے خاصے معقول دانشور اور سنجیدہ ذرائع ابلاغ بھی اردوان دشمنی میں انتہاپسند ہوئے جاتے ہیں۔ اس ساری صورتحال میں باقی دنیا کے لیے کیا اسباق ہیں؟
یہ کہ مسلم امہ ہر وہ محکوم، دفاعی، اور دجل زدہ تعلیم و تحریک مسترد کر دے، جس کا ماخذ و سرپرست مغرب ہو، جسے تعریف و ستائش اور سند مغرب سے حاصل ہو۔ غیرمسلم دنیا ’سیاسی اسلام‘ اور ’انقلابی اسلام‘ کی حقیقت تسلیم کرے، اور انسانوں کی رائے کا احترام کرے، خواہ وہ انسان مصر کے ہوں یا ترکی کے، خواہ وہ انسان الجزائر کے ہوں یا غزہ کے۔ یہی دو اسباق پندرہ جولائی انقلاب نے سکھائے ہیں، کوئی ہے سیکھنے والا؟

Comments

Click here to post a comment