ہوم << زندگی مسکرانا بھول گئی - کنزہ محمد رفیق

زندگی مسکرانا بھول گئی - کنزہ محمد رفیق

زندگی سے لطف کون لوگ کشید کرتے ہیں ؟
کن لوگوں کو زندگی قوس قزح کے رنگوں سی لگتی ہے؟
زندگی کن لوگوں کی سہل ہوتی ہے؟
دنیا کن لوگوں کو عزت و آبرو کی نگاہوں سے دیکھتی ہے؟

دنیا پڑھے لکھے اور اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگوں کو پوجتی یے۔ بس یہی اٹل حقیقت ہے۔

مگر، آج چاروں اطراف نگاہیں دوڑانے کے بعد دل بہت بری طرح دکھتا یے، زندگی سے لطف صرف وہی لوگ کشید کرتے ہیں، جن کے والدین اور اساتذہ ان کے لیے راہیں ہموار کرتے ہیں۔ والدین اعلیٰ عہدے داران ہوں، تو بچوں کی زندگی سہل ہو جاتی ہے اور اساتذہ بھی ایسے بچوں کی آؤ بھگت کرتے ہیں۔ تاکہ ان کے والدین راضی رہیں۔ آج زیادہ تر اداروں محض نصاب پڑھایا جا رہا ہے، جوکہ زندگی میں بہت کم کام آتا ہے۔بچوں کی شخصیت سازی پر زرا توجہ نہیں دی جا رہی۔ انہیں آگے زندگی میں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا، کوئی استاد بات نہیں کر رہا، اور جن بچوں کے والدین نے غربت میں زندگی بسر کی ہو، اور انہیں بڑا سوچنے سے بھی ڈر لگتا ہو تو ذرا سوچیے، ایسے بچوں کا کیا ہوتا ہوگا ؟

چھوٹے بچے کو زیادہ توجہ کی ضرورت ہوتی یے، اور آج اسکولز میں میٹرک پاس لڑکی پڑھا رہی ہے۔ کیا وہ ٹیچر بچوں کی ذہن سازی کرے گی؟ کیا وہ بچوں کو کتابوں سے محبت کرنا سکھائے گی؟ کیا وہ بچوں کے اندر موجود خوف ختم کرے گی؟
کیا وہ بچوں کو ڈائس پر آکر بولنا سکھائے گی؟ یقیناً نہیں۔۔۔۔۔۔

وہ صرف بورڈ پر لکھوائے گی اور آج یہی سب تو ہو رہا ہے۔ اور پھر امید رکھی جاتی ہے پاکستان ترقی کرے گا؟ کیا یہ مضحکہ خیز بات نہیں ؟دنیا قوی لوگوں کے آگے جھکتی ہے۔ اس کے برعکس، آج ہر دوسرے گھر میں لڑکی کو تھوڑا بہت پڑھا لکھا کر بیاہ دیا جاتا یے۔ اور وہ لڑکی اصلیت سے بے خبر دنیا کی رنگینیوں میں کھوئی ہوتی یے، شادی کے بعد شوہر یا سسرال والے ظلم و زیادتی کریں، تو اسے اپنے حق کے لیے بولنا نہیں آتا۔ صبح وشام ان کی خدمتیں کرنا، اور خاموشی سے ظلم سہتے جانا ان کا معمول بن جاتا ہے۔

"اے ظلم کے ماتو لب کھولو چپ رہنے والو چپ کب تک
کچھ حشر تو ان سے اٹھے گا کچھ دور تو نالے جائیں گے"

زرا سوچیں ایسی ماں اپنے اولاد کو کیسے بےباک بنائے گی؟ کیسے ظلم کے خلاف آواز اٹھانا سکھائے گی ؟وہ اپنی بیٹی کو اپنا پرتو بنائے گی، اور بیٹا? یوں یہ سرکل چلتا رہے گا۔مگر، جو ایسے گھٹن زدہ ماحول میں رہ کر اپنے بل بوتے پر آگے بڑھتا ہے، تو لوگ اس سے حسد کرتے ہیں۔ بعض آپ کے اپنے آپ کے دشمن بن جاتے ہیں۔ یہ بات میں نہیں کہہ رہی قرآن کہہ رہا ہے۔

"اے ایمان والو! بے شک تمہاری بیویوں اور اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن بھی ہیں سو ان سے بچتے رہو۔"
(سورہ التغابن آیت نمبر 14)

جو انسان سب سے الگ بننا چاہتا ہے تو سب کی نگاہیں بھی اسی پر ہوتی ہیں، اور یوں کثیر تعداد میں اس کے دشمن بن جاتے ہیں۔ مگر جس کا ساتھی اللّٰہ ہو اس کو بھلا کس کی ضرورت ؟

ہم کہاں جا رہے ہیں؟ آخر کب تک یہ سب معاشرے میں چلتا ریے گا ؟ آخر کب تک غرباء اور مزدور پستے رہیں گے ؟کیا سفارش کے ساتھ ملی گئی ترقی صرف امیر باپ کی اولاد کے نصیب میں ہوتی یے، اور غریب یوں ہی بےکیف زندگی بسر کرے گا؟ تعلیم اور شعور غریب کا بھی حق یے۔ مگر یہ کوئی سوچنے اور سمجھنے والا نہیں۔ہر طرف افسردہ، مفلس، اور غریب چہرے دکھتے ہیں، جو دل کو مسوس کر رکھ دیتے ہیں۔

کیا بس یہی زندگی ہے؟
پستے رہو، کڑھتے رہو اور ؟ خاموش رہو!
شعور کے بغیر زندگی سے موت حد درجہ بہتر یے۔