نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا،
ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا!
(غالب)
خلاف معمول آج سنجیدہ تحریر کاآغازلطیفہ سے کرتے ہیں، ہوا یوں کہ دو سائنسدان خدا کی بارگاہ میں پہنچے اور یوں عرض گذار ہوئے.
سائنسداں: خداوندا! اب ہمیں تمہاری ضرورت نہیں رہی.
خدا: بھلا تمہیں اب کیوں میری ضرورت نہیں.
سائنسداں:دیکھیے ہم آپ کے بغیر وجود کائنات کو ثابت کرسکتے ہیں.
خدا: وہ کیسے؟
سائنسداں: ٹھیک، ہمیں اسے ثابت کرنے کےلیے سب سے پہلے زمینی مٹی درکارہوگی.
خدا: رکو، رکو.
سائنسداں: اب کیاہوا؟
خدا: مٹی بھی خودکی لائو!
خالق کی صفت تخلیق کا بنیادی تقاضا ہے کہ وہ اپنی تخلیق کےابتدائی مرحلے میں بھی کسی شے کا محتاج نہ ہو. اب آتے ہیں اصل مضمون کی طرف، خداکی ذات کا انکار کہیے یا دہریت، یہ مرض کوئی نیا نہیں ہے قرآن نے مختلف جگہ اس "مرض" سے تعرض کیا ہے کئی جگہ دلائل بی دیے ہیں. ان تمام دلائل میں سب سے جامع اور جاندار دلیل جسے ہم 'دریا بکوزہ 'قرار دے سکتے ہیں، وہ سورہ طورکی دوآیات ہیں. ان دوآیات میں 'انکارخدا' کے تمام امکانات قرآن حکیم نے بیان کر دیے ہیں. ملاحظہ فرمائیے،
[pullquote]أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُون أَمْ خَلَقُوا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بَل لَّا يُوقِنُونَ (سورہ طور:34-35)[/pullquote]
(ترجمہ: کیا یہ کسی کے پیدا کیے بغیر ہی پیدا ہوگئے ہیں. یا یہ خود (اپنے تئیں) پیدا کرنے والے ہیں. یا انہوں نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے؟ (نہیں) بلکہ یہ یقین ہی نہیں رکھتے)
دراصل خدا کے انکار کے صرف اور صرف چار امکانات ہیں جودرج ذیل ہیں:
1) کیا ان کے اوپر کوئی نہیں جس کی بات ماننا ان کے ذمہ لازم ہو.
وضاحت:
اس بات کوتسلیم کرنے کا مطلب ہے کہ ہم گویا صفر سے اعداد کی پیدائش کے قائل ہیں. قانون فطرت ہے، عدم سے عدم ہی پیدا ہو سکتا ہے، وجودنہیں. کسی ماورا ہستی کی موجودگی کے بغیر عدم سے وجود کو مان لینا انتہائی درجہ کی غیرمنطقی بات ہے.
2) کیا بغیر کسی پیدا کرنے والے کے خود بخود پیدا ہوگئے ہیں؟
وضاحت:
یہ مان لینا گویا ایک ہی وقت میں عدم اور وجود کا قائل ہونا ہے. آسان الفاظ میں کوئی شخص یوں کہے کہ میری ماں نے اپنے آپ کو جنم دیا! العجب ثم العجب!
3) خود اپنے آپ کو خدا سمجھتے ہیں؟
وضاحت:
اس قسم کاخیال پالنے کےلیےکم ازکم تین شرائط ضروری ہیں،
الف) وہ علی کل شیء قدیر (ہر شے پر قادر) ہو.
ب) وہ کل شیء علیم (ہر شے کو جانتا) ہو.
ج) وہ بلاکیف زمان و مکان، اپنی قدرت کاملہ کے ساتھ وھومعکم 'این ماکنتم' ہر جگہ موجود ہو.
ظاہر ہے کہ یہ تمام اوامر بھی محال ہیں.
4) یا یہ خیال کہ آسمان اور زمین ان کے بنائے ہوئے ہیں. لہذا اس قلمرو میں جو چاہیں کرتے پھریں، کوئی ان کو روکنے ٹوکنے کا اختیار نہیں رکھتا۔
وضاحت:
جو خود پیدا ہوا ہو وہ اپنے سے بڑی اور قدیم چیز کو پیدا کرے یا اس میں تصرف کرے، ایں خیال است ومحال است وجنوں!
اب آخری اور لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہےکہ انسان اپنے اوپر کسی ماورا ہستی اور حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کے خطوط کی زبان میں وراء الوراء ثم وراء الوراء ہستی کا وجود مان لے. جواس عظیم کائنات کی وجہ اول ہے، جو اول سے آخر تک کسی کا محتاج نہ ہو، ازل تا ابد زندہ جاوید رہے، اس بات کو الفریڈجیری (Alfred Jarry) بیان کرتے ہوئے کہتا ہے: God is the shortest distance from zero to infinity.
(ترجمہ: خدا صفر سے لامحدود تک کا مختصر ترین فاصلہ ہے)
یہ تو ہوا سادہ ترجمہ، اب منطقی ترجمہ بھی دیکھ لیں
(اللہ تعالی ازل سے ابد تک تنا ہوا مختصر زمانہ (کا فاعل حقیقی) ہے)
طبیعت میں سعادت ہو، فطرت صالح ہو اور روح حق کی متلاشی ہو تو کائنات میں پھیلے توحید و ربوبیت کے شہودی جلوے انسان کو اللہ جل جلالہ کی بارگاہ میں سجدہ ریزکرنے کے لیے کافی ہیں. ایسے انسان کا پور پور ملحدانہ خیال کے خلاف پکار اٹھتاہے،
ورائے ذہن و زماں کس سے کائنات بنی؟
تو کیسے کہتا ہےکوئی نہیں، نہیں! کوئی ہے
تبصرہ لکھیے