ہوم << غیرقانونی مہاجرت جمہوریت نہ انسانیت - ش م احمد

غیرقانونی مہاجرت جمہوریت نہ انسانیت - ش م احمد

ہالی وڈ سپنے بیچنے‘ خوابوں کاجگ بسانے اورپرد ہ ٔسیمیں پر خیالی جنتیں آباد کرنے کا دھندا چلاتا ہے۔ اس کے لئے تفریحِ طبع کوئی شوق نہیں بلکہ شائقین کی جیبیں ہلکی کر نےاور فلموں کے ذریعےدولت و شہرت کمانے کا مشغلہ ہے ۔ بایں ہمہ مادہ پرستی کی چکا چوندی کے باوصف یہاں انسانیت کی رمق باقی ہے‘ کیونکہ انسان محض حیوانی وجود نہیں کہ صرف پیٹ اورجنسی تشفی کا سامان میں کھویا رہے بلکہ اس کے اندر انسانی جذبات و احساسات کی ایک وسیع دنیا ودیعت کی ہوئی ہے۔

گلیمرکی دنیا سے منسوب فلمی سیلبرٹیز کوئی آسمانی مخلوق نہیں ہوتیں‘ ان کی سرشت میں بھی ہم ا ور آپ کی طرح انسانوںسے محبت گندھی ہوتی ہے‘ یہ بھی آدم کی اولادیں ہوتی ہیں ‘ان کی بھی خوشیاں اور غم ہوتے ہیں ‘ کسی کو درد وکرب میں کراہتا دیکھیں تو ان کے دل بھی پسیج جاتے ہیں ‘ دُکھ محسوس ہونے پر ان کی بھی آنسوؤں کی دھاریں بہہ نکلتی ہیں ‘ اُن کے قلب و جگرپر بھی رنج وغم کے مناظر دیکھنے سے خنجر چلتے ہیں ۔ اس کا برملا ثبوت آج اُ س وقت ہو اجب ہالی وڈ کی ایک مشہورامریکی اداکارہ سیلینا گومیز کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی۔ ویڈیو میں بے پناہ شہرت کی مالکن امریکن فلمی ایکٹریس کو پھوٹ پھوٹ کر روتا دیکھا جاسکتا ہے۔

محترمہ کا دُکھ یہ ہے کہ آج کل امریکہ اَمارت کے جنون میں کس طرح انسانیت کا خون ہورہاہے۔اس سے برداشت نہیں ہورہا کہ ایمگریشن انفورسمنٹ کےاہل کارتارکین ِ وطن کے ساتھ بُرا سلوک کرتاپھر یں۔غیرقانونی مہاجرین کے ساتھ ا س وقت امر یکہ میں جو بدسلوکیاں روا رکھی جارہی ہیں‘ انہیں دیکھ کرضمیر کے ہاتھوں مجبور سیلینا گومیز کا کلیجہ بھی پھٹ گیا۔ کہتی ہے :’’ میرے سبھی لوگوں پر حملہ ہورہاہے‘بچے بھی محفوظ نہیں‘میری سمجھ میں نہیں آرہا( یہ کیساظلم ہے) ‘ مجھے معاف کردیجئے۔ کاش میں( انہیں بچانے کے لئے ) کچھ کر پاتی‘ لیکن میں کیا کرسکتی ہوں‘ مجھے نہیں پتہ کیا کرنا چاہیے ‘میں ہرچیز آزماؤں گی ‘ یہ وعدہ کرتی ہوں ‘‘۔

ویڈیو دُنیا میں ٹرینڈ کر رہی ہے ۔ اداکارہ نےویڈیو انسٹاگرام پر شئیر کر دی تھی مگر ٹرولنگ کےسبب جذباتی ویڈیو کو ڈیلیٹ کیا۔ کسی مشہور فلمی ستارے کا جذباتی ہوکرا پنا مافی ا لضمیر بے ساختہ آنسوؤں کی زبانی بیان کرنے سے امریکی انتظامیہ کو درس ملنا چاہیے کہ کٹھورتا کسی مرض کا علاج نہیں۔ قبل ازیں اپنے عہدےکا حلف اُٹھانے کے بعد صدر ٹرمپ خاتون ِاول اور چالیس سالہ نائب صدر جےڈی وینس وغیرہ کے ہمراہ پاس کے گرجےکی دعائیہ مجلس میں حاضری دینے گئے تو وہاں انتہائی سلیقہ مند‘شستہ زبان اور حلیمانہ لب و لہجہ میں ادھیڑ عمر والی راہبہ نے غیرقانونی تارکین ِ وطن کا برملا ذکر چھیڑکر ان پررحم کرنے اور ترس کھانے کی موثر اپیل کی۔ موصوفہ نے صدر کا والہانہ استقبال کرنے کےبعد نہایت ہی دھیمے اور شریفانہ اندازمیں ڈائس پر ٹرمپ کےسامنے جو کچھ کہا وہ آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔

راہبہ نے تارکین ِ وطن کی کسمپرسی ہی نہیں بلکہ اُن کی روزمرہ اہم ترین خدمات کو گنایا جو یہ لوگ معمولی معاوضے پر سرانجام دیتے ہیں‘کہا یہ لوگ ہمارے وہ سارے گھریلو کام قلیل اُجرت پر خوش اسلوبی اور خندہ پیشانی سے کر کے مشکل سے دووقت کی روٹی جٹاپاتے ہیں ‘ ہمارے پاخانوں کی گند صاف اور جوٹھت برتن مانجھ کر پیٹ پالنے کی کشمکش میں لگے رہتے ہیں۔ کون چاہےگا کہ اس محنت کش غریب طبقے کوملک بدر کیا جائے جو سستے میں اپنی اہم خدمات گھر گھر اور نگر نگر پیش کر کے روکھی سوکھی کھاتےہیں ۔ صدر نے جمہوریت کی لاج رکھ کر دل کی تاریں چھیڑنے والی انسانیت کا یہ وعظ غور سے سنا مگر سنی اَن سنی کردی ‘کیونکہ دفعتاً تارکین ِ وطن پر کریک ڈاؤن شروع ہوا۔

راہبہ نے جو کچھ کہا وہ سو فی صد درست ہے کیونکہ تارکین ِوطن کو امریکہ سے نکال کر وہاں سستے مزدور ملنا اسی طرح خواب وخیال اورمحال وجنوں ہوگا جیسے ہمارے کشمیر ہوتا دیکھا گیا کہ جب کبھی بہاریابنگال کے مزدور و کاریگر حالات یاموسم کے دباؤ میںیہاں سےگھر لوٹنے پر مجبورہو ئے تو کشمیر میں لگ بھگ تمام کام ٹھپ پڑ گئے کیونکہ مزدوروں کا کال پڑگیا ۔ امریکی صدرٹرمپ دوسری بار صدارت سنبھالنے سے پہلے شاید مصمم ارادہ اور اٹل فیصلہ لے چکے ہیں کہ امریکہ کو مال ودولت میں’’گریٹ‘‘بنانا ہے تو دُنیا کو اپنے سامنے گھٹنوں پر لانا ہوگا‘ ہر ملک پر اپنی سیاسی‘ معاشی اور سفارتی دھاک بٹھانی ہوگی ‘ ہر قوم کو اپنے سامنے جھکی گردن کے ساتھ دست بستہ کھڑا کرنا ہوگا‘ ہر ملت اور ہرخطےسےاپنی تفوق کاپاٹھ پڑھوانا ہوگا۔

دوسرے لفظوں میں صدر ٹرمپ واشنگٹن کی عالمی آقائیت کاسکہ جمانےمیں کوئی کسر چھوڑنے والے نہیں۔ پیر ۲۷ ؍جنوری کو فلوریڈا کے ڈورل میں منعقد ہ 'ریپبلکن ایشیوز کانفرنس میں اُنہوں نےاپنا نظریہ صاف صاف واضح کیا کہ انکم ٹیکس کو ختم کرکے ٹیرف کو بڑھاوا دیا جا سکتا ہے‘ تاکہ اپنے شہریوں کے بجائے ہم دوسرے ملکوں سے آمدنی حاصل کر سکیں۔اُنہوں نے انکم ٹیکس ختم کرنے کی تجویز دے کر وہ چاہتے ہیں کہ امریکی شہریوں کی ڈسپوزیبل آمدنی بڑھائی جا سکے ۔ ڈسپوزیبل آمدنی سے مراد وہ آمدن ہے جو ٹیکس اور دوسرے سوشل سیکورٹی چارجز اداکر نے کے بعدشہری کےپاس بچتی ہو۔

صدر کا کہنا ہے کہ اس قدم سے ہم اس نظام کو واپس لائیں گے جس کی وجہ سے امریکہ اور امیر ہوا ہے۔ وہ کہتےہیں کہ وقت آ گیا ہے جب امریکہ اس سسٹم میں مراجعت کرے جس نے ہمیں امیر اور پہلے سے کہیں زیادہ طاقت ور بنایاتھا۔ غیر ملکوں کو خوشحال بنانے کے لیے ہمارے شہریوں سے ٹیکس لینے کے بجائے ہمیں ہمارے شہریوں کو خوش حال بنانے کے لیے غیر ملکوں پر ٹیکس لگانا چاہیے۔ امریکہ کی تاریخ میں ۱۸۷۰ سے ۱۹۱۳کے درمیان ملک سب سے زیادہ امیر تھا۔ تب ٹیرف پر مبنی معیشت چل رہی تھی۔ ٹرمپ کےاس تصور کے بارے میں گرچہ ماہرین ِ اقتصادیات ذہنی تحفظات رکھتے ہیں مگر صدر کے ذہن میں کیا چل رہاہے ‘یہ اعلان اس کا اشارہ دے رہاہے۔

امریکن صدر کے پاس امریکہ کو امیر بنانے کے لئے اپنا ایجنڈا ‘ نقش ِراہ ‘ بلیو پرنٹ اور ایکشن موڈ ہے ۔ مذکورہ بلیو پرنٹ تارکین ِ وطن کے بعد اگلے مرحلے پر کیا گل کھلائے‘ کس حدتک امریکیوں کے لئے مفید ثابت ہو ؟ پل پل بدلتی دنیا کے لئے یہ قابلِ قبول ہوگا بھی‘ عالم اِنسانیت ٹرمپ کی بات بات پر بلا چوں چرا لبیک کہے گی ‘غریب ریاستیں برضاورغبت ان امیرانہ خواہشات کے روبرو سرِتسلیم خم کریں گی؟ ان سوالات کا تشفی جواب ہمیں مستقبل ہی دےگا ۔ تاہم امریکی صدر کی موجودہ تیز رفتاری اور گرم گفتاری دیکھ کر لگتا ہے کہ اُن کا چار سالہ دورِ اقتدار اپنے اسی یک چشمی پلان کو نافذ کرنے پر وقف رہے گا ۔

اس کا اشارہ اُن کے متعدد سخت قسم کے احکامات بھی دے چکے ہیں۔ دنیا انہیں حیرت واستعجاب کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے‘ کیونکہ ان سے کہیں انسانی حقوق کی پامالیوں کی بُو آتی ہے‘کہیں جمہوری اقدار سے انحراف کاشبہ پیدا ہوتا ہے ‘ کہیںان کے ڈانڈے ہٹلرکی آمریت سے ملتے نظر آتے ہیں ۔ باور یہی کیا جاتاہے کہ چین‘ اورروس جیسے’’سر پھروں ‘‘کو چھوڑ کر دنیا کے د یگر ممالک‘ کمزور قومیں اور معاشی طور لاغر لوگوں کو اگلے چارسال ٹرمپ سے ڈیل کرتے ہوئے انہی حوالوں سے لوہے کے چنے چبانے پڑیں گے ۔

ٹرمپ کا پہلا ہفتہ پے درپے ایگزیکٹو آرڈرز کو جنگی بنیادوں پرعملا نے میں گزرگیا۔ ۲۶ ؍جنوری سےوہ خاص کر اس بابت کچھ زیادہ پُرعزم دکھا ئی دے رہےہیں کہ غیر قانونی تارکینِ وطن کو ملک سے نکال باہرکرناہے‘ برتھ رائٹ شہریت کے پرانے قانون کو چلتا کرنا ہے ‘ اسرائیل اور مصر کے بغیر تمام ملکوں کو اگلے تین ماہ تک سول وفوجی امداد معطل رکھنی ہے تا کہ امریکہ کی جی حضوری کے بارے میں اُن کی پالیسیوں کی نبضیں ٹٹولی جائیں ‘امریکی احکامات سے سر مو انحراف کرنے والوں کو دھمکیوں اور پابندیوں سے زیر کرناہے ‘ وغیرہ وغیرہ ۔

ٹرمپ نے اپنے اولین حکم نامے میں قانون کو مطلوب اُن پندرہ رسو ملزموں اور مجرموں کی معافی تلافی تک کرڈالی جو چارسال پہلے اُن کی حمایت میں( اُ نہی کے بلاوے پر) صدارتی محل پر چڑھ دوڑے تھے ‘ پولیس پر حملہ بولا تھا ‘ قصرابیض کے درودیوار پھلانگ کر توڑ پھوڑ اور متشددانہ کارروائیوں جیسی گھناؤنی حرکات کی تھیں ‘حتیٰ کہ موقعٔ وارادت پر گولیوں کےتبادلے سے کچھ ہلاکتیں بھی ہوئی تھیں۔ صدر نے اپنےغیر معمولی اختیارات کے بل پر ان تمام لوگوں کو بیک جنبش ِقلم عام معافی دینے میں قانون وآئین کو بالائے طاق رکھا ۔ایسا ہونا ہی تھا ‘سیاں بھئے کوتوال تو ڈر کاہے کا۔یہ تھوڑی بلوائی تھےکہ قانون کی خلاف ورزیوں کی سزا پاتے‘یہ شریف زادے توٹرمپ کے پرستاریا سیاسی مددگار ہیں جنہیں صدر کی جانب سے نوازا جانا لازم تھا ۔

واضح رہے ٹرمپ کو ۲۰۲۱ میں ڈیموکریٹ جو بائیڈن سے کراری انتخابی شکست ملی تھی لیکن اپنے مزاج کے عین مطابق وہ الیکشن دھاندلیوں کا رونا رو کر قصر ابیض کو خالی نہ کرنے کی ضد پر کچھ دیراَڑےرہے ۔ یہی چیز اس وقت تشدد آمیز ڈرامائی صورت حال کی موجب بنی تھی . بہر صورت ٹرمپ نے ۲۰جنوری سے شروع اپنا پہلا ہفتۂ صدارت یہ سطور لکھے جانے تک اپنی سیاسی قوت کاڈنکا اندر اور باہر بجانے میںگزارا ۔ اُن کا پہلا نشانہ گیارہ ملین سے زائد غیرقانونی تارکین ِ وطن بنے ہوئے ہیں۔کم نصیب‘ لاچارو بے سہارا پردیسیوں پر امریکی تاریخ میں اپنی نوعیت کاانوکھاکریک ڈاؤن نئے صدر کے پانچویںدن سےجاری وساری ہے اور نہ جانے پردیسیوں کے خلاف کب تک ڈر اور خوف کایہ ڈراکیولائی سلسلہ جاری رہے گا۔

پولیس بڑے پیمانے پر غیرقانونی تارکین ِوطن کی پکڑ دھکڑ میں مصروف ہے‘ جس گھڑی ایسا کوئی ڈراسہما شخص پولیس کی گرفت میں آتا ہے‘ اُسے قتل جیسے سنگین مجرم کی طرح آہنی زنجیروں میں جکڑ کر تذلیل وتحقیر کی سولی پر ذہنی اذیت اوردلی صدمے کےساتھ لٹکایا جاتا ہے‘ پھر ڈپوٹیشن کی تلوار کے ایک ہی وارسے نیم جان کرکے اُسے گھر بھیجا جاتا ہے ۔ امریکی سماج کو انتہائی سستی مزدوری پر فراہم ہونے والے یہ لاکھوں انسان امریکی شہریوں کو اپنی خدمات فراہم کر کے مشکل سےآذوقہ چلاتے ہیں ۔

قسمت کے مارے ان بے یارویاور لو گوں کی تلاش میں پولیس جگی جھونپڑیوں پر چھاپے ڈال رہی ہے ‘اُن کےٹوٹے پھوٹے ٹھکانوںکی تلا شیاں لےرہی ہے اور گرفتار ہوتے ہی انہیںبلا تمیز عمر ‘جنس ‘رنگ ‘نسل‘ قومیت اُن کےانتظار میں پہلے سے بیٹھے مستعدمجسٹریٹ کے سامنے انہیں پیش کیا جاتاہے ‘کسی جرح وتعدیل کے بغیر ملک بدری کا فوری فیصلہ ا ن کےہاتھ تھمایا جاتا ہے ‘چشم زدن میں قریب ہی کھڑے فوجی طیارے میں لاد انہیںکر آبائی وطن ڈپوٹ کیا جاتاہے ۔

سب سے پہلے کولمبیا کے دس ہزار غیر قانونی مہاجرین کو پُش بیک کیا گیا۔ اگرچہ کولمبیا کی حکومت نے تارکین ِ وطن سے بھرےامریکی طیارے کو اپنے ہوائی اڈے پر لینڈ کرنے کی اجازت دینے سے ممانعت کی مگر بکرے کی ماں کب تک خیر مناتی۔ طیارے سے کولمبیا کے وہ لٹے پٹے شہری بہر حال اُترکر ہی رہے جنہوں نے جھوٹےخواب دیکھ کر ‘ ہزار طرح کے پاپڑ بیل کر‘ لاتعداد مشکلیں سہہ کر امریکہ میں قدم رکھا تھا مگرآج یہ لوگ دم توڑ چکی اُمیدوں اور ٹوٹے خوابوں کے ساتھ خالی ہاتھ اور خالی جیب لئے اپنے گھر بار اور یار دوستوں میں ذلت آمیز طریقے پر لوٹ آئے ۔

بلا شبہ یہ لوگ برسوں سے امریکہ میں کسی قانونی دستاویز کے بغیر رہ رہے تھے‘ قانون کی نظر میںیہ ان کا ناقابل ِ معافی قصورتھا۔ خیرٹرمپ کے کان میں جونہی کولمبیائی حکومت کےحوالے سے بھنک پڑی کہ طیارے کو لینڈ کرنے نہیں دیا جارہا تو فوراًسے پیش تر اس ملک پر اقتصادی پابندیوں کا ڈرؤن چلا دیا‘ اس سے پورے یورپ میں کافی کی کاشت کر نے والے سرسبز وشاداب مگر غریب ملک کو لمبیا کو امریکی صدر کی من مانی کے سامنے منہ کے بل گرناپڑا۔ ٹرمپ کی فوری سزا کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ بھر میں کافی کی قیمتیں آناًفاناً بڑھ گئیں۔

لوگوں نے اپنی پسندیدہ کولمبیائی کافی کا ذخیرہ اس خیال سے کرڈالا کیا پتہ اب اس لذیذ کافی کی چسکیاں لینا نصیب ہوگابھی۔ ہمارے ملک بھارت سے جو دس لاکھ لوگ کسی مستند سرکاری سفری دستاویزاور ویزے کے بغیر امریکہ میں تارکین ِوطن کی حیثیت سے قیام پذیر ہیں ‘اُن کی گھرواپسی کی بھی باری آرہی ہے۔’’ اکنامک ٹائمز‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق حکومت ِہند نے پہلے ہی ایسےاَٹھارہ ہزار بھارتیوں کو واپس لینا مان لیا ہے‘ جو یاتو قیامِ امریکہ کے لئے لازمی اجازت نامے نہیں رکھتے تھےیا بےانتہا مشکلوں کے سمندر اور مصائب کے پہاڑ عبورکرکے واشنگٹن میں درانداز ہوئے تھے۔

بتایا جاتا ہے کہ پاکستان کے دس ہزار غیرقانونی مہاجرین کواسلام آباد واپس لینے پر آمادگی ظاہر کر چکا ہے ۔ دُکھ اور افسوس تویہ بھی ہے کہ نوزائیدہ بچوں کو امریکی قانون کے مطابق شہریت کا جوآئینی حق اگلے مہینےکے اواخر میں کالعدم ہورہا ہے‘ اس کی زد میں ابھی ماں کے رحم میں پلنے والے بچے بھی آئے ہوئے ہیں۔ حاملہ مائیں ا س خدشے سے پرائیوٹ کلنکوں پر جاکر قبل از وقت وضع ِحمل کرانے پرمجبور ہورہی ہیں تاکہ آنے والاننھا مہمان امریکی شہریت پانے سے محروم رہ کر زندگی بھر ماں باپ کی طرح مصائب ومشکلات کا سامنا کرنے سے بچ جائے۔ ’’گریٹ ‘‘امریکہ میںاس سے زیادہ ظلم اور سنگ دلی کی اور کیا بات ہوسکتی ہے؟

کتنی ستم ظریفی ہے کہ آج سےدوپانچ سو سال پہلے یورپ کے مختلف گوشوں سے نقل مکانی کرکرکے جو بے رحم لوگ امریکہ میں مہاجر بن کر بس گئےتھے اور بہت جلد ملک کے طول وعرض میںبارہ ہزار سال سے بودوباش رکھنےوالے پچاس لاکھ سے زائد آبائی باشندوں (جنہیں کولمبس نے ’’ریڈ انڈینئز‘‘ کانام دیا تھا) کو بے دردی سےتہ تیغ کیا‘ ملیامیٹ کیا‘ غلام بنایا‘ دشت وبیابان کی طرف دھکیلا‘اُنہی سنگدلوں کی موجودہ پشتیں اِن دنوں غریب و مجبور تارکین وطن کا جینا یہ کہہ کرحرام کئے ہوئے ہیں کہ تم یہاں نہیں رہ سکتے‘ کوڑی کوڑی کے محتاج تم لوگ امریکہ کو ’’گریٹ‘‘ بننے میں سنگ ِراہ ہو ۔