ہوم << مسجد اور اسلامی مرکز - محمد علم اللہ

مسجد اور اسلامی مرکز - محمد علم اللہ

گزشتہ روز ایک منفرد تجربے کا مشاہدہ ہوا جس نے دل و دماغ پر گہرے نقوش چھوڑے اور بہت سی نئی سوچوں کو جنم دیا۔

انگلینڈ کے ایک بڑے اسلامی مرکز کا دورہ کیا جہاں ایک تاریخی چرچ جو 1910 میں بنی تھی کو خرید کر مسجد اور اسلامی مرکز میں تبدیل کیا گیا تھا۔ یہ مسجد اپنی وسعت، خوبصورتی اور مقاصد کے لحاظ سے ایک شاندار نمونہ تھی۔ اس مرکز میں ایک "اوپن ڈے" کا انعقاد کیا گیا تھا، جہاں غیر مسلموں کے لیے مسجد کے دروازے کھول دیے گئے تھے۔اس موقع پر ایک بہترین نمائش کا اہتمام کیا گیا تھا، جہاں اسلام کی بنیادی تعلیمات، قرآن مجید کے اقتباسات، اور اسلامی تہذیب کے حیرت انگیز علمی و سائنسی کارناموں کو جدید انداز میں پیش کیا گیا تھا۔

اسلامی طرزِ حیات کے حوالے سے کھانے پینے کے اصول، سماجی روابط، اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کو دیدہ زیب پوسٹرز اور معلوماتی مواد کے ذریعے بیان کیا گیاتھا۔ مزید برآں، مسجد کے والنٹیئرز زائرین کے سوالات کے جوابات دینے کے لیے موجود تھے، ان کی غلط فہمیاں دور کرتے اور انہیں اسلام کی حقیقی تصویر سے روشناس کراتے رہے۔یہ منظر میرے لیے ایک اہم سبق بن گیا۔ میں نے سوچا کہ ہم ہندوستانی مساجد کو کیوں نہ اس طرح فعال اور عوامی فلاح کا مرکز بنائیں؟ مسجدیں صرف عبادت کی جگہ نہ رہیں، بلکہ انہیں معاشرتی فلاح و بہبود کا ایک محور بنایا جائے۔
ہم اپنی مسجدوں میں چند بنیادی اقدامات کر سکتے ہیں، مثلاً:

1. غریبوں اور ضرورت مندوں کے لیے فریج کی سہولت
ایک بڑی فریج نصب کی جائے جس میں کھانے پینے کی اشیاء رکھی جائیں۔ کوئی بھی ضرورت مند بے خوف ہو کر ان اشیاء سے فائدہ اٹھا سکے۔

2. لباس اور دیگر ضروری اشیاء کا انتظام
مسجد کے ایک کونے میں کپڑوں کے لیے ہینگر نصب کیے جائیں جہاں سے ضرورت مند افراد اپنی ضروریات پوری کر سکیں۔

3. تعلیمی اور جسمانی سرگرمیاں
مسجد کو صرف مکتب کی تعلیم تک محدود نہ رکھا جائے، بلکہ وہاں بالغ افراد کے لیے تعلیمی پروگرامز منعقد کیے جائیں۔ صبح کے وقت جسمانی ورزش اور دوڑ کی سہولت فراہم کی جائے، جہاں ہر مذہب کے افراد بلا جھجھک شریک ہو سکیں۔

4. شادی بیاہ کے لیے استعمال
مساجد کو شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کے لیے استعمال میں لایا جائے۔ اس سے لوگ مہنگے میرج ہالز کی بجائے مساجد کا رخ کریں گے، اور مسجدوں کا استعمال زیادہ مؤثر ہوگا۔

ہندوستان میں بدقسمتی سے مساجد کو اس طرح کے اقدامات کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا۔ صرف نماز کے وقت ان کا دروازہ کھولا جاتا ہے اور پھر تالا لگا دیا جاتا ہے۔ جماعت اسلامی کی چند مساجد میں کچھ سرگرمیاں ضرور نظر آتی ہیں، لیکن عمومی طور پر دیوبندی اور بریلوی مساجد ایسی مثبت سرگرمیوں سے خالی ہیں۔ہمارے پاس شاندار عمارتیں اور مضبوط انفراسٹرکچر موجود ہے، لیکن وہ انسانیت کی خدمت کے لیے استعمال میں نہیں آتیں۔ اگر ہم چاہیں تو مساجد کو عوامی فلاح کا مرکز بنا کر ایک انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ مساجد کو دوبارہ ان کے حقیقی مقصد کے تحت استعمال کیا جائے۔ وہ صرف نماز پڑھنے کی جگہ نہ ہوں، بلکہ سماجی، تعلیمی اور فلاحی سرگرمیوں کا گہوارہ بنیں۔ اگر ہم یہ اقدامات اٹھائیں، تو ہماری مساجد نہ صرف مسلمانوں بلکہ پوری انسانیت کے لیے خیر و برکت کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔