آج 27 رجب ہے۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ واقعۂ معراج کی یاد تازہ کرنے کے ساتھ ساتھ آج مسجد اقصیٰ کے متعلق اپنی ذمہ داریوں پر بھی بات کی جائے۔ اس لیے فلسطین پر میری کتاب سے کچھ اقتباسات یہاں پیش کیے جارہے ہیں۔ ان اقتباسات میں مسلمانوں کا مسجدِ اقصیٰ سے تعلق توڑنے کےلیے مذہبی بنیادوں پر پیدا کیے جانے والے بعض مغالطوں کا جواب دیا گیا ہے۔ اس کے بعد بین الاقوامی قانون کی رو سے بھی مسجد اقصیٰ اور مقبوضہ علاقوں پر مسلمانوں کے حق کے متعلق اس کتاب سے اقتباسات پیش کیے جائیں گے۔ وباللہ التوفیق۔
کیا قرآن مجید میں مسجدِ اقصیٰ سے مراد مدینہ منورہ ہے؟
یہ مغالطہ کہ سورۃ بنی اسرائیل میں مسجدِ اقصیٰ سے مراد مدینہ منورہ اور اسراء سے مراد سفرِ ہجرت ہے، کوئی نیا مغالطہ نہیں ہے۔ غلام احمد پرویز(م 1985ء) اور دیگر منکرینِ حدیث ایسے شوشے پہلے بھی چھوڑتے رہے ہیں۔ اس طرح کے مغالطوں کے جواب میں سب سے پہلے یہ بات صاف کرنی چاہیے کہ ایسی بات کرنے والا مسلمان ہے یا غیر مسلم؟ یہ بات صاف کرنی اس لیے ضروری ہے کہ مسلمان سے بحث اور طریقے سے ہوتی ہے اور ٖغیر مسلم سے اور طریقے سے۔
مسلمان یہ مانتا ہے اور اس کا عقیدہ ہے کہ انسانوں کی ہدایت کےلیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء و رسل کا سلسلہ جاری کیا کیونکہ انبیاء و رسل کے بغیر انسان ہدایت نہیں پاسکتا تھا۔ ان دونوں باتوں کا لازمی نتیجہ یہ ماننا ہے کہ امت کا متوارث علم اور فہم غلط نہیں ہوسکتا؛ یعنی یہ نہیں ہوسکتا کہ قرآن کا متن تو محفوظ رہے لیکن مسلمانوں سے اس کا مفہوم گم ہوجائے اور پھرصدیوں بعد کہیں وہ اصل مفہوم دوبارہ دریافت کیا جائے۔ چنانچہ کسی مسلمان کےلیے یہ ماننے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ جسے امتِ مسلمہ ہمیشہ سے مسجدِ اقصیٰ کہتی اور مانتی آرہی ہے، وہی مسجدِ اقصیٰ ہے۔ اگر کوئی شخص امت کے اس متوارث فہم کو غلط کہہ رہا ہے، تو بارِ ثبوت اسی پر ہے؛ یعنی ہم سے یہ مطالبہ ہی غلط ہے کہ ہم ثابت کریں کہ مسجدِ اقصیٰ کو ہم مسجدِ اقصیٰ کیوں کہتے ہیں؟ اس کے برعکس مطالبہ اس سے کیا جائے گا کہ وہ ثابت کرے کہ اسے مسجدِ اقصیٰ کیوں نہ کہا جائے؟ اور ایسا ثابت کرنے کےلیے اسے یہ بھی ثابت کرنا ہوگا کہ امت کا یہ متوارث فہم کب سے غلط ہوا؟ کہاں امت کو ٹھوکر لگی اور کیوں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو کثیر تعداد میں صحابہ کی موجودگی میں شام کا سفر کرنا پڑا اور وہاں پورے اہتمام سے مسجد آباد کرنی پڑی؟ آخر کیوں امویوں کو وہاں مسجد بنانی پڑی؟ آخر کیوں امت مسلسل اسے مسجدِ اقصیٰ اور قبلۂ اول کہتی اور مانتی آئی؟ وغیرہ۔
اس اصولی بات کے بعد چند نکات کی طرف توجہ کیجیے تاکہ کسی قسم کا شبہ باقی ہی نہ رہے۔
1۔ سورۃ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں مسجدِ اقصیٰ کی صفت یہ ذکر کی گئی ہے:
﴿ٱلَّذِى بَـٰرَكْنَا حَوْلَهُ﴾ (جس کے ارد گرد کو ہم نے برکت بخشی)
یہ ترکیب قرآن کریم میں چار مزید مقامات پر استعمال ہوئی ہے اور ہر جگہ صرف ایک ہی سرزمین، یعنی بلاد الشام،کےلیے استعمال ہوئی ہے۔
الف۔ چنانچہ سورۃ الاعراف میں فرمایا گیا کہ فرعون کی غرقابی کے بعد بنی اسرائیل کو اس سرزمین میں سکونت کی توفیق دی گئی جس کے اطراف کو اللہ تعالیٰ نے برکت بخشی ہے:
﴿وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُوا يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا﴾ (آیت 137)
(اور جن لوگوں کو کمزور سمجھا جاتا تھا، ہم نے انھیں اس سرزمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنادیا جس میں ہم نے برکتیں رکھی ہیں۔)
ب۔ اسی طرح سورۃ الانبیآء میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کے متعلق فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان کو ظالم قوم سے نجات دلا کر اس سرزمین میں لے گیا جس میں اس نے سب جہانوں کےلیے برکتیں رکھی ہیں:
﴿وَنَجَّيْنَاهُ وَلُوطًا إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا لِلْعَالَمِينَ﴾(آیت 71)
(اور ہم انھیں اور لوط کو بچا کر اس سرزمین کی طرف لے گئے جس میں ہم نے سب جہانوں کے لیے برکتیں رکھی ہیں۔)
(نوٹ: اس آیت میں ﴿لِلْعَالَمِينَ ﴾پر نظر رہے اور اس پر بھی نظر رہے کہ اس سورت کے آخر میں رسول اللہ ﷺ کو ﴿ رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ﴾ قرار دیا گیا ہے۔ یعنی اس سرزمین میں تو عالمین کےلیے برکت ہے اور آپ عالمین کےلیے رحمت ہیں۔)
ج۔ اسی سورۃ الانبیآء میں آگے حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کےلیے ہوائیں یوں مسخر کی تھیں کہ وہ ان کے حکم پر اس سرزمین کی طرف چلتی تھیں جس میں اللہ نے برکتیں رکھی ہیں:
﴿وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ عَاصِفَةً تَجْرِي بِأَمْرِهِ إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا ﴾ (آیت 81)
(اور ہم نے تیز چلتی ہوئی ہوا کو سلیمان کے تابع کردیا تھا جو ان کے حکم سے اس سرزمین کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے برکتیں رکھی ہیں۔)
د۔ سورۃ سبا میں اس سرزمین کی ایک اور واضح نشانی یوں بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قومِ سبا کے مسکن (یمن) اور برکت والی سرزمین کے درمیان سرِ راہ بستیاں آباد کیں اور سفر کی منزلیں ٹھہرادیں:
﴿وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْقُرَى الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا قُرًى ظَاهِرَةً وَقَدَّرْنَا فِيهَا السَّيْرَ﴾ (آیت 18)
(اور ہم نے ان کے اور ان بستیوں کے درمیان، جن میں ہم نے برکتیں رکھی ہیں، ایسی بستیاں بسا رکھی تھیں جو دور سے نظر آتی تھیں، اور ان میں سفر کو نپے تلے مرحلوں میں بانٹ دیا تھا۔)
ان چاروں مقامات پر جس طرح اس سرزمین سے مراد بلاد الشام اور فلسطین کا علاقہ ہے، اسی طرح سورۃ بنی اسرائیل میں بھی ﴿الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ﴾ سے مراد بھی وہی مسجد ہے جو اس علاقے میں تھی۔
2۔ اس کے علاوہ اسراء اور معراج کے متعلق صحیح احادیث بھی ایک بڑی تعداد میں موجود ہیں اور ان کی موجودگی میں کسی شبہے کےلیے کوئی گنجائش باقی ہی نہیں رہتی۔
3۔ سورۃ بنی اسرائیل میں آگے مسلسل جس طرح بنی اسرائیل کے ساتھ تفصیلی بحث ہوئی اور ان پر شدید تنقید کی گئی ہے، وہ اس حقیقت کےلیے مزید دلیل بن جاتی ہے ۔
4۔ یہ کوئی سوال نہیں ہے کہ اس وقت مسجد تھی ہی نہیں تو اسے مسجد کیوں کہا گیا؟ ایک تو قرآنِ کریم میں مسجد کا لفظ صرف مسلمانوں کی عبادت گاہ کےلیے ہی نہیں آیا، بلکہ کئی مقامات ایسے ہیں جہاں یہ محض عبادت گاہ کے مفہوم میں ہے، خواہ وہ عبادت گاہ کفار کےکنٹرول میں ہی کیوں نہ ہو۔ البتہ جہاں تقابل کےلیے کئی الفاظ آئے ہیں، تو اس ایک مقام پر یقیناً مساجد سے مراد مسلمانوں ہی کی مساجد ہیں۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ یہود و نصاری میں کفر، شرک یا بدعات تو بعد میں آئی ہیں اور اصلاً تو یہ مسلمان ہی تھے اور ان کی عبادت گاہیں اصلاً مساجد ہی تھیں۔ اسی لیے اسی سورۃ بنی اسرائیل میں اس آیت سے صرف5 آیات کے بعد آیت 7 میں اسی مقام کو، یعنی یہود کی عبادت گاہ کو، مسجد کہا گیا ہے:
﴿وَلِيَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوهُ أَوَّلَ مَرَّةٍ﴾
(تاکہ وہ اس مسجد میں فاتحانہ داخل ہوں، جیسے وہ پہلی دفعہ داخل ہوئے تھے ۔)
اگر اس آیت میں مسجد سے مراد وہ ہیکل ہے جو فلسطین میں تھا، اور یقیناً وہی مراد ہے، تو 5 آیات پیچھے اسی سورۃ کی پہلی آیت میں اسی مقام کو مسجد کہنے پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے؟
باقی رہا یہ سوال کہ یہ مسجد کب بنی اور کب اس نے قبلے کی صورت اختیار کی ، تو اس پر ہم اگلی فصل میں گفتگو کریں گے ۔
تبصرہ لکھیے