ہوم << عقل کا حسن - سائرہ اعوان

عقل کا حسن - سائرہ اعوان

کچھ برس پہلے میں ایک بڑے شہر گئی تھی ، یاد آتا ہے کہ وہاں کی لڑکیوں کے ہاتھ پیر اتنے خوبصورت تھے کہ میں سوچتی رہ جاتی کہ ان ہاتھوں پر کبھی محنتوں مشقتوں کی میل بھی پڑتی ہوگی ؟ دل چاہتا تھا ان کے ہاتھ تھام کر پوچھوں
" سَکھیے سہیلیے ! کدی تُو بھانڈے وی دھوتے ؟ "

اور اس سارے دورانیے میں ایک بات نوٹ کی تھی کہ وہ سستے سے ٹو پیس اور ساتھ سادہ سے دوپٹے میں بھی اتنی خوبصورت اور پرکشش معلوم ہوتی تھیں۔پھر میری ایک ٹیچر نے بتایا کہ شہر کی لڑکیاں اس معاملے میں بڑی عقلمند ہوتی ہیں کہ وہ مہنگے کپڑوں کی بجائے مہنگے کاسمیٹکس خریدتی ہیں ، اپنی جلد کو خوبصورت بنانے پر پیسے خرچ کرتی ہیں اور پھر سستے سے سوٹ میں بھی نکھری نکھری لگتی ہیں۔جبکہ گاؤں میں دونوں پر اتنا دھیان نہیں ہوتا۔عورتوں کے کام ہی ختم نہیں ہوتے ، سورج کے ساتھ جو چلتی ہیں۔ہاں جب شادیوں یا تقریبات کا موسم آئے تو اتنے مہنگے جوڑے خرید کر سال بھر کی حسرت پوری کرتی ہیں مگر مجال ہے جو ذرا اپنے ہاتھوں ، پیروں اور چہرے کی کلینزنگ کی طرف دھیان کرلیں.

مہنگے سے مہنگے جوڑے میں چھائیوں بھرا چہرہ لیے گھومتی ہیں۔بات ترجیح اور ذرا سی عقلمندی کی ہے یا شاید شعور کی۔۔۔۔کپڑوں پر پیسہ خرچ کرنے کی ضرورت ہی نہ رہے اگر انسان اپنے چہرے ، ہاتھوں اور پیروں کا خیال رکھے اور ذرا سا اپنا وزن بھی مینٹین کرنے کی کوشش کرلے۔یہ تو حُسن کی دو مادی اقسام کی بات کررہی ہوں ، یہ بھی ضروری ہے مگر وہ ایک خوبصورتی جو ہم پر اس قدر لازم و ملزوم ہے کہ اس کے بغیر کپڑے ، جوتے ، چمکتے ہاتھ اور دُھلی ایڑھیاں بھی بیکار پڑ جاتی ہیں۔اسے ' عقل کا حُسن ' کہتے ہیں۔اور وہ خوبصورتی کی معراج ہے . آج ہم جس پر بات کریں گے وہ ہے قرآن سے عقل کو خوبصورت بنانا !

میری زندگی میں سب سے خوبصورت عقل والا انسان جس سے میں بچپن میں کچھ برس مل پائی اور اس کے بعد ان کی وفات ہوگئی وہ بابا شیر محمد تھے۔شعور سے ذرا دیر پہلے ملی تھی ان سے ، پھر بھی ان کی جاذب عقل کا اثر مجھ پر آج بھی قائم ہے۔میں نے اس قدر کھرا اور نکھرا انسان پھر کبھی نہیں دیکھا۔ وہ زندگی کے ہر پہلو میں قرآن کی روشنی لے کر چلا کرتے ، ان کے پاس بیٹھو تو جیسے دنیا تھم گئی ہے اور اللہ کی بات ہورہی ہے۔ ٹھوڑی تلے ہاتھ رکھ کر سنتے رہو اور اس خوبصورتی کو جذب کرو جو تمہارے رب کی شان کا مرکز ہے۔

ان کے جوان بیٹے کی وفات ہوئی ، جو بہت لائق اور ذہین تھا۔ہہ صدمہ پورے خاندان پر ایک بھاری بوجھ بن کر اترا مگر بابا شیر محمد ۔۔۔۔ وہ دوسروں کو تسلی دینے والے تھے۔وہ انسانوں کے سامنے نہیں روتے تھے ، مگر اللہ۔۔۔ انہی کے ایک دوست بتاتے ہیں کہ کتنی بار انہیں جنگلوں میں گائے بکریاں چراتے ہوئے روتے دیکھا۔ وادی کی ہوائیں مشرق سے مغرب کی طرف تیرتے ہوئے درختوں کو ہلاتیں تو یہ روتے تھے۔یوں لگتا تھا سارا جنگل ان کے غم میں شریک ہوگیا ہے کیونکہ وہ اپنے غم کا صرف اپنے رب سے اظہار کرتے تھے۔اور جب لوگوں میں آجاتے تو ان کے لیے تسلی کا ساماں کرتے۔اصول پسند تھے اور اصول کی پابندی خاص طور پر مرد کو ایک مضبوط شخصیت بننے میں مدد دیتی ہے۔کیونکہ اس کے ہاتھوں میں اختیار رکھا گیا ہے۔

اختیار ، اصولوں سے مل جائے تو جاندار فیصلے ہو پاتے ہیں۔انہوں نے میری امی کی عقل کو بھی خوبصورت ہونے میں مدد کی۔امی کی شخصیت میں درگزر ، مہربانی ، خلوص اور مدد کا ایسا جذبہ رکھا ہے کہ مجھے شروع سے اندازہ ہونے لگا تھا کہ یہ کسی دنیاوی دروازے سے نہیں آیا۔ آہستہ آہستہ جانا کہ وہ تو سب کچھ اللہ کی رائے کے مطابق کیا کرتیں۔امی لوگوں کی خوبیاں مجھے اس وقت بتاتی ہیں جب وہ موجود نہیں ہوا کرتے ، انسانوں کو رب کی امانت سمجھ کر ان کا احترام کرنا اور خیال رکھنا یہ میں نے امی سے سیکھا اور امی نے عقل کی اس خوبصورت نعمت کو قرآن سے پایا۔

وہ اپنے بچپن میں بابا شیر محمد سے پنجابی میں قرآن سنا کرتی تھیں۔اور آج بھی میں تفسیر و تدبر کا کوئی قصہ سنانے بیٹھوں جسے میں انگریزی میں سیکھ چکی ہوتی ہوں وہ امی کو پنجابی میں ہوبہو یاد ہوتا ہے۔ یوں قرآن کی جانب میرے دھیان کا راستہ آسان ہوا میں نے اپنی عقل کو بھی اپنے وجود اور روح کا حصہ پایا۔عقل کو خاص طور پر جوانی میں ہم سوتیلا سمجھ کر چلتے ہیں۔ تب سمجھ میں آتا تھا کہ کیسے سکول میں یوسف علیہ السلام کا قصہ پسند آیا تھا۔وہ میری زندگی کی پہلی اور فیورٹ کہانی تھی جو سچی بھی تو تھی۔ کیونکہ میں اس بات سے بہت متاثر ہوئی تھی کہ یوسف علیہ السلام اپنی جوانی میں بھی عقل کے دل اور دل کی عقل کا شعور رکھتے تھے۔

کتنے ذہین ، کھرے ، پراعتماد اور تقوی والے نوجوان تھے۔کتنا ڈسپلن تھا ان کی شخصیت میں ،کوئی جھول نہ تھا ۔ توازن تھا !ان کی ذہانت کا اعلیٰ ترین معیار یہ تھا وہ بن دیکھے رحمن سے ڈرتے تھے۔ اور پریکٹیکلی ایمان لائے تھے ! پھر موسیٰ علیہ کی جذباتی ذہانت میرے لیے مشعل راہ بنی جب انہوں نے اللہ تعالیٰ سے اپنے خوف اور کمزوریاں شئیر کی تھیں ، بتایا تھا کہ کن مقامات پر جانے سے ان کے دل کو تنگی ہوتی ہے۔وہ اوور کانفیڈنس کی بجائے عجز والا اعتماد رکھتے تھے۔انہوں نے اللہ نے انسانوں کی صورت سپورٹ بھی مانگی تھی۔انسان ، جو انسانوں کی ٹیک ہوا کرتے ہیں۔

آج جب مغربی ماہرین panic attacks کو توڑنے ، بہتر انداز میں communicate کرنے کا ایک ہی نسخہ یعنی breathing therapy بتاتے ہیں تو میں محسوس کرتی ہوں موسیٰ علیہ السلام اس کائنات سے گزرے ہیں ۔۔۔ کتنی خوبصورتی ہے اس بات میں کہ وہ اُس زمانے میں رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ کی صورت وہ نسخہ بتا گئے جو آج انگریزوں کے لیے نئی بات ہے۔پھر ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں سوچتی ہوں تو لگتا ہے انہوں نے اپنے رب کو خود ڈھونڈنے کی جست کی تھی۔ ہر عمر میں ان کے وہ امتحان آئے تھے کہ وہ ہر امتحان میں اللہ کو اپنی ترجیح بناتے تھے۔ جب گھر سے نکلے تو جو دعائیں کیں ، ان کی تفسیر پڑھو تو لگتا ہے اتنی خوبصورت عقل۔۔۔۔

جوانی میں ! اللہ کی خاطر گھر کو چھوڑتے ہوئے کوئی اتنی خوبصورت دعائیں مانگ رہا ہے۔۔۔۔ اتنی گہری باتیں کی تھیں انہوں نے اللہ سے مخاطب ہوکر ، ہر فلسفہ ہار جاتا ہے ان کی گہرائی کے آگے ۔ ابراہیم علیہ السلام، گھر سے نکلتے ہوئے صالحین کا ساتھ مانگنے والے ابراہیم علیہ السلام کے پاس وہ خوبصورت عقل تھی جو خوف سے آزاد تھی اور وہ اللہ کو ہاں کہہ دیتے تھے۔پھر میں قرآن سے انسان کے جذبات کی اہمیت جان پائی۔یہ بھی انگریزی میں لکھی کتابوں سے پہلے قرآن نے مجھے بتایا کہ انسان کے احساسات کی حرمت کیا ہے ، کیسے اللہ تعالیٰ نے ایک ماں کے emotions کا اتنا خیال رکھا کہ موسیٰ کو انہیں لوٹا دیا۔

کیسے اللہ تعالیٰ آنکھوں کی ٹھنڈک پر قادر ہیں ، سورہ التین سے میں نفس کی گتھیوں کو سمجھ پائی ہوں جو نہ سمجھ پاتی تو مجھے self awareness, problem solving یا decision making کی سمجھ کبھی نہ آتی۔انسان کی نفسیات کو قرآن سے جانا ، کیسے باؤنڈری بنانے سے پہلے درگزر کا اہم ترین مرحلہ آتا ہے ، کیسے کسی کو ٹاکسک قرار دینے سے پہلے خوبصورت قول سے اس کی شخصی کمزوریوں تک پہنچ کر اسے سمجھا جاسکتا ہے۔قرآن ۔۔۔ پڑھنے والے حسین ہوتے ہیں ، ان کی گفتگو دور سے سن لو تو آ کر بیٹھنے کو جی چاہتا ہے۔

قرآن مجھ پر قیامت کے دن چھاؤں کردے گا یا نہیں یہ تو اللہ تعالیٰ کے فیصلے ہیں۔دنیا کی تپتی دھوپ میں ، کچھ چھاؤں جیسی ٹھنڈی ، نرم اور سیف سپیس ہے تو وہ قرآن ہے۔یہ ٹھنڈی اجلی روشنی جیسا ہے....یہ اندھیروں سے لڑنے میں مدد دیتا ہے۔جب زندگی مچھلی کے پیٹ میں اندھیری رات جیسی لگنے لگے تو یہ قرآن ہی ہے جو وکٹم مائنڈ سیٹ کی بجائے اپنی غلطیوں کی پہچان کرنے ، ان کا اقرار کرنے اور رب کی جانب رجوع کرنے کو عقل کی تربیت کرتا ہے۔مجھے جنت کا خیال آئے تو بس یہی آتا ہے کہ وہاں کی سب سے خوبصورت بات یہ ہوگی کہ ہم بہترین جذبات ، نکھرے احساسات اور خوبصورت عقل کے مالک ہونگے۔

قرآن ، عقل کو خوبصورت بناتا ہے۔اور اب تک میں جان پائی ہوں کہ زندگی جینے کے لیے ہمیں بہت زیادہ عقل کی ضرورت ہے نہ ہی لاپرواہی سے چلا جاسکتا ہے۔دونوں انتہاؤں سے پرے ، عقل کی پرسکون سی خوبصورتی کھڑی ہے۔ آپ کے پاس خوبصورت عقل ہو تو زندگی میٹھی مصری سی ہے۔