مولانا طارق جمیل صاحب کا ایک بیان سنا کہ " دین تو کہتا ہے کہ ناچنے والی سے بھی نفرت نہ کرو - تو آخر کیا کرو؟ دین کی تعلیم یہ ہے کہ نفرت جرم سے اور گناہ سے کرو، انسان سے نہیں. سیرت اور تفسیر کی کتابوں میں ایک مشہور واقعہ ہے "غامدیہ" کا، جب اسے زنا کے اقرار پر رجم کیا جانے لگا اور اس کے خون کے چھینٹے ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے کپڑوں پر پڑے، تو ان صحابی کے منہ سے اس عورت کے لیے کچھ برے الفاظ نکل گئے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کہ اے فلاں! اسے ایسا نہ کہو، آج اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اس توبہ کو پورے مدینہ والوں پر تقسیم کر دیا جائے تو سب کو کافی ہو جائے۔ اگلے جہان کا حال تو اللہ ہی جانتا ہے۔ لیکن دین کی رُو سے ہمیں تعلیم یہی دی گئی ہے کہ "نفرت مجرم سے نہیں، جرم سے ہے"
حقیقت یہ ہے کہ اپنے لیے تو ہر کوئی گنجائش نکالتا ہے، مگر دوسروں کو کوئی رعایت نہیں دیتا. بلاشبہ ہمیں اپنے رویوں کو درست، اور اپنے ضمیر کو جگانے اور اپنے ظرف کو ارفع و بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنی حیثیت کو سمجھیں کہ ہمیں مسائل کا حل نکالنے والا بنایا گیا تھا اور ہم محض رائے دینے والے بن کر رہ گئے۔ دوسری بڑی بات سیکھنے کی یہ ہے کہ احادیث کی رو سے دین میں ہر مر جانے والے کے لیے دعائے خیر کرنےکی تعلیم دی گئی ہے۔ مرنے والے کے عیوب اور برائیوں کو بیان کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔
اسی ضمن میں ایک اور بات سمجھنے اور سمجھانے کی ہے، وہ ہے مجرم اور شریک جرم کا معاملہ. اگر قندیل نے ماڈلنگ کی یا جو کچھ بھی کیا تو اعلانیہ کیا۔ معاشرے میں چند لوگوں نے وہ نظام بنایا ہے جس نے اس عورت کو ترغیب دی کہ وہ ایسا کرے، پھر کچھ اور لوگ بھی موجود رہے اُس عورت کی قیمت لگانے والے اور کچھ مزید لوگ بھی رہے ہیں اس عورت کو قیمت ادا کرنے والے۔
یہ سب کام چھپ کر نہیں ہوا اور نہ ہی چھپ کر ہوتا ہے جناب! یہاں دین مجرم اور شریکِ جرم سے برابر کا سلوک کرنے کی تعلیم دیتا ہے ۔
سزا کے وقت کہاں ہیں قیمت لگانے والے؟
کہاں ہیں ترغیب دینے والے؟
کہاں ہیں فحش کاروبار کروانے کی خاطر اندھیرے راستوں پر لے جانے والے؟
کہاں ہیں اس کو اس کی قیمت ادا کرنے والے؟
ان کی سزائیں کون بتائے گا معاشرے کو؟
اور ان کو سزائیں دے گا کون ؟
ان سب فحش کام کرنے والوں کو سامنے کیوں نہیں لایا جاتا؟
ہے کسی میں اتنی طاقت؟
ہے کوئی جو میڈیا کے نام پر چلنے والے کاروبار کا دین کے مطابق ضابطۂ اخلاق طے کرے؟ یا اب کوئی اینکر یہ طے کرے گا؟ ان میں سے جو بھی کہتا ہے کہ میری بیٹی ایسا کرے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں، کیا ان لوگوں نے کبھی عوام کو ڈیل کیا ہے؟ کیا ان کو معلوم ہے کہ اس معاشرے میں لوگ بیٹیوں کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں؟ کیا یہ لوگ عوام میں آکر ایسے بیانات دے سکتے ہیں؟ کیا ان کو واقعی علم نہیں جب یہ بیٹیوں کی یوں تحقیر کروانے کی تبلیغ کریں گے تو عوام ان کی حالت جانوروں سے بدتر نہیں کریں گے؟ سوال یہ ہے کہ یہ ضابطۂ اخلاق اب کون دے گا؟ جی ہاں ! مجھے معلوم ہے کہ فی الوقت کوئی نہیں دے گا۔ اور تب تک کوئی نہیں دے سکتا جب تک اس معاشرے میں دین کو یتیم کی طرح رکھا جا ئے گا۔
کچھ عرصہ پہلے گزر ہوا اندرون لاہور سے. ایک رشتہ دار کی عیادت کے لیےجانا تھا، قریبی تعلق بھی تھا. لیکن گلیاں بہت تنگ تھیں اور بازار کھلے ہوئے تھے، گاڑی کو راستہ کوئی نہیں دے رہا تھا۔ لہٰذا گاڑی کوجیسے تیسے ایک کنارے چھوڑا اور رکشہ پکڑا. اس کو بتایا کہ "اُچی مَسِیت" کے سامنے لے چلو۔ رکشہ جب چلا تو کچھ نئے راستے اور نئی گلیوں سے گزرا، بھاٹی گیٹ کے اندر باجےگاجے ،گھنگرو، ڈھول، ستار اور طرح طرح کے باجے نظر آنے لگے۔ رکشے والے سے پوچھا کہ یہ کون سی نئی جگہ لے آئے ہو؟ رکشے والے نے پوچھا آپ لوگ پہلی بار آئے ہیں؟ ہم نے کہا کہ نہیں! ہم تو بچپن سے آرہے ہیں لیکن یہ گلیاں پہلی مرتبہ دیکھی ہیں۔ بولا "باجی! یہ ہیرا منڈی کہلاتی ہے، یہاں بڑا کاروبار ہوتا ہے ۔ آج شام صلّی کا مجرا ہے، بڑے پیسے لگاتا ہے، بڑے تعلقات ہیں اس کے۔ بہت بڑا کاروباری بندہ ہے، یہ راستہ چھوٹا ہے اور رش کم ہے اس لیے یہاں سے چلتے ہیں"۔ اُف! کانوں سے دھواں نکال دیا۔
واپسی پر شام ہوچکی تھی ایک چوراہے سے گزرتے ہوئے کانوں نے گھنگرو کی آواز کچھ دور سے آتی سنی۔ مڑ کے دیکھا تو ایک رش تھا. موٹے موٹے آدمیوں اور بڑی بڑی عالی شان چمک دار گاڑیوں کا۔گارڈز بھی ساتھ تھے۔ ان گاڑیوں پر پنجاب سرکار کی سبز نمبر پلیٹس بھی سجی ہوئی تھیں۔
واہ! بےشرمی کی حد ختم اور قوم کے ٹیکس سے لی گئی گاڑیوں کا استعمال.
کیا خوب امانت داروں نے امانت کا حق ادا کیا ۔
جی ہاں! یہ ہمارے معاشرے کی تلخ حقیقت ہے.
یاد آیا کہ سکول و کالج کے زمانے میں کچھ مخلص اور حسّاس لوگوں نے وطن کی محبت دل میں پیدا کی تھی۔ اُن میں ایک ہماری اردو کی استاد تھیں جو بہت اچھا اور دوستانہ ماحول میں پڑھایا کرتی تھیں۔ شاعری اور تشریح میں ایک دن پڑھانے لگیں کہ شاعر کہتا ہے کہ "اِک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے" استاد کا اپنا علم اور تجربہ تھا ،ہمارا اپنا محدود سا۔ طالب علم سن کر حیران کہ یہ استاد نے کیا کہہ دیا؟ آگ کا دریا اور ڈوب کے جانا ہے؟ مِس ! ہم آگ سے ڈوب کر کیسے جائیں گے؟ لگتا ہے آپ نے غلط کہہ دیا۔ ہمیں لگتا ہے کہ یوں ہوگا "اِک آگ کا دریا ہے اور کُود کے جانا ہے"۔ اور ہم تو کود کے ہی جا سکتے ہیں، بھلا آگ میں سے ڈوب کر کون جاسکتا ہے؟ لیکن استادِ محتر م کا اصرار تھا کہ نہیں شاعر نے ٹھیک یہی کہا ہے کہ " اِک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے"۔
اس دن "ہیرا منڈی " سے گزرے تو پتہ چلا کہ واقعی استادِ محترم ہی درست تھیں، اللہ ان کو غریقِ رحمت کرے۔ یہاں تو واقعی "اِک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے"۔ لیکن کب تک جانا ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ یہ بات معاشرہ اور حاکم خود طے کریں گے۔ اور وقت بہت ظالم بھی ہے، خود طے کروا دے گا کہ کب تک یہ تماشا مزید چلنے والا ہے؟
لیکن اے کاش! کہ قندیلوں کو بجھانے کے بجائے اصل ذمہ داروں اور ان اداروں کو بجھایا جائے جو میڈیا انڈسٹری کے نام پر اپنا کاروبار پھیلاتے ہیں. ان کو کٹہرے میں لایا جائے۔ تب بات بنے گی۔ قندیلیں تو معمولی سے پُرزے ہیں اس کاروبار کے۔ وہی بات ہوئی کہ چھوٹی مچھلی کو ہر کوئی پکڑتا ہے اور بڑی مچھلیوں کو کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا ۔ کب تک؟ آخر کب تک؟
تبصرہ لکھیے