ہوم << نوجوان نسل کے اخلاقی بحران کا حل - عبیداللہ فاروق

نوجوان نسل کے اخلاقی بحران کا حل - عبیداللہ فاروق

آج کا نوجوان، جو کل کا معمار ہے، ایک عجیب کشمکش اور بحران کا شکار نظر آتا ہے۔ اخلاقی قدریں جو کسی بھی معاشرے کی بنیاد ہوتی ہیں، ہماری نوجوان نسل سے رفتہ رفتہ دور ہوتی جا رہی ہیں۔ یہ بحران اس حد تک گہرا ہے کہ ہماری تہذیب و ثقافت کا حسن مدھم پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ اخلاقی زوال کہاں سے شروع ہوا اور اس کا حل کیا ہے؟

یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ نوجوانوں کی اخلاقی تربیت میں گھر کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ والدین کی غفلت یا مصروفیات بچوں کی تربیت کو متاثر کرتی ہیں۔ ایسے بچے جو والدین کی شفقت، رہنمائی اور دینی تعلیمات سے محروم ہوں، وہ آسانی سے گمراہی کے راستے پر چل پڑتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور بچوں کے ساتھ وقت گزاریں۔ قرآن و سنت کی روشنی میں ان کی تربیت کریں تاکہ وہ اپنی اصل شناخت اور اخلاقی اصولوں کو نہ بھولیں۔

دوسری طرف، تعلیمی ادارے بھی اس اخلاقی بحران کے ذمہ دار ہیں۔ آج کے تعلیمی نصاب میں کردار سازی پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔ اگر تعلیم کے ساتھ تربیت کو شامل کیا جائے اور اسلامی اخلاقیات کو نصاب کا حصہ بنایا جائے تو نوجوانوں کو گمراہی سے بچایا جا سکتا ہے۔ اساتذہ کو چاہیے کہ وہ بچوں کو صرف کتابی علم دینے پر اکتفا نہ کریں بلکہ ان کے کردار کی تعمیر پر بھی توجہ دیں۔

میڈیا بھی نوجوانوں کے اخلاقی زوال میں بڑا کردار ادا کر رہا ہے۔ فحاشی، عریانیت، اور بے حیائی کو عام کر کے میڈیا نے نوجوان نسل کے دل و دماغ پر منفی اثرات ڈالے ہیں۔ ایسے وقت میں ضرورت ہے کہ ہم اسلامی ثقافت کو فروغ دیں اور ایسے پروگرامز پیش کریں جو نوجوانوں کی اخلاقی تربیت میں معاون ثابت ہوں۔

سب سے بڑھ کر، نوجوانوں کو خود بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا۔ وہ اپنے وقت کو فضول کاموں میں ضائع کرنے کے بجائے مطالعہ، مثبت سرگرمیوں اور دینی تعلیمات پر عمل کرنے میں صرف کریں۔ مساجد، دینی اجتماعات، اور علماء کے ساتھ تعلق کو مضبوط کریں تاکہ ان کے کردار میں نکھار پیدا ہو۔

اس اخلاقی بحران کا حل صرف اور صرف قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنے میں ہے۔ ہمارے پاس ایک جامع دستورِ حیات موجود ہے جو زندگی کے ہر پہلو پر روشنی ڈالتا ہے۔ اگر ہم نوجوان نسل کو اس سے جوڑ دیں تو ایک بااخلاق، مہذب، اور مضبوط معاشرہ وجود میں آ سکتا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اجتماعی طور پر اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور نوجوان نسل کو ایک روشن مستقبل کی طرف گامزن کریں۔

Comments

Click here to post a comment