ولادت باسعادت
گلشنِ اہلِ بیت کے مہکتے پھول حضرت امام موسیٰ کاظم رحمۃُ اللہ علیہ کی ولادت باسعادت 7 صفر المظفر 128ھ طلوعِ فجر کے وقت مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان واقع تاریخی علاقے "ابواء" میں ہوئی۔ یہی وہ مقام ہے جہاں نبی کریم ﷺ کی والدہ محترمہ حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ عنہا کا مزارِ مبارک بھی واقع ہے۔ آپ کا نامِ مبارک "موسیٰ" رکھا گیا، آپ کی کنیت "ابوالحسن" اور "ابوابراہیم" تھی جبکہ آپ کے مشہور القابات "صابر"، "صالح"، "امین" اور سب سے معروف لقب "کاظم" ہے جو آپ کی غصے کو پی جانے کی غیر معمولی صفت کی وجہ سے عطا کیا گیا۔
نسب اور والدینِ کریمین
حضرت امام موسیٰ کاظم رحمۃ اللہ علیہ اہل بیتِ اطہار کے چشم و چراغ ہیں۔ آپ کے والدِ گرامی حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کے فرزندِ ارجمند ہیں۔ آپ کی والدہ محترمہ کا نام "حمیدہ بَرْبَرِیّہ رحمۃ اللہ علیہا" تھا جو علم و فضل، تقویٰ اور دیانت میں اپنی مثال آپ تھیں۔ امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ اپنی اولاد میں حضرت موسیٰ کاظم کو سب سے بہترین بیٹے قرار دیتے ہوئے فرماتے: "یہ میرے بیٹوں میں سب سے افضل ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے موتیوں میں سے ایک موتی ہیں۔" (مسالک السالکین، 1/225)
علمی مقام و مرتبہ
حضرت امام موسیٰ کاظم رحمۃُ اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ نے اہل بیت کے دوسرے افراد کی طرح بلند مرتبہ علم و فضل سے نوازا تھا۔ آپ قرآن و حدیث، فقہ اور دیگر اسلامی علوم میں بے مثال مہارت رکھتے تھے۔ آپ کے علم کا دریا آپ کے والد گرامی حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کی علمی میراث کا حسین رنگ تھا۔ حضرت امام موسیٰ کاظم رحمۃ اللہ علیہ کا علمی مقام اس قدر بلند تھا کہ آپ کو اپنے زمانے کے بڑے علماء اور فقہاء کی جانب سے نہ صرف انتہائی عزت و احترام کی نگاہوں سے دیکھا جاتا بلکہ آپ کی تعلیمات نے علمی حلقوں میں ایک نئی روشنی کی کرنیں بکھیر دیں۔ آپ کا علم محض کتابی نہ تھا بلکہ آپ کا عمل اور کردار بھی آپ کے علم کی عظمت کا غماز تھا۔ آپ کی فقاہت اور دینی بصیرت نے اس دور کے فکری و علمی مسائل کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور آپ کی گہرائی اور حکمت نے آپ کو اہلِ علم میں ممتاز مقام عطا کیا۔ حضرت امام موسیٰ کاظم رحمۃ اللہ علیہ کی علمی خدمات اور آپ کی فقہ میں مہارت نے نہ صرف آپ کو ایک عظیم عالم و فقیہ بنایا بلکہ آپ کو امت مسلمہ کے لیے ایک روشن مینارِ علم اور فہم قرار دیا۔
عبادت و ریاضت
حضرت امام موسیٰ کاظم رحمۃ اللہ علیہ عبادت گزاروں کے لیے ایک مثالی نمونہ تھے۔ آپ کی راتیں نوافل اور دعاؤں میں گزرتیں۔ روایت ہے کہ آپ ہمیشہ نمازِ فجر تک قیام کرتے رہتے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں معافی اور بخشش کی دعائیں کرتے۔ آپ کی ایک مشہور دعا تھی: اللّٰهُمَّ اِِنِّیْ اَسْاَلُكَ الرَّاحَةَ عِنْدَ الْمَوْتِ وَ الْعَفْوَ عِنْدَ الْحِسَابْ "اے اللہ! میں تجھ سے موت کے وقت آسانی اور حساب کے وقت معافی کا سوال کرتا ہوں۔" آپ کے بارے میں یہ بھی مروی ہے کہ ایک بار مسجدِ نبوی شریف میں داخل ہو کر آپ نے پوری رات سجدے میں گزاری اور بارگاہِ الٰہی میں عرض کرتے رہے: عَظُمَ الذَّنْبُ عِنْدِیْ فَلْيَحْسُنِ العَفْوُ مِنْ عِنْدِكَ "میرے گناہ بہت بڑے ہیں، تو تیری طرف سے معافی بھی عظیم ہونی چاہیے۔" (سیر اعلام النبلاء، 6/448)
جود و سخاوت
حضرت امام موسیٰ کاظم رحمۃ اللہ علیہ کے جود و سخاوت کی مثالیں سنہری حروف سے لکھی جانے کے قابل ہیں۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کا معمول تھا کہ مدینہ منورہ کی تاریک راتوں میں اپنی شناخت چھپائے غریبوں اور حاجت مندوں کے دروازے پر ان کی ضرورت کے مطابق رقم اور اشیاء پہنچاتے۔ یہ عظیم عمل اس قدر خاموشی سے انجام دیا جاتا کہ لینے والے کو بھی کبھی علم نہ ہوتا کہ یہ ان کا دستگیر کون ہے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی سخاوت نہ صرف مالی امداد تک محدود تھی بلکہ اس میں عاجزی، محبت اور انسانی ہمدردی کا ایسا رنگ نمایاں تھا جس نے آپ کو امت کے لیے سخاوت کا ایک درخشاں مینار بنا دیا۔ یہ بے لوث خدمت اور مخلوقِ خدا کی مدد کا بے مثال جذبہ درحقیقت اس آیت کی عملی تصویر تھا: "تم نیکی کو اس وقت تک نہیں پا سکتے جب تک اپنی محبوب چیزیں خرچ نہ کرو۔" (سورہ آل عمران: 92) آپ کے جود و سخا کا عالَم یہ تھا کہ جب آپ کو علم ہوتا کہ کسی نے آپ کو بُرا کہا تو اسے کوئی مالی تحفہ ارسال کردیتے۔ (صفوۃ الصفوۃ لابن جوزی:184/2)
باب الحوائج
حضرت امام موسیٰ کاظم رحمۃ اللہ علیہ کو ان کے ماننے والے "باب الحوائج" یعنی ضروریات پوری ہونے کا دروازہ کہتے ہیں۔ یہ لقب آپ کی دعاؤں کی قبولیت اور لوگوں کی مرادیں پوری ہونے کی وجہ سے مشہور ہوا۔ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر ائمہ نے آپ کے مزارِ مبارک پر دعا کو قبولیت کے لیے آزمودہ اور مجرب قرار دیا۔ امام شافعی نے فرمایا: "حضرت امام موسیٰ کاظم کے مزار پر دعا کرنا قبولیت میں آزمایا ہوا ہے۔" (لمعات التنقیح، 215/4) آپ کے وسیلے سے لوگ اپنی دعاؤں کی قبولیت کا مشاہدہ کرتے تھے۔ فقہِ حنبلی کے مشہور امام حضرت امام خلّال رحمۃ اللہ علیہ آپ کے مقام کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "جب بھی مجھے کوئی مشکل پیش آتی ہے، میں امام موسیٰ کاظم رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر حاضر ہو کر دعا کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ میری مشکل آسان کر دیتا ہے۔" (تاریخ بغداد، 1/133)
قید میں حضرت امام موسیٰ کاظم رحمۃُ اللہِ علیہ کی عبادت
جب امام موسیٰ کاظم رحمۃ اللہ علیہ کو ابومنصور سندی بن شاہک، مولیٰ منصور دوانیقی کے پاس قید میں رکھا گیا اور اُس نے اپنی دیندار بہن سے نگرانی کرنے کے لیے کہا تو وہ رضامند ہو گئی، چنانچہ وہ کہتی ہے کہ قید خانے آپ کا کا معمول یہ تھا: جب آپ عشاء کی نماز پڑھ لیتے تو اللہ تعالی کی حمد وثنا اور دعا میں مشغول ہو جاتے، حتی کہ ساری رات اس عالم میں گزر جاتی، پھر رات کے آخری حصے میں کھڑے ہو کر فجر تک نماز پڑھتے رہتے، پھر فجر کی نماز ادا کرتے اور طلوع شمس تک ذکر میں مصروف ہو جاتے، پھر چاشت کے وقت تک بیٹھے رہتے، بعد ازاں اُٹھ کر مسواک کرتے اور کچھ تناول فرماتے، پھر زوال سے کچھ پہلے تک آرام کرتے، اس کے بعد اُٹھ کر وضو کرتے اور ظہر سے عصر تک نماز میں مشغول رہتے، عصر سے مغرب کے مابین قبلے کی جانب متوجہ ہو کر ذکر کرتے، پھر مغرب سے عشاء تک نماز میں مشغول ہو جاتے، یہ آپ کا معمول تھا۔ سندی کی بہن جب کبھی آپ کو دیکھتی تو کہتی: وہ لوگ بر باد ہوں؛ جنھوں نے اس نیکو کار بندے کو قید کر رکھا ہے۔ (سیر اعلام النبلاء بحوالہ اہل بیت کے امام، ص 124) یہ معمولات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ آپ رحمۃُ اللہ علیہ نے قید کی مشکلات کو صبر و استقامت اور شب و روز کی عبادات سے زینت بخشی اور اپنے تعلق باللہ کو مزید مضبوط کیا۔
شہادت
حضرت امام موسیٰ کاظم رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی میں قربانی، صبر اور استقامت کی جو داستانیں رقم ہوئیں، ان کا اختتام بھی شہادت کے عظیم مرتبے پر ہوا۔ تاریخ کے صفحات اس حقیقت کے شاہد ہیں کہ آپ پر بے پناہ مظالم ڈھائے گئے لیکن آپ کی روحانی عظمت اور حق پرستی کو متزلزل نہ کر سکے۔ تاریخ و رجال کے ماہرین کے نزدیک آپ رحمۃ اللہ علیہ کا وصال 25 رجب المرجب 183ھ کو ہوا جب آپ کی عمر مبارک 55 برس تھی۔ یہ دن امتِ مسلمہ کے لیے بے حد غمناک تھا۔ آپ نے قید کے ایام میں بھی عبادت اور تعلق باللہ کا ایسا نمونہ پیش کیا جو رہتی دنیا تک صبر و رضا کی مثال بن گیا۔ آپ کا مزارِ مبارک بغداد کے علاقے کاظمین شریف میں واقع ہے جو آج بھی زائرین کے لیے روحانی سکون کا مرکز ہے۔
پیغام
حضرت امام موسیٰ کاظم رحمۃ اللہ علیہ کی حیاتِ طیبہ امت مسلمہ کے لیے ایک ابدی رہنمائی کا سرچشمہ ہے۔ آپ کی عبادات، جود و سخاوت، صبر و استقامت اور اللہ کی بارگاہ میں مکمل عاجزی اور انکساری ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ دنیا کی ہر پریشانی اور آزمائش کا مقابلہ ایمان، تقویٰ اور اللہ پر پختہ توکل کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ آپ کا کردار اسلامی اصولوں اور اقدار پر مبنی ایک مثالی زندگی کا مظہر ہے جو نہ صرف اپنے دور میں ایک مشعلِ راہ تھا بلکہ ہر دور کے انسانوں کے لیے رہتی دنیا تک روشنی کا ذریعہ بنے گا۔ آپ کی سیرت اور تعلیمات ہمیں یہ پیغام دیتی ہیں کہ اگر ہم اپنی زندگی کو اللہ کی رضا، صدق دل اور ایمان کی بنیاد پر گزاریں تو دنیا و آخرت میں کامیابی ہمارے قدم چومے گی۔ حضرت امام موسیٰ کاظم رحمۃ اللہ علیہ کی حیات ہمارے لیے ایک زندہ درس ہے جو ہمیں اپنی روحانی و دنیوی کامیابی کی راہ دکھاتی ہے۔
تبصرہ لکھیے