کل یونیورسٹی میں کچھ سائنسدانوں کے زیر اہتمام زمین پرعمومی زندگی اور انسان کے جسمانی اور شعوری ارتقا پر اڑھائی گھنٹے کا ایک لیکچر سنا. بات ایک بڑے مادے کے الگ الگ ہونے یعنی بگ بینگ سے شروع ہوئی جس کے بعد اس مادے سے الگ الگ کہکشائیں نظام شمسی اور سیارے بنے جنمیں ایک سیارہ ہماری زمین بھی تھی.
پھر سائنس کے مطابق زمین پر زندگی پانی میں ایک زندہ اکائی بننے سے شروع ہوئی .اور چار ارب سالوں کے سفر کے بعد آج سے کچھ ہزار سال پہلے کے انسان تک پہنچی جس میں ساری زمین کی الگ الگ سپیشیز کے جنیٹک ری کمبینیشن کا عمل دخل تھا۔نہ تو میں سائنس کا سٹوڈنٹ ہوں نہ قرآن سائنس کی کتاب ہے نہ انسانی ارتقا پر یہ پریزنٹیشن دینے والے سائنسدانوں میں سے کوئی مسلمان تھا لیکن یہ لیکچر سننے کے بعد قرآن کے اس کائنات کے خالق کی جانب سے ہونے سے متعلق ایمان اور تازہ ہو گیا کیونکہ اس لیکچر کا کرکس عین وہی تھا، جو قرآن سادہ سی چند آیات میں بیان کرتا ہے۔
سورۂ انبیاء کی آیت تیس میں اللہ فرماتے ہیں:
"اور کیا ان لوگوں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے ان کو جدا کیا اور ہر جاندار چیز پانی سے پیدا کی؟ کیا یہ ایمان نہیں لاتے؟"
اس آیت میں زمین اور زندگی کی شروعات کے بارے میں عین وہی باتیں تو کہی گئی ہیں جو میں نے سائنسدانوں کی زبانی اس اڑھائی گھنٹے کے لیکچر میں سنی ہیں۔ یعنی سبھی ستاروں سیاروں کا جڑے ہوئے ہونا پھر الگ ہونا اور زندگی کی ابتدا کو پانی سے بھی جوڑ کر اللہ یہ پوچھتاہے کہ اب جب کہ تم جانتے ہو کہ ایسا ہی ہوا ہے جیسا اللہ نے بتایا تھا تو کیا اب بھی ایمان نہیں لاؤ گے۔ کوئی ہوش مند ہو تو یہ ایک آیت ہی اللہ پر ایمان لانے کے لیے کافی ہے کیونکہ جن حقائق کے بارے میں انسان نے آج جانا ہے ان سے متعلق چودہ سو سال پہلے تو خالق ہی بتا سکتا تھا۔
اب زمین پر انسانی ارتقا کی طرف آتے ہیں۔میرے مطابق انسانی ارتقا کی طرف رہنمائی کرنے والا سب سے اہم نکتہ سُورة ص میں ہے، اس سُورة کی آیات اکہتر اور بہتر میں اللہ انسان کی مٹی یعنی زمینی نامیاتی مرکبات سے تخلیق کی حقیقت بتاتے ہوئے فرشتوں سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں، کہ جب یہ ٹھیک سے بن جائے گا تب میں اس میں اپنی روح پھونکوں گا تب تُم اسے سجدہ کرنا۔ بظاہر یہ سادہ سی بات ہے لیکن آپ بالخصوص "جب یہ ٹھیک سے بن جائے" کے الفاظ پر غور کیجیے، یہ الفاظ ہی انسانی جسم میں ہوتی بعض ایسی ارتقائی تبدیلیوں کا اشارہ دیتے ہیں جو اربوں سالوں پر محیط مخصوص مدارج اور مراحل کے بعد اسے اللہ کی روح اپنے اندر سمو لینے کے قابل کر دیں گی۔
ابو داود میں بیان کردہ ایک حدیث سے یہ تو معلوم ہوتا ہی ہے کہ انسان کی مٹی ساری زمین سے اکٹھی کی گئی تھی، سائنس بھی یہی دریافت کر رہی ہے کہ پانی میں ایک خلیے سے شروع ہوئی زندگی تغیر پزیر رہی پھر پانی سے نکل کر یہ زندگی ساری زمین پر پھیلی پھر اس میں باہمی جنیٹک ری کمبینیشن ہوا یعنی ساری زمین کی مٹی سے مل کر بالآخر انسان بنا۔اب یہ خیال کرنا تو عجیب ہو گا کہ زمین سے مٹی اکٹھی کر کے پہلے جنّت میں لے جائی گئی، وہاں آدم بنتے رہے پھر انکے ٹھیک سے بننے کا انتظار کر کے کسی مخصوص مرحلے میں اُن میں اللہ نے اپنی روح پھونکی، مٹی سے مُراد بہرحال وہ زمینی کیمیائی مرکبات ہیں جن سے انسانی جسم بنا ہے۔
انسان کو تو شعور دیگر جانوروں سے جدا کرتا ہے ورنہ ہر زمینی جاندار کی بناوٹ کا میٹیریل ایک ہی ہے۔اب سُورة النور کی آیت پینتالیس دیکھ لیجیے، اللہ واضح طور پر فرماتے ہیں کہ زمین پر ہر چلنے والا ایک ہی چیز سے بنا ہے پھر خواہ وہ رینگتا ہو، دو پاوں پر چلتا ہو یا چار پاوں پر۔ گویا حدیث میں دیا گیا "ساری زمین سے مٹی اکٹھی کرنے" کا تصور بھی تمام زمینی مخلوقات میں ایک طرح کی وحدت کو ظاہر کرتا ہے. یعنی یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ جب اللہ فرشتوں سے فرما رہے تھے کہ "جب یہ ٹھیک سے بن جائے گا" تب درحقیقت انسان کا لباس یعنی انسانی جسم زمین پر ارتقا در ارتقا سے گزرتا ہُوا فائن ٹیون ہو رہا تھا.
سُورة نُوح میں اللہ واضح طور پر کہتے بھی ہیں کہ ہمیں سٹیجِز میں تخلیق کیا گیا۔ (وقد خلقکم اطواراً)، سورة العنکبوت میں اللہ تو خود دعوت دیتے ہیں کہ زمین میں پھر کر غور کریں کہ زندگی کی ابتدا کیسے ہوئی، اب زمین سے ملنے والے فوصلز آج کی شکل میں انسان بننے سے ذرا پہلے ہوموسپینئینز وغیرہ کے بارے میں سمجھا رہے ہیں تو کیا کیجیے گا۔ خیر آپ ساری زمین سے مٹی اکٹھا کرنے اور ایک اکائی سے زندگی شروع ہو کر سٹیجِز میں اسکے ٹھیک ہونے یعنی انسانی شکل تک پہنچنے اور پھر انسان میں اللہ کی روح پھونکے جانے کے تصورات کو باہم جوڑیں تو لامحالہ ارتقاکے سائنسی نظریے سے ملتا جلتا ہی کوئی نتیجہ نکلے گا۔
یہ بھی سمجھ آتی ہے کہ انسان کی تخلیق پر فرشتے بقول قرآن اس خدشے کا اظہار کیوں کر رہے تھے کہ یہ زمین پر فساد کرے گا، یقیناً وہ غاروں میں رہنے والے بغیر روح کے انسانی جسم کو لڑتے جھگڑتے خون خرابہ کرتے دیکھتے تھے،
گویا آدمؑ اور حوّاؑ (جو انسانی جسم بننے سے پہلے بھی جنت میں رہتی باقائدہ باشعور شخصیات تھے)، کو جنّت سے نکالے جانے کے بعد اللہ کی روح کے ساتھ اُس انسانی جسم میں پھونکا گیا تھا جو پہلے سے زمین پر موجود تھا اور کروڑوں سال کے ارتقا در ارتقا کے بعد بقولِ قرآن اس حد تک "ٹھیک" ہو چکا تھا کہ اس میں نہ صرف آدمؑ کو بھیجا جا سکے بلکہ اس میں اللہ کی روح بھی پھونکی جا سکے۔
گویا فرشتوں نے بھی سجدہ اللہ کی اُس روح کو کیا جو انسان کو بخشی گئی تھی۔اگر اس سارے تصور کا خلاصہ کیا جائے تو بات کچھ یُوں بنے گی کہ انسانی جسم تو یہیں زمین پر تیار ہوا، اپنی تیاری کے مختلف مراحل میں یہ کبھی مکمل جانور تھا کبھی نیم جانور کبھی نیم انسان پھر نی اینڈرتھل اور ہوموسیپئینز جیسی سٹیجز کے بعد یہ اس قابل ہُوا کہ اللہ اس میں وہ انسانی نفس منتقل کر دے جِس نے عہدِ الست لیا تھا۔اس منتقلی کے وقت انسان کی مسلسل رہنمائی کے لیے اللہ نے "اپنی" روح بھی ساتھ کر دی۔
تبصرہ لکھیے