ہوم << اذان کی تیاری - ابوبکر قدوسی

اذان کی تیاری - ابوبکر قدوسی

ایک روز بات کرتے ہوئے ڈاکٹر فضل الٰہی ۔۔۔۔ صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ ۔۔۔۔مُجھے نصیحت کر رہے تھے کہ : "لوگ نماز کی تیاری کرتے ہیں اور پھر دوسری تیسری رکعت میں مل پاتے ہیں ، نماز کی نہیں اذان کی تیاری کرنی چاہیے."

ان کی بات بالکل درست تھی اور مقصود یہ تھا کہ انسان کچھ وقت پہلے ہی اٹھے اور وضو وغیرہ کر کے اپنے معمولات میں مشغول ہو بھی جائے تو نماز اچھے طور پر پا لے گا۔ بدقسمتی سے نماز ہمارے ہاں آخری کام ہوتا ہے ، دکاندار ، ملازمین اور سب کام کرنے والے اگر نمازی بھی ہیں تو بھی نماز کو عموماً " ایک ضروری کام " ہی سمجھا جاتا ہے کہ جس کو ضرور " نمٹانا " ہے ۔ بلاشبہ نماز کاموں میں از حد ضروری کام ہے لیکن اس کو اس سے اس سے کچھ آگے سمجھنا چاہیے اور وہ یہ کہ:
🌹یہ مالک کا حکم ہے اور اس کو ادا کرنے کا اصل مقصود اس کی رضا مندی کا حصول ہے ۔
🌹اس میں تساہل سے اس کی ناراضی کا ڈر ہے ۔

ان دو نکات میں امید اور خوف دونوں آ جاتے ہیں اور یہی دین ہے۔ اب ہوتا یہ ہے کہ جب آپ نماز کو محض ایک " ضروری کام " سمجھتے ہیں تو بھاگنے بھاگ مسجد کو جاتے ہیں ، افراتفری میں وضو کرتے ہیں ، کسی ایک رکعت میں شامل ہو جاتے ہیں ، سلام پھیرنے کے بعد گردن موڑ موڑ کر اپنے سے بعد والوں کو تکتے ہیں کہ نکلنے کے لیے راستہ کیسے تلاش کرنا ہے اور کس کے سر سے پھلانگنا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اور اس دوران دماغ مسلسل کام ، کاہگ اور دکان کی طرف لگا ہوتا ہے ۔۔۔۔ اور جب مسجد سے نکل لیتے ہیں تو آیک " سکون کا سانس " لیتے ہیں کہ : " لو جی ایک کام نپٹ گیا " . حضور ! یوں نہیں کیجیے عبادت سے لذت کشید کیجیے ، رب سے کبھی بات بھی کیجیے ، نماز میں سکون کی تلاش ہے تو سکون سے ادا بھی کیجیے ۔

اسی فون کی گفتگو میں اسی رویے پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر فضل الٰہی صاحب نے ہی مجھے کہا کہ : " اگر آپ دس بجے کام پر آتے ہیں اور پون ایک پر اذان اور ایک بجے جماعت ہوتی ہے اور صبح سے تقریباً تین گھنٹوں میں جو کام نہ کر سکے وہ ان پانچ دس منٹ میں کیسے کر لیں گے کہ نماز کو تاخیر کی اور پہلی رکعات میں نہ ملے ؟ "

ہوتا یہ ہے کہ دکاندار حضرات کے دماغ کا کمپیوٹر اذان کے بعد انتہائی تیز چلنا شروع ہو جاتا ہے ، جلدی جلدی ہاتھ چلا رہے ہوتے ہیں ، بھولے بسرے حساب بھاگم بھاگ دماغ میں چلے آ رہے ہوتے ہیں ، افراتفری میں کام کرنے کی کوشش ہوتی ہے کہ ان دس منٹ میں " یہ یہ اور یہ یہ" بھی کر لوں ۔۔۔ حالانکہ رزق اور کام کا سمٹنا ہرگز زمین پر طے نہیں ہوتا ، یہ فیصلہ آسمانوں سے نازل ہو رہا ہوتا ہے کہ کس کو کیا ملے گا ۔

سو احباب :
پہلے تو معمول بنائیں کہ کچھ وقت پہلے ہی وضو کریں ، واش روم استعمال کر لیں اور تسلی سے بیٹھ کر اپنا کام شروع کر دیں ۔۔۔۔۔۔۔ اور اذان ہونے پر آٹھ جائیں ۔ بالفرض آپ وضو قائم نہیں رکھ پاتے تو پھر اذان کی آواز کان میں پڑتے ہی کام ایسے چھوڑ دیں جیسے گاہک کے دکان میں داخل ہونے پر فوراً ہی ساری توجہ اس طرف ہو جاتی ہے ۔۔۔۔ پھر کہوں گا کہ گاہک سے زیادہ گاہک بھیجنے والا توجہ کا حق دار ہے ۔